ظفر آغا
ہندوستانی مسلمان کے پاس اب صرف ایک قوت بچی ہے، اور وہ ہے اس کا متحد ووٹ بینک۔ اس کا سبب یہ ہے کہ یہ ووٹ بینک متحد رہے تو تقریباً 100 کے قریب پارلیمانی حلقوں کے نتائج متاثر کر سکتا ہے۔ آسام، بنگال، بہار، راجستھان، یوپی، کیرالہ، کرناٹک اور دہلی تک اس ووٹ بینک کی اہمیت ہے۔ حد یہ ہے کہ ہریانہ میں میوات کے علاقہ میں مسلم ووٹ بینک ہی لوک سبھا کی سیٹ کا نتیجہ طے کرتا ہے۔ کافی سیٹوں پر مسلم ووٹ بینک 35-30 فیصد تعداد میں ہے اور کہیں کہیں تو یہ 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن یہ ووٹ بینک اسی وقت کارگر ہے جب متحد رہے اور کسی ایک پارٹی کے حق میں یکجا طور پر پڑے۔
یہ زمینی حقیقت سنگھ اور بی جے پی دونوں کے لیے کافی پریشان کن ہے۔ کیونکہ اگر ہندو ووٹ بینک ذات کے نام پر یا کسی اور سبب سے بٹ جائے جبکہ مسلم ووٹ بینک متحد رہے تو یہ لوک سبھا چناؤ کے نتائج خاصی حد تک بدل سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت دونوں کو پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ لہٰذا سنگھ اور بی جے پی دونوں ہی تنظیموں کے سنہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں مسلم ووٹ کا بٹوارا کرنے کی نہ صرف ٹھان لی ہے بلکہ یہ دونوں تنظیمیں ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے ساتھ مسلم ووٹ بینک میں پھوٹ ڈالنے کے لیے سرگرم ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں دونوں تنظیمیں اب اس مشن کو کامیاب کرنے کے لیے مختلف طریقوں سے کارگر بھی ہیں۔ اس لیے مسلم عوام کو سنگھ اور بی جے پی کی حکمت عملی کا علم ہونا چاہیے۔
پچھلے دو تین ماہ کے اندر سنگھ اور بی جے پی نے مسلم جماعتوں اور کچھ خود ساختہ مسلم شخصیتوں کے درمیان اپنی گھس پیٹھ کا کام شروع کر دیا ہے۔ دراصل اس بات کی سب سے پہلے بھنک اس وقت لگی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے بذات خود پہلے حیدر آباد میں ہونے والی بی جے پی کی نیشنل ایگزیکٹیو میں پارٹی رہنماؤں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی طرف دھیان دیں۔ اس سلسلے میں حیدر آباد میں وزیر اعظم نے خصوصاً پسماندہ مسلم برادریوں پر بی جے پی کو کام کرنے کی رائے دی۔ اس میٹنگ کے کچھ مدت کے بعد آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے بذات خود پچھلے ماہ پہلے سابق دہلی لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، اردو صحافی شاہد صدیقی اور ایک دہلی کے تاجر سے ملاقات کی۔ پھر اس کے چند روز بعد آر ایس ایس چیف دہلی کے مسلم عالم سے ملے اور وہ ایک مدرسے بھی تشریف لے گئے۔
اس کے بعد اسی ماہ دہلی میں ہونے والی بی جے پی نیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ میں وزیر اعظم نے پارٹی کو پھر یہ رائے دی کہ وہ صرف پسماندہ مسلمان ہی نہیں بلکہ مسلم پروفیشنل، مسلم علما اور صوفیان اور ہر مسلم گروہ میں کارگر ہوں کیونکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں ہونے والی ترقی کا پھل ان طبقوں تک پہنچے۔ سنگھ یا مودی جی کس حد تک سنجیدگی سے مسلم ترقی میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ بات اظہر من الشمس ہے۔ مجھ کو اس پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد فوراً یہ خبر آئی کہ بی جے پی نے ان تمام لوک سبھا سیٹوں کی نشاندہی کر لی ہے جہاں مسلم ووٹ بینک 30 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ ان سیٹوں پر پانچ ہزار فی سیٹ مسلمانوں کو توڑا جائے گا جو بعد میں بی جے پی کے اپنے اپنے حلقوں میں کام کریں گے۔ پھر مسلمانوں کی ایک بڑی میٹنگ دہلی میں ہوگی جس کو وزیر اعظم خود خطاب کریں گے۔
ابھی اس خبر کو آئے چند روز گزرے ہی تھے کہ پھر یہ خبر آئی کہ دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کے گھر پر آر ایس ایس رہنماؤ اور مسلم قائدین کے بیچ ایک میٹنگ 14 جنوری کو ہوئی جس میں سنگھ کے اہم لیڈران مثلاً اندریش کمار بھی موجود تھے۔ ادھر یہ بھی خبر ہے کہ صوفیان کرام سے بھی سنگھ کی ملاقاتیں جاری ہیں۔ دہلی میں نجیب جنگ کے گھر پر ہونے والی میٹنگ میں مسلمانوں کی جانب سے جماعت اسلامی، جمعیۃ علماء ہند کے دونوں گروپ کے بھی نمائندے شامل تھے۔
