بیرسٹر حمید باشانی
لاہور میں کافی شاپ کے چمکیلے سائن بورڈ کی تصویر اچھی لگتی ہے۔ یہ کینیڈین مقبول عام نیا ریستوران ہے، جس کا افتتاح ہوتے ہی اس کے آگے قطاریں لگی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں معاشی بحران کی انتہا پر ایک ریستوران کے آگے اتنی طویل قطاریں لگ جانا اچھنبے کی بات ہے۔ اس پر بہت لوگوں کو حیرت ہے۔ ان قطاروں پر بات ہو رہی ہے۔ سنئیرکالم نگار روف کلاسرا اس پر بہت اچھا کالم لکھ چکے ہیں۔
پاکستان سمیت تیسری دنیا کے کسی بھی ملک میں اب اس طرح کے صاف ستھرے، چمکیلے اور مہنگے مشہور برانڈڈ ریستورانوں کا کھلنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے کئی امریکی اور یورپی “فاسٹ فوڈز” اور کافی شاپس پاکستان کے مختلف شہروں میں کھل چکے ہیں۔ اس عمل کا آغاز بہت پہلے ہماری اس دنیا کے” گلوبل ولیج “بن جانے یا بنا دیے جانے کے نعرے سے ہوا تھا۔ اس تصور کے ساتھ ساتھ دنیا میں ” کھلے مقابلے اور بغیر کسی پابندی کے آزاد تجارت کا تصور بھی متتعارف کروایا گیا تھا۔ اس تصور کی حمایت دنیا کی غالب حکومتوں اور طاقت ور کثیر الاقو امی کارپوریشنز نے کی ، جن کو عرف عام میں ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی کہا جاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں اس آزاد مقابلے اور آزاد تجارت کے پیچھے دنیا کے مالدار سرمایہ کار بھی جمع ہوگئے۔ اس مقصد کے لیے عالمی اور مقامی قوانین میں ترامیم کی مہم بھی چلائی گئی۔ اس مہم میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن یعنی عالمی تجارت کی تنظیم کو لیڈر شپ کردار دیا گیا۔ کئی نئےعالمی تجارتی قوانین بنائے گئے، جن کو عالمی کنوینشنز، پروٹوکلوز اور معائدوں کی شکل میں عالمی سطح پر منوایا گیا۔ تیسری دنیا کے جو ممالک مختلف وجوہات کی بنا پر اس کھلی اور آزاد تجارت سے اتفاق نہیں کرتے تھے وہ بھی مجبورا ان کے پابند ہو گئے۔ ان عالمی شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کے قوانین میں آز ادانہ تجارت کے حوالے سے کئی تبدیلیاں کی گئیں۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں تیسری دنیا کے کچھ طبقات خصوصاً کاشتکاروں اور چھوٹے کاروباری لوگوں کو سخت نقصانات کا سامنا پڑا۔ کئی ممالک نے ان نئے عالمی معادوں کی پابندی کرتے ہوئے اپنے کاشتکاروں کو دی جانے والے سبسڈی بند کر دی، جس کے نتیجے میں مختلف ممالک میں ہزاروں کسان فاقہ کشی کا شکار ہوئے۔ کئی ایک نے خود کشی کی۔ اس طرح کے واقعات بھارت سے لے کر لاطینی امریکہ کے کئی ممالک تک کثرت سے وقوع پذیر ہوئے۔
اس طرح بڑے فرنچا ئزڈ سٹوروں اور ریستورانوں کے کھلنے کی وجہ سے کئی چھوٹے موٹے سٹوروں اور ریستورانوں کے مالکان مقابلے کی سکت نہ رکھتے ہوئے اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو کر بے روز گار یا دیوالیہ ہو گئے۔ اس طرح گلوبل ویلج ایک کھلی عالمی منڈی میں بدل دیا گیا۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ ترقی یافتہ دنیا کی سرمایہ کار اور سرمایہ دار کمپنیوں نے اٹھایا، جو اس وقت تک صرف ترقی یافتہ دنیا میں تجارت اور سرمایہ کاری کرتے تھے۔ ترقی یافتہ دنیا میں ان بڑی کاروباری کارپروشنز کو بہت اچھا ماحول میسر تھا۔ یہاں پر قانون کی حکمرانی، ریڈ ٹیپ کی عدم موجودگی، بزنس فرینڈلی ماحول اور عام لوگوں کی بہترین قوت خرید جیسے عوامل تھے، جو ان کارپوریشنز کے بزنس کے لیے ساز گار ماحول مہیا کرتے تھے۔
