ذوالفقار علی زلفی
سینما ایک فن ہے۔ کمیونسٹ نظریہ دان کامریڈ لینن کے بقول “سینما تمام انسانی فنون کا مرکب ہے” ۔انسانی فنون کا مرکب ہونے کی وجہ سے کسی بھی فن میں ہونے والی تبدیلی اسے متاثر کرتی رہی ہے ۔ ادبی تحریکوں، نقاشی، مجسمہ سازی اور دیگر فنون کی فکری تحریکوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں سینما کو متاثر کرکے اسے بدلنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
ان تحریکوں کے زیرِاثر فلمی تکنیک میں مخصوص تبدیلیاں لائی گئیں اور ایک خاص طرز کے ساتھ کہانیوں کو پیش کیا گیا ـ عام فلم بین شاید ان تبدیلیوں کو واضح طور پر محسوس نہ کرسکیں لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو ایک مخصوص تحریک کے تحت بننے والی فلمیں دیگر تحریکوں کی نسبت کُلی طور پر ممتاز نظر آتی ہیں ۔ ذیل میں چند ایسی تحریکوں کا مختصر ذکر کیا گیا ہے ۔
ایمپریشن ازم (Impressionism)
ایمپریشن ازم کی تحریک فرانس سے شروع ہوئی ۔ سینما کے اساتذہ اس کا آغاز 1920 کو قرار دیتے ہیں ۔ ایمپریشن ازم کو شاعرانہ سینما کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔ ایمپریشن اسٹ فن اور حقیقت کو جدا سمجھتے تھے ـ ان کے مطابق فن کا تعلق انسان کے اندرونی احساسات و جذبات سے ہے جس پر خارج کا اثر تو ہوتا ہے لیکن وہ اس کا عکس نہیں ہوتا ۔ وہ اپنی فلموں میں انسانی تخیلات کو دیدہ زیب انداز میں پیش کرتے تھے ۔ ان فلموں کے کردار بھی تخیلاتی ہوتے تھے جو پردے پر صرف اپنے درونی احساسات کی ترجمانی کرتے تھے ۔ ان کے مطابق جس حقیقت کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں وہ سینما کے پردے پر آکر شکل بدل لیتی ہے ۔ ایمپریشنسٹ سینما کے کردار زیادہ تر نفسیاتی ہوتے تھے اور وہ کسی خیالی جہان کے باشندے محسوس ہوتے تھے ۔
یہ تحریک 1930 تک چلتی رہی اس دوران اس نے فرنچ سینما کو بالخصوص اور عالمی سینما پر بالعموم گہرے اثرات مرتب کئے ـ ایمپریشن ازم ایک مخصوص سیاسی پسِ منظر کی پیداوار ہے ۔ اس مختصر تحریر میں اس پر تفصیلی بحث ممکن نہیں ہے۔
ایکسپریشن ازم (Expressionism)
اساتذہ کے مطابق ایکسپریشن ازم کو خوف ناک سینما کہا جانا چاہیے ـ یہ تحریک 1913 میں جرمنی سے شروع ہوئی ـ یہ ایمپریشن ازم کے برخلاف خوب صورتی کو اضافی تصور کرتی ہے ۔ ایکسپریشن اسٹ نظریہ دانوں کے مطابق انسان ایک وحشی جانور ہے جو اپنے ہی نوع کے خلاف ہمیشہ فساد پر آمادہ رہتا ہے ۔ انسان ایک دوسرے سے خوف زدہ رہتے ہیں اور خوف کی وجہ سے وہ حسد، لالچ اور کینے کا شکار رہتے ہیں ۔ جرمنی کے ایکسپریشن اسٹ سینما نے اس نظریے کے زیرِ اثر مخصوص قسم کی فلمیں تخلیق کیں جہاں کینہ توز اداکار تاریکی میں رہتے ہیں ۔ بعض فلموں میں کردار کے سایوں سے کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔
ایکسپریشن اسٹ سینما فنا کے تصور پر استوار تھا ۔ وہ خوف کی تصاویر پیش کرتا تھا ۔ اس تحریک نے سینما میں روشنی کے حوالے سے مختلف تجربات کئے ۔ ہدایت کار روشنی کے مختلف زاویوں کے ذریعے میزان سین ترتیب دیتا تھا ۔ اس تکنیک نے آگے چل کر سینما پر دور رس اثرات مرتب کئے ۔ اسی تحریک کے نتیجے میں ہارر اور نوایر فلموں نے جنم لیا ۔ ممتاز امریکی ہدایت کار الفرڈ ہچکاک نے بھی ایکسپریشن اسٹ سینما کی تکنیکوں کو برتا ۔ یہ تحریک 1930 کو اختتام پذیر ہوئی لیکن اس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔
بعض مارکسی ناقدین کا ماننا ہے ایکسپریشن ازم جرمن قوم کے احساس عدم تحفظ کا عکس تھا جس کا منطقی نتیجہ ہٹلر کی صورت برآمد ہوا ۔
ڈاڈا ازم (Dadaism)
ڈاڈا ازم ردعمل کی تحریک ہے جس کا کسی مخصوص ملک سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہ تقریباً یورپ بھر میں ایک ساتھ شروع ہوئی ۔ ڈاڈا ازم تہذیب و ثقافت، علم و دانش اور جمالیات الغرض ہر انسانی فن و اقدار کی مخالفت کرتا ہے ۔ یہ درونی بیزاری اور غصے کو بنا کوئی لگی لپٹی رکھے بیان کرنے کی وکالت کرتا ہے ۔ ڈاڈا ازم خود ڈاڈا ازم کے بھی خلاف ہے یعنی یہ خود کو کوئی تحریک بھی تصور نہیں کرتی ۔
سینما میں ڈاڈا ازم کا آغاز 1923 کو ہوا ۔ اس تحریک سے متاثر ہدایت کار کسی سینمائی قانون کو تسلیم نہیں کرتے تھے ۔ ان کی فلموں کے کردار الجھے ہوئے، کہانیاں بے ربط اور مناظر عجیب و غریب ہوتے تھے ۔ بعض فلموں میں تو سمجھ ہی نہیں آتا کہانی شروع کہاں سے ہوئی اور اس کا اختتام کس کو سمجھا جائے ۔ وہ ایک ایسی دنیا کو پیش کرتے تھے جہاں دہشت اور جنگ پسند حکمرانوں کا غلبہ ہے، وہ اس دنیا کو تباہ کرکے ایک نئی اور آزاد دنیا بنانے کے قائل تھے ۔ ان کی فلمیں بیہودہ مناظر، عریانی اور غیراخلاقی حرکات سے عبارت ہیں ۔ سینما میں ڈاڈا ازم خود کو تادیر برقرار رکھنے میں کامیاب نہ ہوسکا ـ چند ہی سالوں بعد یہ تحریک دم توڑ گئی۔
♠