الغرض، یہ بات اب بالکل صاف ہے کہ سنگھ اور بی جے پی دونوں مسلم ووٹ بینک کو توڑنے کی خاطر پوری شد و مد سے کارگر ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان دونوں نے مسلمانوں کے ہر گروہ میں اپنی گھس پیٹھ کر لی ہے۔ پڑھے لکھے مڈل کلاس مسلم طبقے کے لیے نجیب جنگ، ایس وائی قریشی، شاہد صدیقی کا گروپ سرگرم ہے۔ یہ گروپ مسلمانوں میں تعلیمی مہم تیز تر کرنے کے نام پر ایک تنظیم بھی بنا چکا ہے۔ اس تنظیم کا نام
The Alliance for Economic and Educational Development of the Underprivileged
(اے ای ای ڈی یو) ہے۔ یہ تنظیم جلد ہی دہلی میں ایک بڑا اجلاس کرنے والی ہے جس میں غالباً سنگھ اور بی جے پی کے سربراہ بھی شامل ہوں گے۔ دوسری جانب پسماندہ مسلمانوں میں کچھ دوسرے لوگ سرگرم ہیں جن میں یوپی حکومت کے واحد مسلم وزیر دانش آزاد انصاری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیش پیش ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کی دوسری اہم تنظیمیں مثلاً جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند وغیرہ سے بھی رابطہ ہو چکا ہے اور یہ تنظیمیں بھی چناؤ میں بی جے پی کے لیے سرگرم ہو سکتی ہیں۔
مسلمانوں کی جانب سے سنگھ اور بی جے پی میں جو گھبراہٹ ہے اس کا ایک اہم سبب پچھلے چند مہینوں میں مسلم ووٹ بینک کی کانگریس پارٹی کی طرف پیدا ہونے والی ہمدردی ہے۔ راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں مسلمان بھاری تعداد میں شریک ہو رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ اب عام مسلمان کھل کر یہ کہہ رہا ہے کہ راہل گاندھی وہ واحد فرد ہیں جو کھل کر آر ایس ایس اور بی جے پی سے لڑ رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ کئی ریاستوں میں جہاں ابھی حال تک مسلمان علاقائی پارٹیوں کو ووٹ ڈالتا تھا، وہاں ان پارٹیوں سے ناامیدی پیدا ہو رہی ہے۔
مثلاً اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی سے مسلمان ناراض نظر آتا ہے۔ اس کا یہ خیال ہے کہ سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو بی جے پی سے لڑنے کو راضی نہیں ہے۔ اگلے لوک سبھا چناؤ میں یوپی میں مسلم ووٹ کانگریس پارٹی کے حق میں جانے کی امید ہے۔ اس سے قبل 2009 کے لوک سبھا چناؤ میں بھی اتر پردیش میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ دیا تھا جس کے سبب عرصے بعد وہاں سے کانگریس 22 سیٹیں جیت گئی تھی۔ کانگریس اور راہل گاندھی کی جانب بڑھتی مسلم ہمدردی بی جے پی اور سماجوادی پارٹی دونوں کے لیے خطرناک ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ تمام سیاسی فیکٹر سب سے زیادہ بی جے پی کے لیے پریشان کن ہیں۔ یہی سبب ہے کہ بی جے پی اور سنگھ دونوں ہی پوری شد و مد سے اس عمل میں کارگر ہیں کہ پہلے مختلف حضرات اور مسلم تنظیموں کے ذریعہ مسلم ووٹر کو کنفیوز کر اس کا ووٹ بینک توڑ دیا جائے۔ جب کوئی قوم پچھڑ جاتی ہے تو اس کے سودے کے لیے بہت سارے افراد و تنظیمیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ اس وقت سنگھ اور بی جے پی اسی سوداگری کے لیے سرگرم ہے اور اس کو افراد و تنظیمیں دونوں مل بھی رہی ہیں۔
اب یہ تو مسلم ووٹر کو ہی طے کرنا ہے کہ وہ اپنا ووٹ جذبات میں بانٹ کر اپنے آخری سیاسی حربہ کو بھی بیکار کرتا ہے یا پھر بی جے پی اور سنگھ کی ریشہ دوانیوں سے باخبر ہو کر اپنے ووٹ بینک کو متحد رکھ 2024 لوک سبھا چناؤ میں اپنے مفاد میں ووٹ ڈالتا ہے۔ لب و لباب یہ کہ ہوشیار رہیے، سنہ 2024 میں بی جے پی ارو سنگھ کے مفاد میں کام کرنے والے بہت سارے نامی گرامی افراد اور تنظیمیں کارگر ہوں گی۔ ان کے دام میں پھنسنے کے بجائے خود اپنی عقل اور اپنے مفاد میں ووٹ ڈالیے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی