جعلی کلیم پر لاکھوں مہاجرین کو سندھ میں بسایا گیا اور سندھ کی زرخیز زمینیں پنجابی مہاجر بیوروکریسی نے اپنوں میں بانٹ دیں۔ سندھی زبان کو اپنے ہی آبائی علاقے میں اپنے وجود کی جنگ لڑنی پڑی۔ سندھی نے جب بھی اپنے غصب شدہ حقوق کا مطالبہ کیا اسے صوبائیت اور تنگ نظر قوم پرستی کے نام سے گالی دی گئی۔
ذوالفقار علی زلفی
سندھ میرا وطن ہے لیکن میں سندھی نہیں بلوچ ہوں ۔ ثقافتی لحاظ سے میری وابستگی بلوچستان سے ہے۔اس کے باوجود جہاں سندھ کے مفادات کی بات آئے تو لاشعوری طور پر میں سندھی کے قالب میں ڈھل جاتا ہوں ۔
میرے اجداد صدیوں پہلے مغربی بلوچستان (ایران) سے ہجرت کرکے کراچی آبسے ۔ میرے پردادا کراچی میں پیدا ہوئے، میرے دادا، والد اور مجھے شامل کیا جائے تو ہم چار نسلوں سے سندھ کے باشندے ہیں ۔
بزرگوں کے مطابق مغربی بلوچستان میں جب قحط سالی کے باعث بھوک ایک عفریت بن گیا تو ہمارے اجداد نے ہجرت کرکے سندھ کو اپنا مسکن بنایا سندھ نے ہمیں روٹی دی، گھر دیا، عزت بخشی ۔ یہ صرف ہمارے خاندان کی کہانی نہیں ہے بلکہ سندھ میں بسنے والے لاکھوں بلوچوں کی داستان ہے۔آج سندھ کا رہنما بلاول بھٹو زرداری ہے جس کے اجداد کبھی ہماری طرح بلوچستان سے ہجرت کرکے سندھ آئے ۔سندھ نے انہیں اپنایا اور انہوں نے سندھ کو اپنا سمجھا۔
ہم نے سندھی کا نوالہ چھیننے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی زمین پر اپنا زبردستی حق نہیں جتایا۔ اسے خود سے کم تر سمجھنے کی غلط فہمی نہیں پا لی۔ اس نے ہمیں وسائل مہیا کئے، ان وسائل کے ذریعے ہم نے اس کے ساتھ مل کر پیداوار میں اضافہ کیا اور باہم مل کر اسے آپس میں با نٹا۔ آج ہم سندھ کے شہری ہیں ۔ سندھیوں کو ہم سے کوئی خطرہ نہیں اور ہمیں ان سے کوئی عناد نہیں ۔ ہمارا جینا مرنا مشترک ہے۔
بلوچ بلاول کی صورت سندھی رہنما بنا، نبی بخش بلوچ کی صورت سندھی دانش ور گلاب چانڈیو جیسا فن کار ہو یا حیدر بخش جتوئی جیسا ہاری رہنما سندھ نے ان کی بلوچیت کے باوجود انہیں سندھی اجرک پہنا کر خود میں ضم کر لیا۔ سندھ میں آج بھی لاکھوں ایسے بلوچ بستے ہیں جن کی پہلی زبان بلوچی اور دوسری سندھی ہے۔ جب ہمیں سندھ اپنا سکتا ہے، اتنی عزت دے سکتا ہے تو ہماری طرح باہر سے آنے والے اردو اسپیکنگ اور پشتون کو کیوں نہیں دے سکتا۔ پشتون یا مہاجر سندھی سے لڑنے کی بجائے اس کے دکھ سکھ کا ساتھی بنیں، سندھ کو اپنائیں، اسے اپنا وطن سمجھیں ، بے شک اپنی قومی شناخت برقرار رکھیں جیسے ہم نے رکھا۔سندھ کا سینہ سمندر کی طرح وسیع ہے۔ کل کو عین ممکن ہے کوئی گلریز خان مندوخیل اپنی پشتون شناخت کے ساتھ سندھ کا وزیراعلی بنے یا کوئی تصدق حسین ؛ مہاجر شناخت برقرار رکھ کر سندھی کا رہنما بن جائے۔
مراد علی شاہ بھی تو عربستان سے آیا ہے ـ ٹالپر بھی تو بلوچستان سے آئے تھے ـ کون کہاں سے آیا ہے یہ سندھی کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ اس کا سیدھا سیدھا فارمولا ہے، جس نے اس کی طرح سندھ کو اپنایا وہ اس کا ہے۔
