پائندخان خروٹی
پل پل بدلتی دنیا میں تحقیق نیچرل اور سوشل سائنسز کے ہر سبجیکٹ کا لازمی جز بن چکا ہے لیکن بدبختانہ ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر ریسرچ کا رحجان نہیں ہے اور جو تھوڑا بہت ہے وہ بھی تعصبات، موضوعیت اور تحقیق سے وابستہ افراد کی نااہلی کے باعث بےنتیجہ اور غیرمتعلق ہے۔ فی الوقت ہمارے معاشرے میں تحقیق اعلیٰ تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور ان میں زیر تعلیم طلباء اور طالبات تک محدود ہے جبکہ ایجوکیشن سیکٹر کے علاوہ کسی دوسرے شعبہ کے افراد تحقیق کے پراسس میں شریک نہیں ہیں۔ جو افراد پی ایچ ڈی اور ایم فل کر رہے ہوتے ہیں ان کا اصل مقصد اپنے کیریئر میں گریڈ بڑھانے، تنخواہ میں اضافہ کرنے، اعلیٰ ڈگری فیشن شو شامل ہونے اور ذاتی فوائد حاصل کرنا ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے ریسرچ پیپرز کا معاشرے پر کوئی اثر یا اثرات نظر نہیں آتے۔
شاید اسی لیے ان کی اکثریت پر الزام عائد ہوتا ہے کہ وہ ڈگری ہولڈرز تو ہیں مگر نالج ہولڈرز ہرگز نہیں۔ اس طرح یونیورسٹیوں پر بھی یہی الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ اعلیٰ ڈگریاں بانٹنے والے تعلیمی ادارے تو ہیں لیکن علم وشعور پھیلانے میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمارے صوبے میں تعلیمی اداروں کی غیراطمینان بخش کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی سطح پر سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحان میں ساٹھ نشستیں گزشتہ چار پانچ سال سے مسلسل خالی پڑی ہیں اور صوبہ کا کوئی امیدوار پاسنگ مارکس لینے میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔
اس ضمن میں چیرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں پچھلے پچیس سال میں تقریباً بیس ہزار سکالر پیدا کیے ہیں جن پر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہم تعلیمی معیار کی زوال یا انحطاط پذیری کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ چیرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر طارق بنوری کا کہنا ہے کہ ” ہم نے اپنے بچوں کو تعلیمی لحاظ سے بربادی کا شکار کیا ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہائیر ایجوکیشن تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنا تو دور کی بات ہے ہم اچھے شہری پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں“۔
جدید تحقیق اور تحقیقی رحجانات کے فروغ نہ پانے کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی غربت، بےروزگاری اور خرد دشمنی ہیں۔ اکثر لوگ مختلف سماجی قدغنوں، دباؤ کو قبول کرتے ہوئے سچائی کے اظہار سے گریز کرتے اور خاموشی اختیار کرنے میں اپنی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ دوسری طرف جو تھوڑے بہت لوگ اس میدان میں قدم رکھتے ہیں وہ تحقیق کی صلاحیت سے محروم ہیں، تحقیق کے بنیادی طریقہ کار سے ناواقف ہیں، مختلف فقہی اور قبیلوی تعصبات کے خول میں بند ہیں اور جو تھوڑا بہت حقائق کو سمجھتے ہیں وہ ذاتی مفادات، خوف اور بالادست طبقہ کے ساتھ رشتے استوار کرنے اور خدمات کی فراہمی میں سرگرم نظر آتے ہیں۔ تحقیق کی راہ میں ایک اور بڑی رکاوٹ علم وادب کی دنیا میں ڈبل معیار ہے۔
آج بھی اگر ہماری قومی پارٹیز، اکیڈمیز اور تحقیقی مراکز قومی آزادی کے تمام حقیقی اکابرین اور ترقی پسند قائدین کو کسی فرق اور تعصب کے بغیر مساوی طور پر برتنا شروع کر دیں تو آپس کے کئی گلے شکوے دور ہو سکتے ہیں۔ محض اس بنياد پر کسی شخصیت کو نظرانداز کرنا کہ اس کا تعلق کسی چھوٹے صوبے، قوم یا غریب گھرانے سے ہے تو یہ ایک علمی خیانت او غیرسنجیدہ رویہ کی غمازی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ تعصب پر مبنی اس رویے کو بعض صنوبری اہل دانش و بینش نوٹ بھی کرتے ہیں جسکو ریکارڈ پر بھی لایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا تمام شخصیات کا تعین فرقے یا قبیلے کی بجائے میرٹ پر کیا جاتا چاہیے۔
مثلاً تحریک آزادی ہند کے صف اول کے ہیرو، ادب، سیاست اور صحافت کا معتبر نام کاکاجی صنوبرحسین مومند کے مقابلے میں ایک عام علاقائی شاعر کو ترجیح دینا، اس پر تقریبات اور سیمیناروں کا انعقاد کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی شخصیت یا فولکلور کو انٹرنیشنل لٹریچر سے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنا یا مبالغہ آرائی سے کام لینا تو کسی طور مناسب نہیں ہے۔ آج اگر کوئی ادیب، مورخ یا محقق غیر محسوس انداز میں اپنے ادب پارہ، ادیب یا کسی قبائلی و مذہبی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر بین الاقوامی معتبر ترقی پسند شخصیات کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کریں یا قومی کلچر کو انٹرنیشنل سیویلائزیشن سے بڑھا چڑھا کر پیش کریں تو واضح رہے کہ آج کے باشعور قارئین اسے تسلیم کرنے کو کسی طور پر تیار نہیں ہیں۔
سائنسی سوچ واپروچ اور سیاسی خلقی شعور کی بدولت اندھی تقلید و تکرار کا دریچہ بند ہونے والا ہے۔ تحقیق میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اکثر محققین تخلیقی اور تنقیدی انداز اختیار کرنے کی بجائے اپنے سپروائزر کی ہدایات اور تیار نوٹ کو ہی تحقیق کا ماخذ سمجھتے ہیں۔ اور وہ ازخود حقائق کو جاننے، معاشرتی سچائیوں کو جانچنے اور سماج میں موجود منتشر خیالات کو اکٹھا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ اس عمل میں ریسرچر سے زیادہ قصوروار اس کا استاد ہے جو اسے ضرورت کے مطابق فکری رہنمائی دینے کی بجائے اپنی روایتی معلومات اور تعصبات تھوپ دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں طالب علم بھی جدت اور نیا پن اختیار کرنے کی بجائے روایتی معلومات تک محدود ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اکثر وہ فیلڈ یا سماج میں جانے کی زحمت بھی نہیں کرتے، سنی سنائی باتوں پر جلد یقین کرتے ہیں اور چھپی چھپائی چند کتابوں کے مطالعے کے بعد ان ہی کی مدد سے اپنا مقالہ تیار کرتا ہے۔
واضح رہے کہ ہمارے ہاں عوام کے سلگتے مسائل کی بجائے شخصیات پر پی ایچ ڈی کرنے کا رحجان عام ہیں اور ایسے بیشتر ریسرچ آرٹیکلز میں بالکل غیر سائنسی اور غیر علمی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایسی شخصیات جن کے ساتھ تحقیق کرنے والے کی وابستگی ہو ان کے کمزور پہلوؤں پر ایک سطر لکھنے کی زحمت نہیں کی جاتی جبکہ جن شخصیات کے ساتھ محققین کی سیاسی، فکری یا فقہی وابستگی نہ تو اسکی اچھائیوں کو بھی برائی ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کی جاتی ہے۔
یہ افسوسناک امر ہے کہ ایسی شخصیات جنہوں نے وقت کے حکومتوں اور بیرونی حکمرانوں کی بجائے عوام کے حقوق واختیارات کی پاسداری کا پرچم سربلند رکھا، برطانوی سامراج کی غلامی کی بجائے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا، جبر و استحصال کے خلاف سماجی انصاف کا نعرہ لگایا اور خرافات وتوہمات کے مقابلے میں انسانی عقل ودانش کا پرچم سربلند کیا۔ ان باغ وبہار تاریخی شخصیات اور قومی ہیروز کا ذکر کرنا نہ حکمرانوں کو پسند ہیں اور نہ علماء و معززین اسے گہوارہ کرتے ہیں۔ نہ ہی ہمارے تعلیمی نصاب میں ان کا تذکرہ ملتا ہے اور نہ ہی نام نہاد سکالرز اور محققین اس طرف توجہ کرتے ہیں۔
برصغیر پاک و ہند میں عوامی مفادات کا محافظ بھگت سنگھ، ہندوستان کے دیش نائیک سبھاش چندر بوس، پشتونخوا وطن کے ناقابل فراموش ہیرو کاکاجی صنوبرحسین مومند، آزاد قبائل کے چی گویرا فقیر آف ایپی، کشمیر کے لینن انعام یافتہ ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور بنگلہ دیش عظیم پولیٹیکل ایجٹیٹر عبدالحمید خان بھاشانی، عدم تشدد کے دلدادہ باچاخان، پشتونخوا کے حریت پسند رہنماء عبدالصمد خان اچکزئی اور سرحدی لینن عبدالرحیم پوپلزی وغیرہ جیسی شخصیات پر اپنوں اور غیروں نے آنکھیں بند کر رکھیں ہیں۔
آج بھی شعر و ادب کی طرح تحقیق کی دنیا میں حقائق کی بجائے لفاظی اور جملہ بازی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک جملے کو لیکر الفاظ تک محدود رہنا اور سیاق و سباق سے علیٰحدہ رہ کر الفاظ کے معنی تلاش کرنا ہمیں بین السطور علمی حقائق سے محروم رکھتا ہے۔ سچائی محض ٹیکسٹ میں نہیں بلکہ سچائی کونٹیکسٹ میں موجود ہوتی ہے۔ ٹیکسٹ اور کونٹیکسٹ کے باہمی ربط کو سمجھ کر ہی نظریہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