ڈاکٹر مبارک علی
جب کسی معاشرے میں اقلیتوں کو تحفظ نہ ملے، دانشوروں کو آزادی کے ساتھ اظہار خيال کا موقع نہ دیا جائے، عورتوں کو ملکیت سمجھا جائے اور امیر و غریب کے درمیان بے انتہا فرق ہو جائے، تو وہاں ہجوم قدامت پرستی کو مستحکم کرتا ہے۔
فرانسیسی انقلاب اور صنعتی انقلاب نے یورپی معاشرے کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ نئے نظریات اور افکار پیدا ہو رہے تھے تاکہ سوسائٹی ترقی کی جانب بڑھے۔ ان نظریات میں قوم پرستی، سوشل ازم، سفر گیٹ کی تحریک اور آزاد منڈی کا تصور شامل تھے۔ دوسری جانب اس کے مقابلے میں قدامت پرست نظریات تھے، جن میں نسل پرستی اور فاش ازم کے ماننے والے تھے۔ لہٰذا ہجوم ان نظریات کی بنیاد پر جمع ہوتا تھا اور اپنے مطالبات پیش کرتا تھا۔
انیسویں صدی اس لحاظ سے قابل ذکر ہے کیونکہ اس دور میں مزدوروں کی ٹریڈ یونین منظم ہوئی۔ مزدوروں میں سیاسی شعور آیا اور انہوں نے اپنے مطالبات کی منظوری کے ليے ہڑتالیں کیں۔ فیکٹریوں میں توڑ پھوڑ بھی کی اور انہوں نے مظاہرے کيے اور پولیس سے مقابلہ بھی کیا۔ پولیس کی مار کھائی اور قید و بند کی سزائیں بھی برداشت کیں، لیکن ان اقدامات نے ان کے جوش اور جذبے کو کم نہیں کیا۔
سنہ1880ء کی بات ہے کہ مزدوروں کے ہجوم نے لندن میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔ ایک موقع پر جب ٹرافلگر سکوئر میں ہزاروں کی تعداد میں مزدوروں کا ہجوم تھا، پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے ليے طاقت کا استعمال کیا جس میں ایک مزدور شديد زخمی ہوا اور کچھ دن بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔ اس پر مزدوروں میں سخت غم و غصہ پیدا ہوا اور انہوں نے اس کی تدفین کے موقع پر ایک بڑا جلوس نکالا جس میں دانشوروں اور سیاست دانوں نے بھی شرکت کی۔ ان میں اینی بیسنٹ بھی شامل تھیں۔ مزدور کی تدفین کے بعد رہنماؤں نے پرجوش تقارير کیں جن سے سامعین بے حد متاثر ہوئے۔
اس کے کچھ دن بعد‘ سفراگیٹ‘ شہر میں ایک جلوس کے موقع پر، جس میں وہ عورتوں کے ليے ووٹ کا حق مانگ رہی تھیں، ایملی نامی ایک خاتون پولیس کے ہاتھوں زخمی ہوئی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ عورتوں اور مزدوروں نے ایک بار پھر اس کی تدفین کے موقع پر جلوس نکالا اور ایک بار پھر جذباتی تقاریر ہوئیں۔ جرمن دانشور والٹیئر بینجمن نے کہا تھا کہ تم اپنے ہیروز کو دفن نہیں کرتے ہو بلکہ یہ غربت، افلاس اور محرومی ہے جسے دفن کیا جاتا ہے۔
مزدوروں کے ہجوم کی خبریں سوشلسٹ اخبارات میں تو شائع ہوئيں مگر ديگر پریس نے انہيں کوئی جگہ نہ دی۔ لیکن مزدوروں کے ہجوم سے جو انتشار پیدا ہوتا تھا، حکومت اس کو پولیس کارروائیوں اور سزاؤں کے ذریعے ختم نہیں کر سکی۔ اس ليے حکومت کی جانب سے اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا تاکہ مزدوروں کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔
انیسویں عیسوی کے شروع میں آئرلینڈ میں ہنگامے شروع ہوئے۔ آئرلینڈ برطانیہ کی کالونی تھا جہاں اس نے زمینوں پر قبضہ کر کے انگلش زمین داروں کو وہ زمینیں دے دی تھیں۔ آئرلینڈ کے لوگ ان زمینوں پر بطور کسان کام کرتے تھے۔ اگر آئرلینڈ کے لوگ احتجاج کرتے تھے تو سختی سے انہیں کچل کر ان کا قتل کر ديا جاتا تھا۔ 1845ء میں جب آلوؤں کی فصل خراب ہوئی تو آئرلینڈ میں سخت قحط پڑا اور ہزاروں لوگ آئرلینڈ چھوڑ کر امریکہ چلے گئے۔ برطانوی حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ آئرلینڈ کے لوگ برطانیہ سے آزادی چاہتے تھے۔ ان میں قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبات بہت گہرے تھے۔ برطانوی پولیس اور فوج ان کو کچل دیتی تھی، لیکن قوم پرستی کی بنیاد پر جو ہجوم جمع ہو جاتا تھا اس کے جذبے کو برطانوی حکومت ختم نہیں کر سکی۔
فاش ازم اور نسل پرستی کی بنیاد پر خاص طور سے اٹلی اور جرمنی میں لوگوں کے ہجوم اس وقت اکٹھے ہوئے جب 1922ء میں میسولینی نے روم پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کی اور فاش ازم کے نظریے کو فروغ دیا۔ اس کے حامی جو بلیک شرٹ پہنتے تھے انہوں نے میسولینی کی آمریت کو قائم کر کے اس کے تمام مخالفوں کو خاموش کر دیا اور اس کی آمریت کو مستحکم کر دیا۔
جرمنی میں 1933ء میں ہٹلر اور اس کی نازی پارٹی اقتدار میں آئی تو پارٹی کے کارکنوں نے غنڈہ گردی کے ذریعے لوگوں کو خوفزدہ کر کے خاموش کر دیا۔ نازی پارٹی کی بنیاد نسل پرستی پر تھی جو آریا نسل کو برتر اور عظیم مانتے تھے۔ اس ليے انہوں نے یہودیوں اور جپسیوں کے خلاف مہم چلائی۔ نازی پارٹی کے ہجوم نے یہودیوں کے کاروباروں کو لوٹا اور دکانوں کو آگ لگائی۔ فاشسٹ نظریے کی وجہ سے یہ کمیونسٹ پارٹی کے بھی خلاف تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو مخالف لوگوں نے ملک چھوڑ دیا یا خاموش ہو گئے۔
اسی تسلسل کو ہم موجودہ دور میں ہندوستان کی سیاست میں دیکھتے ہیں۔ جہاں بی جے پی پارٹی نے ایڈوانی کی سربراہی میں رَتھ کے ذریعے لوگوں کے مذہبی جذبات کو اُبھارا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1992ء میں ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کیا اور یہی مذہبی انتہا پسندی تھی کہ مودی کے دور ميں گجرات میں مسلمانوں کا قتل ہوا۔ اس وقت جب بی جے پی کی حکومت ہے۔ انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم گائے کے نام پر افراد کو قتل کرتے ہيں اور مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کا یہ ہجوم ان دانشوروں کے بھی خلاف ہے جو بی جے پی کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ اس ہجوم کی کارروائیوں کی وجہ سے تعلیمی اور ادبی کارروائیاں اپنی سابقہ حالت میں نہیں رہيں۔
اسی صورتحال سے پاکستانی معاشرہ گزر رہا ہے۔ یہاں بھی مذہبی انتہا پسندوں کا ہجوم ہے جنہوں نے مذہب کے نام پر روشن خیال دانشوروں کو خوفزدہ کر کے خاموش کر دیا ہے، لہٰذا وہ ہجوم جو ترقی پسند نظریات کی بنیاد پر معاشرے کو تبدیل کرتا ہے اس کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہجوم جو فرقے واریت، مذہبی عصبیت کے نام پر متحرک ہوتا ہے، وہ معاشرے کو پسماندہ بنا کر اسے جہالت کے اندھیرے میں ڈال دیتا ہے۔
جب کسی بھی معاشرے میں اقلیتوں کو تحفظ نہ ملے، دانشوروں کو آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کے اظہار کا کوئی موقع نہ دیا جائے اور معاشرے میں عورتوں کو ملکیت سمجھا جائے، امیر و غریب کے درمیان بے انتہا فرق ہو جائے، تو وہ ہجوم جس میں نہ سیاسی شعور ہو نہ تعلیم، وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعے فرسودہ روایات اور قدامت پرستی کو مستحکم کرتا ہے۔
پاکستان میں ہم اسی صورت حال سے دوچار ہیں۔
dw.com/urdu