سندھی قوم پرستی کو بلاجواز اور زہر قرار دینا نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ یہ سندھی پر جاری مظالم کی ظالمانہ حمایت بھی ہے ۔ سندھ پر پہلا شب خون محمد علی جناح کی قیادت میں 1948 کو مارا گیا جب سندھ کے منتخب وزیراعلی پر بدعنوانی کے درجنوں مقدمات قائم کرکے انہیں معزول کیا گیا۔ ان کی جگہ پیر الہی بخش کو وزیراعلی بنایا گیا جنہوں نے راتوں رات کراچی کو سندھ سے علیحدہ کرکے اسے وفاق کے حوالے کیا اور اپنے نام سے بستی بنا کر وہاں مہاجرین کی آبادکاری کی۔
لیاقت علی خان کے حکم پر سندھ یونیورسٹی کو حیدرآباد منتقل کیا گیا جو بقول ان کے “گدھا گاڑی والوں کے لئے ہمارا تحفہ ہے۔ سندھ یونیورسٹی کی عمارت میں کراچی یونیورسٹی کے نام سے نیا ادارہ عمل میں لایا گیا جہاں سندھی زبان ختم کردی گئی اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں موجود بیشتر سندھی اسکولوں کو اردو میں بدلا گیا۔
جعلی کلیم پر لاکھوں مہاجرین کو سندھ میں بسایا گیا اور سندھ کی زرخیز زمینیں پنجابی مہاجر بیوروکریسی نے اپنوں میں بانٹ دیں۔ سندھی زبان کو اپنے ہی آبائی علاقے میں اپنے وجود کی جنگ لڑنی پڑی۔ سندھی نے جب بھی اپنے غصب شدہ حقوق کا مطالبہ کیا اسے صوبائیت اور تنگ نظر قوم پرستی کے نام سے گالی دی گئی۔
پاکستان کے اقتدار پر فوج نے قبضہ کیا تو سندھی کو مزید دبایا گیا۔ فوج میں سندھی کا کوئی قابلِ ذکر حصہ نہیں ہے ۔یہ بڑی حد تک پنجابی اور اس کے بعد مہاجر پشتون نمائندہ فوج ہے ۔ گویا پاکستان کے اصلی حکمران طبقے میں سندھی کی کوئی نمائندگی ہی نہیں ہے ـ سندھی کو احساسِ کمتری کا شکار بنانے کے لئے اس پر وڈیروں کا غلام، جاہل اور ہندوانہ رسموں پر عمل کرنے والے کی پھبتیاں کسی جاتی ہیں۔
ایک قوم کو اس قدر دبایا جائے۔اس کے محبوب رہنماؤں کو قتل کیا جائے ۔ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے نام پر پورے دیہات تباہ کئے جائیں ۔ وہ جب چلا کر کہے کہ ظلم بند کرو تو لبرل، لبرل نام نہاد مارکسی بھی نظریاتی جگالی کرکے اس کا مذاق اڑانا شروع کردیتے ہیں۔عجیب ریاست ہے جہاں ہم پھنس گئے ہیں۔
سندھی کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ سندھ تباہ ہوگیا، برباد ہوگیا، یہ ہوگیا، وہ ہوگیا، زمین پھٹ گئی، آسمان گرگیا تب بھی “سندھ میں بھٹو زندہ ہے “۔ان چسکے بازوں کو سجدہ شکر ادا کرنا چاہیے سندھی کے ساتھ اتنی بڑی واردات ہوگئی اس کے باوجود اس نے وفاق پسند بھٹو کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔وہ تب بھی “پاکستان کھپے” کا نعرہ لگاتا ہے۔چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر” دہراتا رہتا ہے۔
جس دن اس نے ہوشو شیدی کو زندہ کرکے بندوق اٹھا کر “مرسوں مرسوں، سندھ نہ ڈیسوں” کا نعرہ لگانا شروع کردیا اس دن ان سارے چسکے بازوں کو آٹے دال کا بھاؤ پتہ چل جائے گا۔شکر مناؤ !سندھی،جے ایم سید کا صرف احترام کرتا ہے اور ووٹ بھٹو کو دیتا ہے سندھی کی وفاق پسندی کا احترام کرکے اسے اس کا جائز حق دینے کی بات ہونی چاہیے چسکے بازی کے لئے اور بھی موضوعات ہیں۔
♥
One Comment