بیرسٹر حمید باشانی
معاشی اصطلاح میں افراط زر وہ شرح ہے، جس کے مطابق کسی ملک میں ” گڈز اینڈ سروسز” یعنی اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک میں افراط زر بڑھنے یا کم ہونے کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے۔ ایک عالمی معاشی حالات و واقعات، اور دوسرا کسی ملک کے اپنے داخلی معاشی ، سیاسی حالات اور حکومت کی پالیسیاں جو حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کرتی ہے۔ افراط زر طلب اور رسد کے معاشی اصولوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔
افراط زر کو کسی بھی ملک میں مخصوص صورت حال اور تبدیلی کی شرح کے لحاظ سے ایک اچھا اور مثبت عمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن عام حالات میں اسے عام طور پر منفی عمل طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض اوقات مہنگائی میں تھوڑے بہت اضافے کو عام طور پر اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت بڑھ رہی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اور اس کے باشندوں کی مناسب آمدنی ہے، یا اس میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کی قوت خرید بڑھ رہی ہے۔ تاہم،افراط زر اس وقت ایک مسئلہ ہوتا ہے، جب قیمتیں اجرت سے زیادہ تیزی سے بڑھ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے، اور ملک کی کرنسی کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے۔
یہ وہ صورت حال ہے، جو اس وقت عالمی سطح پر کئی ممالک کو درپیش ہے۔ اس میں امیر اور غریب ہر طرح کے ممالک شامل ہیں۔ پاکستان میں اس وقت روپے کی گرتی ہوئی قیمت، اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ اسی عالمی اور داخلی صورت حال کا شناخسانہ ہے۔ عالمی صورت حال پر بسا اوقات مقامی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا، اس لیے اگر مہنگائی بڑھنے کی اہم اور بنیادی وجہ عالمی حالات ہوں، تو مقامی حکومتیں اس پر قابو پانے میں تو بے بس ہوتی ہیں، لیکن اپنے عوام اور خصوصا غریب اور پسے ہوئے طبقات کو مہگائی کے خوفناک اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کرسکتی ہیں۔
ان اقدامات سے بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ ہر مقامی حکومت کے پاس ہمیشہ یہ گنجائش ہوتی ہے کہ انتہائی نا سازگار عالمی حالات میں بھی ایسی مقامی پالیسیاں اپنا سکتی ہے، جو عوام اور غریب طبقے کو بھوک ننگ اور مزید غربت میں دھنسنے سے بچا سکے۔ اس کے لیے اس وقت کی حکمران اشرافیہ میں عوام کا درد اور فکر ہونا ضروری ہے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم کی پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں، اور ملک کے مراعات یافتہ خوشحال طبقات کی دولت اور مراعات کمی کے زریعے دولت جمع کی جاتی ہے، اور منصفانہ پالیسیوں کے تحت اس دولت سے غریب طبقات کو رعایت دی جاتی ہے۔
عام طور پرمہنگائی کی تین بڑی وجوہات ہوتی ہیں، جن میں سر فہرست اشیا کی میں مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی مہنگائی اس وقت ہوتی ہے جب اشیا اور خدمات کی مانگ اضافہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کو اشیا اور خدمات کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ یہ صورت اس وقت ہوتی ہے، جب مانگ معیشت کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ گویا ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے، لیکن سپلائی برقرار نہیں رہ سکتی، اس لیے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ مہنگائی میں اضافے کی دوسری اہم وجہ پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔اس کی ایک مثال خام مال میں اضافہ ہے۔ اگر کسی عام استعمال کی چیز کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت میں اضافہ ہو جا ئے، تو اس سے اس چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ چیزیں بنانے والے لوگ اپنی لاگت کو صارفین کو منتقل کر دیتے ہیں۔
