جرگے کی طرف سے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ دنیا کو ہمارے معاملات میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ لڑکیوں کے اسکول کھولنے سمیت بین الاقوامی برادری کے مطالبات کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔
گزشتہ برس اگست میں طالبان کی طرف سے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے مغربی حکومتوں نے افغانستان کے لیے فنڈنگ کا سلسلہ روک دیا ہے۔ ان حکومتوں نے یہ کہتے ہوئے طالبان حکومت کے خلاف سخت پابندیاں بھی عائد کر رکھی ہیں کہ انہیں انسانی حقوق خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے حوالے سے اپنا راستہ بدلنا ہو گا۔
تین روزہ گرینڈ جرگے کے اختتام پر آج ہفتے کے روز جاری کیے گئے اعلامیےکے مطابق، ”ہم علاقائی اور بین الاقوامی ممالک سے، خاص طور پر اسلامی ممالک سے کہتے ہیں… کہ وہ اسلامی امارات افغانستان کو تسلیم کریں… پابندیاں ہٹائیں، فنڈز جاری کریں اور افغانستان کی تعمیر و ترقی میں مدد فراہم کریں‘‘۔
طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے جمعہ یکم جولائی کو اس جرگے میں شریک چار ہزار سے زائد مذہبی اور علاقائی عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے انہیں طالبان کی کامیابی اور ملک کی آزادی پر مبارک باد دی۔
طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ تمام اسکول مارچ میں کھول دیے جائیں گے مگر اسکول لوٹنے والی طالبات کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں اسکولوں میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس پیشرفت پر مغربی ممالک کی طرف سے طالبان کی حکومت پر شدید تنقید بھی کی گئی۔
جرگے میں کی جانے والی تقاریر میں جنہیں افغانستان کے سرکاری ٹیلی وژن پر نشر بھی کیا گیا، کچھ شرکا نے لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کا معاملہ بھی اٹھایا۔ تاہم طالبان کے ایک نائب سربراہ اور وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ ایک ایسی حکومت جس میں تمام افغان گروہوں کی نمائندگی ہو اور تعلیم ایسے معاملات ہیں جنہیں حل کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
مگر اس گروپ کے سپریم رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ کا کہنا تھا کہ غیر ممالک کے لوگوں کو طالبان کو احکامات نہیں دینے چاہیے۔
گرینڈ جرگے کے اختتامی اعلامیےمیں کہا گیا ہے کہ اسلامک امارت کا دفاع ہر ایک افغان شہری پر لازم ہے اور یہ کہ اسلامک اسٹیٹ(داعش) نامی گروپ جس نے افغانستان میں حالیہ عرصے کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے، وہ غیر قانونی ہے۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طالبان حکومت ہمسایہ ممالک کے معاملات میں دخل نہیں دے گی اور انہیں بھی افغانستان کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے۔
dw.com/urdu