لیکن دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے لیے کئی مشکلات بھی پیدا ہو رہی تھیں۔ مثال کے طور پر کئی ترقی یافتہ ممالک میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی ریاستوں کا تصور مضبوطی سے اپنی جگہ بنا رہا تھا۔ عوامی ضروریات اور سہولیات کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ دولت کی بڑھتی ہوئی نا منصفانہ تقسیم کی وجہ سے کم خوش قسمت طبقات میں احساس محرومی بڑھ رہا تھا۔ طبقاتی تقسیم گہری ہوتی جا رہی تھی۔ اس کے نتیجے میں بائیں بازو کے نظریات کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر حکومتوں پر رائے عامہ کا دباو بڑھ رہا تھا کہ وہ بڑی کارپوریشنز کے ٹیکس میں اضافہ کریں۔ دولت مند طبقات پر مزید ٹیکس لگائیں۔ عام کارکنوں اور محنت کشوں کے معاوضے میں اضافہ کریں۔
اس عوامی دباو کی وجہ سے دائیں بازوں کی قدامت پسند حکومتوں کو بھی اپنا اقتدار برقرار رکھنے یا دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے پڑ رہے تھے، جن کی وجہ سے سرمایہ کار طبقات کے منافع میں کمی ہو رہی تھی۔ ان حالات میں تیسری دنیا کی منڈیوں میں ان سرمایہ کاروں کو کشش محسوس ہوئی۔ ان ممالک میں قانون کی حکمرانی کے فقدان اور ریڈ ٹیپس کا مسئلہ انہوں نے مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر اور ان کو اپنا شراکت دار بنا کر حل کر لیا۔ بعض ممالک میں ان کو ایسے طاقت ور اور با اثر شراکت دار مل گئے، جو ہر مسئلے کا حل برق رفتاری سے نکال سکتے تھے۔ اس طرح ان غیر ملکی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لیے ساز گار ماحول ملنا شروع ہو گیا۔
تیسری دنیا میں ان کمپنیوں کے لیے یہ فرض کر لیا گیا کہ چونکہ یہ ترقی یافتہ دنیا سے آئے ہیں، اس لیے کئی مسائل کے بارے میں ان پر کوئی شرائط عائد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں ایک شرط ان کمپنیوں کے سٹورز اور ریستورانوں پر کام کرنے والے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ یا ان کے کم ازکم معاوضے اور اوقات کار کے بارے میں بھی عام طور پر بے فکری کا اظہار کیا گیا۔ حالاں کہ ترقی یافتہ دنیا سے آنے کا ہر گز مطلب نہیں ہے کہ یہ کمپنیاں خود بخود ہر ضابطے یا اصول کی پابند ہوں گی۔ ترقی یافتہ دنیا میں ان کمپنیوں ہر لیبرلا ء کی خلاف ورزی، اشیا خور و نوش کے معیار اور تیاری کے طریقہ کار اور ملازمین کے معاوضوں اور اوقات کار کے حوالے سے کئی سگنین الزامات لگ چکے ہیں ، اور عدالتوں میں ان پر مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔
اگرچہ لاہور میں کھلنے والا کافی شاپ ایک کامیاب ریستورانوں کا سلسلہ ہے۔ اس ریستوران چین کے2018کے اعداد و شمار کے مطابق کینیڈا میں تقریبا 3800 ریستوران تھے۔ اور دنیا کے چودہ ممالک میں اس کے پاس 4840 ریستوران تھے۔ اس چین کو کینیڈا کا پرائڈ تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ ریستوران چین تنازعات کا شکار بھی رہا ہے۔ ان تنازعات میں کارکنوں کے کم از کم معاوضے سے لیکر گاہکوں کی ذاتی معلومات کے نا مناسب استعمال تک ہر طرح کے الزامات شامل ہیں، جن کی تفصیلات کینیڈین پریس میں موجود ہے۔
یہی بات ترقی یافتہ دنیا سے آنے والے دیگر فاسٹ فوڈز اور فرنچائزڈ ریستورانوں پر بھی صادق آتی ہے۔ بہت سارے ترقی یافتہ ممالک میں ان ریستورانوں پر کام کرنے والے افراد کی معاوضوں، ان کی چھٹیوں، اوقات کار، بنیفٹ اور دیگر معاملات کو لے کر ہڑتالیں ہوتی رہی ہیں یا مقدمات قائم ہوتے رہے ہیں۔ اس لیے ان ریستورانوں کے بارے میں یہ باور کر لینا غلط ہو گا کہ یہ ترقی پذیر دنیا میں جہاں پہلے ہی کارکنوں کے اوقات کار اور معاوضوں کو لے کر صورت حال بہت زیادہ قابل رشک نہیں ہیں، وہاں یہ لوگ خود بخود ترقی یافتہ دنیا کے معیار اپنا لیں گے۔ ترقی یافتہ دنیا میں لیبر لاز کی خلاف ورزیوں کے خلاف ہزاروں لاکھوں مقدمات چل رہے ہیں، اور آئے روز ان کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے اس معاملے میں آنکھیں کھلی رکھنا اور شک کا فائدہ صرف کم خوش قسمت لوگوں کو دینا ہی بہتر ہوگا۔
♠