تیسری وجہ اجرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ صورت عموما اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب یہ توقع کی جاتی ہے کہ افراط زر جاری رہے گا، لہٰذا صورت حال کو جوں کی توں برقرار رکھنے کے لیے اجرتوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے سامان اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، مزدور کو اپنے معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مزدوری کی لاگت میں اضافے کے نتیجے میں، ان اشیا یا خدمات کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں، جو مزدور پیدا کرتے ہیں، یا فراہم کرتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں کووڈ وائرس کی وبا اور اس کے فورا بعد روس یوکرین لڑائی کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا، اس کے پس منظر میں یہی وجوہات ہیں۔ اس سے تقریبا دنیا کا ہر ملک متاثر ہوا۔ لیکن بیشتر ممالک نے اپنی اندرونی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی کے اثرات کو بڑی حد تک قابو میں رکھا۔ جو ملک برقت موثر پالیسیاں بنانے میں ناکام رہے، وہاں مہنگائی کی شرح نا قابل تصور حد تک بلندی پر پہنچ گئی ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال وینزویلا ہے۔ اس وقت وینزویلا میں مہنگائی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے ایک تجزیے کے مطابق بعض اوقات، وینزویلا میں قیمتیں اتنی تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں کہ اسٹورز نے تجارتی سامان پر قیمتوں کے ٹیگ لگانا بند کر دیا، اور صارفین کو ہدایت کی کہ وہ ملازمین سے صرف یہ پوچھیں کہ اس دن کسی چیز کی قیمت کیا ہے۔
مہنگائی کی اس سطح کو ہائپر انفلیشن کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک معاشی بحران جو عام طور پر حکومت کے زائد اخراجات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان ہنگامی اخراجات میں جنگ ، حکومت کی تبدیلی، یا ایسے سماجی و اقتصادی حالات جن کی وجہ سے ٹیکس ریونیو سے فنڈنگ کم ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بڑی مقدار میں اضافی رقم چھاپنی پڑتی ہے۔ وینزویلا کی معیشت کبھی جنوبی امریکہ میں رشک کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہونے کی وجہ سے فی کس دولت بہت زیادہ تھی۔ مگر پیٹرولیم کی آمدنی پر اس قدر انحصار نے ملک کو خاص طور پر1980اور 1990 کی دہائیوں کے دوران تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار بنا دیا۔
اس صورت حال کی دوسری مثال سوڈان ہے، جہاں اندرونی پالیسیوں بنانے میں حکمران اشرافیہ ناکام رہی ہے۔ سوڈان میں اس سال کے آغاز میں افراط زر کی شرح تین سو چالیس اعشاریہ زیرو فیصد تھی، جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سوڈان میں مہنگائی کی وجہ خوراک، مشروبات اور امریکی ڈالر کی بلیک مارکیٹ ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے حالات اس قدر دگرگوں ہو گئے کہ عوام احتجاج پراتر آئے اور بالآخر اپریل2019 میں صدر عمر البشیر کو معزول کر دیا گیا۔ نئے حکام کو برسوں کی بدانتظامی سے دوچار معیشت کا رخ موڑنے کا کام سونپا گیا ، جو آسان کام نہیں۔ پاکستان میں بھی حکمران اشرافیہ کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے، جو تیز رفتار اور ہوشمند پالیسیوں کی متقاضی ہے۔ گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت دونوں میں یہ قدر مشترک رہی کہ وہ عالمی حالات کارونا رو کر زمہ داری سے دامن چھوڑانے کی کوشش میں رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کووڈ بحران اور روس یوکرین تنازعے نے دنیا میں معاشی بحران کو گہرا کیا ہے۔ لیکن عالمی حالات کے باوجود ہر ملک انفرادی طور پر مقامی سطح کے اقدامات کر سکتا ہے، جو ملک کے غریب طبقات کے مصا ئب او درد میں بڑی حد تک کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات اب حکومت کی صوابدید نہیں، بلکہ مجبوری ہے، جس سے پہلو تہی کی گنجائش نہیں ہے۔
♣