ڈیجیٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس تیز رفتار دور میں عالمی ذرائع ابلاغ میں متحرک اینکرز، نیوز کاسٹر, رپورٹرز اور پروڈیوسرز وغیرہ کی بڑی تعداد سے آپ سب واقف ہیں لیکن میڈیا کی دنیا میں دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد خاص طور سے خواتین کی رسائی اور شاندار کارکردگی حیران کن بھی ہے اور قابل ستائش بھی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ریاست کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث ہمارے مرد حضرات بھی عام لوگوں کے ساتھ اظہار خیال کرنے اور کسی فورم پر آنے میں ہچکچاتے ہیں لیکن دوسری یہ بھی ایک خوش آئند اور حوصلہ افزاء سچائی ہے کہ ہماری چند خواتین انٹرنیشنل میڈیا پر اپنی صلاحیتوں کا جوہر دکھا رہی ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پشتون و افغان وطن کے دورافتادہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی سادہ لوح گھریلو خواتین نے میڈیا کو کیریئر کے طور پر اختیار کیا اور مختصر عرصے میں بین الاقوامی میڈیا پر ان کا طوطی بولنے لگا۔
انٹرنیشنل میڈیا سے وابستہ پشتون خواتین کی ایک بڑی صفت یہ بھی ہے کہ عالمی میڈیا میں اپنے کیریئر کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی قوم اور اپنی مادری زبان کی ترقی اور ترویج میں بھی سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جو زبان آپ ماں کی گود سے سیکھتے ہیں اسی زبان میں آپ دنیا کے علوم و فنون بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا بھر میں ماہرین لسانیات کے درمیان اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ گیارہ سال تک کے بچوں کو اگر مادری زبان میں بنیادی تعلیم دی جائے تو ان کی تفہیم اور تخلیق کو مضبوط اور مستحکم بنیادیں فراہم کی جا سکتی ہیں۔
مادری زبان کی بنیاد میں تو ماں کی ممتا بھی شامل ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ سے لیکر آئین پاکستان تک کے تمام دستاویزات میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ لندن سے لیکر واشنگٹن تگ انٹرنیشنل میڈیا پر آج ایک درجن سے زائد پشتون خواتین کی موجودگی اور ان کی نمایاں کارکردگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری خواتین میں صلاحیتوں کی کمی ہرگز نہیں ہے البتہ ریاست کی جانب سے اگر ضروری مواقع اور سہولیات فراہم کی جائے تو یہ تعمیر، تخلیق اور ترقی کے شعبوں میں مزید نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ انٹرنیشنل میڈیا سے وابستہ پشتون خواتین کو بیک وقت کہیں زبانوں پر عبور حاصل ہیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ڈیوا ریڈیو، آزادی ریڈیو اور دیگر میڈیا چینلز پر جلوہ گر ثناء صافی، کلثوم کاکڑ، نگین شاہ، زیبا خادم، ملالئ بشیر، نجیبہ لیمہ، لائبہ یوسفزئی، صفیہ حلیم، فرحت تاج، ریحام خان وغیرہ کی شعوری کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ انٹرنیشنل میڈیا کے درجنوں پشتون مرد و خواتین ہمارے بیروزگار نوجوانوں کو آن لائن بزنس کے حوالے سے بہترین رہنمائی اور مدد فراہم کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ضروری ہے کہ وہ دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں قیمتی علمی و سائنسی مواد کو اپنی اپنی مادری زبانوں میں ترجمہ کرائیں تاکہ نئی نسل کے ذہنوں کو پل پل بدلتی دنیا کی جدید ترین تحقیق و تخلیق سے آگاہی حاصل ہوسکیں۔
خوش بختانہ ڈیجٹل انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب خاص طور پر کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی کے نتیجے میں پل پل بدلتی دنیا سمیٹتی جا رہی ہے اور سرحدوں کی تقسیم بھی ماضی کی طرح بڑی رکاوٹ نہیں رہی ہے۔ ہمارے علاقوں میں موجود خواتین گھر بیٹھے نئی سہولیات سے استفادہ کر سکتی ہیں، آج آن لائن کاروبار اور میڈیا کے مختلف ذرائع سے رابطہ اور ان کیلئے کام کرنا آسان ہو گیا ہے۔ عالمی میڈیا پر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین ہمارے گھروں میں بیٹھی لڑکیوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تجربہ کار صحافی اور میڈیا پرسنز مقامی نوجوانوں کو بنیادی معلومات اور پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کریں تاکہ یہ نوجوان مرد و خواتین ابتدائی معلومات کے حصول کے بعد بین الاقوامی میڈیا پر سرگرم عناصر سے رابطہ کر سکیں اور اعلیٰ سطحوں پر اپنی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت کو آزما سکیں جو ان کی سماجی اور معاشی ترقی میں یقیناً مددگار ہوگا۔ ماہرین میں ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جہاں ہماری خواتین خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتیں اور ان معصوم لڑکیوں کی مجبوری یا کچھ تحفظات بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال سے بچنے کیلئے عالمی میڈیا میں آپ کی مادری زبان میں کام کرنے والی خواتین آپ کی مددگار ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف جو خواتین پہلے ہی بین الاقوامی میڈیا میں اپنا مقام بنا چکی ہیں انھیں بھی چاہیے کہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر مختصر وڈیوز کے ذریعے ان لڑکیوں کیلئے تربیت و رہنمائی کا اہتمام کریں۔ اسطرح ان کے درمیان قریبی اور متحرک رابطے کے نتیجے میں صورتحال میں غیر معمولی تعمیری اور مثبت تبدیلی آسکتی ہے۔ انسانوں کو تقسیم کرنے کی بجائے انھیں جوڑنے کا عمل بھی تعمیری اور مفید رہتا ہے۔ خوابیدہ صلاحیتوں سے معمور نئی نسل کی بروقت مدد اور رہنمائی سے درخشندہ مسقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
آئیے ہم سب فراخ دلی، بردباری اور قوم دوستی کا مظاہرہ کریں اور کسی کی کامیاب و کامران زندگی کو یقینی بنانے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ آخر میں صرف اتنا کہ ہر صلاحیت موقع کا محتاج ہے اور موقع نہ ملنے کی صورت میں صلاحیتیں زنگ آلود بھی ہو سکتی ہیں لہٰذا ہمیں انفرادی اور قومی سطح پر نئی نسل کی خوابیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کر کے انھیں قومی تعمیر و ترقی کیلئے بروئے کار لانی چاہیے۔
♠