مہرجان
دوسری طرف تصور فلسفہ کو مسخ کرنے میں بڑے بڑے تعلیمی اور اکیڈمک اداروں کا بھی ہاتھ ہے ، جہاں تعلیم کو تخصیص علی التخصیص (سپر سپیشلائزیشن) کرکے فلسفہ اور خرد دشمنی کو فروغ دیا جارہا ہے ، (جبکہ “اکیڈمی” خود افلاطون کی درسگاہ سے مستعار ہے) بقول کارل پاپر سائنس کے لیے تخصیص نعمت ہے جبکہ فلسفہ کے لیے کسی زحمت سے کم نہیں، فلسفہ چونکہ تمام علوم کے باطن میں پنہاں ہے ، اس لئے علم کو تخصیص کرکے کسی بھی طرح سے فلسفہ پسندی قائم نہیں ہو پارہی ۔یہاں سوشل سائنسز میں تخصیص کے عمل میں سبجیکٹ میں مخصوص گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے ۔اس کی بنیادی وجہ فلسفیانہ بصیرت سے یکسر خالی پن ہے ۔
اس صورت حال کو مدنظر رکھ کر گریجویٹ کی حد تک تعارف فلسفہ کو اکیڈمیز کا حصہ بنایا گیا لیکن اکیڈمیز میں فلسفہ کے ساتھ زیادتی یہ کی جارہی ہے ، کہ “تعارف فلسفہ” کی جگہ سرسری طور پہ تاریخ فلسفہ پڑھایا جارہا ہے ، جس میں زور فلاسفر کی سوانح عمری اور کوائف پہ دیا جاتا ہے کہ فلاں فلاسفر کب ، کہاں پیدا ہوا اور کہاں کیسے زندگی گذاری ، اور اس کی ولدیت کیا تھی؟ اس جگہ کا کلائمیٹ کیسا تھا ؟ اگر بہت ہی زیادہ ہوا تو سرسری طور پہ افکار بتا دیے جاتے ہیں ، اس حد تک کہ فلاں فلاسفر عینیت پسند تھا یا مادیت پسند ، الغرض تعارف فلسفہ میں تاریخ فلسفہ کو سرسری طور پہ بتایا جاتا ہے۔ لیکن فلسفہ خود کیا ہے ، فلسفہ کی روح کیا ہے ؟، فلسفہ کا عام انسان یا معاشرہ ، سائنس ، مذہب سے کیا تعلق بنتا ہے ؟ جو تعارف فلسفہ کے زمرے میں آتے ہیں ایسے تمام سوالات سے اجتناب برتا جاتا ہے ۔
اسی طرح مغرب کی زیادہ تر درسگاہوں میں “تاریخ فلسفہ “بطور تاریخ کے بھی پڑھایا نہیں جارہا ، یونان کے بہت سے فلاسفرز کے افکار کو دقیانوسی قرار دے کر انہیں رد کیا جاتا ہے اور بہت سی جامعات میں “فلاسفی ڈیپارٹمنٹس” کو “لسانیات”“کے نام میں تبدیل کیا جارہاہے یہ سب کچھ دراصل فلسفہ کی روح کیخلاف ہے۔تب ہی بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں بڑے بڑے نام جو فلسفے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ، جب ان سے کسی بھی فلسفیانہ تصور پہ بات کریں تو آپ کو مغرب کے تعلیمی اداروں پر بھی شک گذرے گا کہ کیا وہاں بھی فلسفہ کی حالت اتنی ہی نحیف ہے کہ مغرب کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل فلسفہ کے اساتذہ اس قدر فلسفہ کے حوالے سے خالی الذہن ہوتے ہیں جو تصور فلسفہ پہ تین باتیں بھی اپنے ذہن سے نہیں کرسکتے ۔ اور اُن کے لیے فلسفہ کچھ رٹے رٹائے اقوال بن کر رہ گیا ہے یا پھر کچھ لکھے ہوئے نوٹس۔ ہاں البتہ ڈگریوں کے برانڈ کی وجہ سے وہ یہاں صرف نام کما رہے ہوتے ہیں ، آپ انکے اگر یوٹیوب پہ فلسفہ کے حوالے سے لیکچر سنیں اور رسل کی کتاب “تاریخ مغربی فلسفہ” سامنے رکھیں تو وہی باتیں ہو بہو دہرائی جارہی ہوتی ہیں جو رسل نے بیان کی ہیں ، یعنی کاپی اینڈ پیسٹ کی صورتحال بن جاتی ہے ۔
تعلیمی اداروں کی ایک اور بد قسمتی فلسفہ کے حوالے سے یہ بھی رہی ہے کہ طلباء کو فلسفہ کے پروسیس میں شامل نہیں کیا جاتا ،جس سے فلسفیانہ ذہن کی نمو نہیں ہو پاتی ، یہ بالکل اسی طرح ہے کہ گر ریاضی کے کسی طالب علم کو ریاضی کے سوال حل کرنے میں ایک پروسیس سے نہ گذارا جائے بلکہ ریاضی کے کتاب کے آخر میں دیے گئے فقط جوابات پہ اکتفاء کیا جائے ، ریاضی کے طلباء کو جواب تو معلوم ہوگا لیکن وہ ذہنی طور پہ اس پورے مرحلے میں شریک کار نہیں ہوگا۔ جس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ وہ سوال کو حل کریں جو زیادہ آسان و ٹیکنکل ہے اسے سوال کو یاد کرنا پڑتا ہے جو تکلیف دہ اور غیر مفید بھی ہے اور ساتھ ساتھ اسے اس دعوے کا بھی حق دیا جاتا ہے کہ آپ بہت بڑے اسکالر ہیں کیونکہ آپ نے دو سو پندرہ جوابات یاد کیے ہیں ۔
بالکل اسی طرح اگر فلسفہ کے طلباء کو فلسفیانہ پروسیس سے نہ گذارا جائے ،فلسفیانہ تصورات کو معاشرے سے مربوط نہ کیا جائے ،مکالمہ کو فروغ نہ دیا جائے ،ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر نہ کیا جائے ، تو وہ یقیناً ریاضی کے طلباء کی طرح یہ تو بتا سکیں گے کہ ہیراقلیطس فلسفہ حرکت کا قائل تھا ، پارمینیڈیس فلسفہ سکون کو مانتا تھا جو جوابات کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ کیونکر مانتے تھے؟ ان فلسفیانہ تصورات کا معاشرے پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟ اس حوالے سے طلباء خالی الذہن ہوتے ہیں ۔ گویا طلباء کو مناظرے کے لیے تیار کیا جاتا ہے فلسفیانہ علم کے لیے نہیں، پروسیس میں شامل ہونا یعنی اس پورے فلسفیانہ مطالعہ میں شامل ہونا ، فلاسفرز کے ساتھ مطالعہ میں مکالمہ کرنا ، یعنی فلاسفرز کے خیالات کا تنقیدی مطالعہ ہی آپ کو فلاسفرز سے مکالمہ کی سطح تک لے آتا ہے ۔ یہ تنقیدی مطالعہ ، مکالمہ ، ایک مکمل پروسیس ہے جس سے انسان گذر کر فلسفیانہ بصیرت پالیتا ہے ۔
تعلیمی اداروں میں فلسفہ کے اوپر ظلم در ظلم یہ بھی ہوا کہ فلسفہ کی آڑ میں علم الکلام ، تصوف ، فلسفہ اقبال اور نظریہ پاکستان ، پڑھایا جانے لگا، جس کی بناء پر تاریخ میں ہر وقت فلسفیانہ ذہن کی بجائےتقلیدی ذہن جنم لیتا ہے ۔ حتی کہ ھیگل اور مارکس کے پڑھنے اور پڑھانے والے بھی ریاست کے اس ریاستی حصار سے نہیں نکل پاتے ، بڑی بڑی تعلیمی درسگاہوں میں فلسفہ و ادب پہ بقول رسل “مبلغین” لیکچرز دیتے ہیں ، یعنی جنہیں فلسفہ پڑھانا تھا وہ مبلغ بن گئے ہیں۔ فلسفہ اب مبلغین کے ہاتھوں لگا ہوا ہے جو فقط اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں ۔
یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف اکیڈمیز میں مذہب ہولڈر مذہب کے نام پہ فلسفہ کا حلیہ بگاڑ رہے ہیں تو دوسری طرف بڑی بڑی درسگاہوں میں بڑے بڑے ڈگری ہولڈرز ریاستی بیانیہ کے ساتھ چلتے ہوئے نوآبادیاتی ڈسکورس کے حوالے سے پاکستانیت کے سبز ھلالی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، وہ شعوری یا لاشعوری طور پہ ریاست مخالف بیانیہ کی بجائے ریاستی بیانیہ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ، ان کی زیادہ سے زیادہ علمی کاوش یہی ہے کہ کسی مُلا کا یا مذہب کا تمسخر اڑانا ، لیکن ریاستی خداؤں کے سامنے ، ریاست کے سامنے ان کے سارے فلسفیانہ لبرل نظریات سے ہوا نکل جاتی ہے وہ ہمیشہ محکوم کو کٹہرے میں کھڑا کرکے ان سے اخلاقیات کے نام پہ سوالات کرتے ہیں ، جبکہ ترقی پسند ھیگل اور مارکس کو پڑھ کر بھی جدلیاتی میتھڈ کو محکوم پہ اپلائی کرنے سے قاصر رہتے ہیں ، یہاں پہ آکر وہ لوگ جوہر کی بجائے مظہر میں مقید ہوجاتے ہیں ۔
دوسری طرف ہمارا یعنی کالونائزڈ پڑھا لکھا بیشتر پروفیسرز و لکھاری طبقہ شعوری یا لاشعوری طور یہ ریاست کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے ، یونیورسٹیز کے پروفیسرز آپ کو زیادہ تر بیوروکریٹک مزاج کے حامل نظر آتے ہیں ، وہ اپنے مزاج و طبیعت میں کسی ڈکٹیٹر یا بیوروکریٹ (سرکاری بابو) سے کم نہیں ، پی ایچ ڈی کی ڈگری صرف انکریمنٹ یا پھر میر و معتبری کے لیے بغیر کسی علمی کاوش کے حاصل کرتے ہیں ، سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہ اپنی ریسرچ خود بھی نہیں پڑھے ہوتے ، نہ وہ تعلیمی میدان میں کمٹڈ ہوتے ہیں کہ ریسرچ و تحقیق کے میدان میں جھنڈے گاڑیں ، اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ وہ کسی قومی تھنک ٹینک کا حصہ بن کر قوم و وطن کے لیے قومی پالیسیز و قومی پروگرام ترتیب دے سکیں ۔
روسو جسے “بابائے انقلاب فرانس“کہاجاتا ہے انہوں نے فرانس کی بابت کہا تھا کہ فرانس کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کسان زیادہ ہیں ،پروفیسرز کم ہیں لیکن یہاں المیہ دیگر ہے کہ یہاں پروفیسرز و دانشور ، پڑھا لکھا طبقہ زیادہ ہے لیکن غیر تعلیم یافتہ کم ہے ۔یہ بات عام مشاہدے کی ہے محکوم کا شوان (چرواہا) یا غیر تعلیم یافتہ جو نہ کچھ لکھتا ہے ، نہ ہی کچھ پڑھتا ہے یہی شوان /غیر تعلیم یافتہ دو لفظ لکھنے والوں یا دو کتاب پڑھنے والوں (نیشنلسٹس / کامریڈز ) سے زیادہ اپنی کمنٹمنٹ میں مخلص ہوتا ہے ، وہ کسی پاپولر ازم و ہیرو ازم جیسی بیماری کا نہ تو شکار ہوتا ہے نہ ہی اندر سےکھوکھلا ہو کر توصیفی کلمات کا محتاج ہوتا ہے ۔وہ کسی بھی قسم کا کسی زعم کا شکار بھی نہیں ہوتا ، محکوم کے پڑھے لکھے کا کمٹڈ نہ ہونے کی وجہ دو لفظوں کا پڑھنا نہیں یا دو کتابوں کا لکھنا نہیں کہ دو لفظ لکھ پڑھ کر نفسیاتی طور پہ احساس کمتری کا شکار ہوگئے بلکہ کالونائزر کے اثرات کو قبول کرنا ہوتا ہے ،اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارےپڑھے لکھے طبقے کو کسی بھی محاذ پر پاکستان سے پہلے پاکستانیت سے جان چھڑانا ہے ، جسے فلسفہ کی دنیا میں ڈی کالونائزیشن آف مائنڈکہاجاتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ محکوم پڑھا لکھا برٹش کالونیل لکھاریوں پہ جا بجا بولتے یا لکھتے ہوئے نہیں تھکتا لیکن یہی لکھاری آج کے دور کے کالونیل (لکھاری)جو ہماری مزاحمت کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں ان سے تعلقات بنانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں ، آج کے بلوچ لکھاری اگر برٹش دور میں ہوتے ، تو بجائے ان پہ تنقید کرتے ان سے تعلقات بنا رہے ہوتے۔اصل مسئلہ وقت کے خداؤں کے سامنے سینہ سپر رہنا ہوتا ہے نہ کہ برٹش کالونیل ادوار پہ صبح و شام خامہ سرائی کرنا ہوتا ہے۔ان کالونیل اثرات کا خاتمہ فلسفہ ہی کرتا ہے ، اور فلسفہ کے خطرناک نیچر کی وجہ سے اہل فلسفہ سے لے کر تعلیمی اداروں تک تصور فلسفہ کو مسخ کیا گیا ۔اب بھی وقت ہے کہ محکوم فلسفیانہ نظریات کی بدولت اپنی جنگ آپ لڑیں ۔ آخر فلسفہ کیا ہے ؟ اور اپنی نیچر کی وجہ سے کیسے محکومیت کی زنجیر پگھلا دیتا ہے ؟ اور حاکم و کالونائزر کے لیے کیوں خطرناک ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پہ غور کرنے کی ضرورت ہے
(جاری ہے)
Pingback: محکوم کے لیے فلسفہ پڑھنا کیوں ضروری ہے؟آخری قسط – Niazamana