ایران اور سعودی عرب کے باہمی سفارتی تعلقات بحال کرانے میں چین کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کچھ حضرات اس خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ان دو ممالک کے مابین چین نے جو رول ادا کیا ہے ایسا ہی رول اسے پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی کرانے کے لئے کرنا چاہیے۔اس خواہش کا اظہار کرنے والے شائد یہ ادراک نہیں رکھتے کہ ایران اور سعودی عرب دونوں تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور چین کو اپنی صنعتی ترقی کے لئےانرجی کی شدید ضرورت ہے۔ اور یہی وہ ضرورت ہے جس کی پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے ان دونوں ممالک کو قریب لانے میں رول ادا کیا ہے تاکہ ان دونوں ممالک سے تیل کی خریداری کرسکے۔
چین اور پاکستان کے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے۔پاکستان کے پاس چین کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ قدرتی وسائل نام کی کوئی چیز پاکستان کے پاس نہیں ہے۔ باہمی تجارت میں چین کا پلڑا بھاری ہے اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ یک طرفہ تجارت ہے۔ پاکستان کی چین کے نزدیک اہمیت صرف اور صرٖف بھارت مخالف چیک پوسٹ کے طورپر ہے۔ چین اور بھارت دونوں بڑی معیشتیں ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے مسابقت میں ہیں۔ چین نے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کو گود لیا ہوا ہے بلکہ کچھ دل جلے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان چین کا اسرائیل ہے جس طرح امریکہ اسرائیل کے سر پر دست شفقت رکھتا ہے اس طرح چین بھی پاکستان کو عزیز رکھتا ہے۔
پاکستان اور بھارت کےمابین تناو اور کشیدگی نہ صرف چین کے حق میں ہے بلکہ وہ اسے کسی نہ کسی طور پر پرموٹ بھی کرتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمارے ہاں چین نواز کمیونسٹ بھارت کو توسیع پسند ملک قراردیتے ہوئے اس کی مخالفت میں پیش پیش ہواکرتے تھے۔ یہ چین ہی تھا جس نے بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کی رکنیت کی درخواست کو ویٹو کردیاتھا۔
چین کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین دوستی اور باہمی تجارت ہو کیونکہ ایسا ہونے سے پاکستان کے بتدریج چین کے فوجی پراجیکٹ سے دور ہونے کاامکان پیدا ہوتا ہے۔چین بھارت کا بہت بڑا تجارتی پارٹنر ہے لیکن بھارت اور پاکستان کے مابین باہمی تجارت کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ چین کی پوری کوشش ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین دشمنی کی فضا برقرار رہے کیونکہ یہ کشیدگی پاکستان کا چین پر انحصاربڑھاتی ہے اور پاکستان کو بطور ہتھیار وہ بھارت کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سعودی ایران تعلقات کو لے کر ہمارے لیفٹ کے لوگ بہت خوش ہورہے ہیں۔ جبکہ یہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ یہ بیک ڈور ڈپلومیسی دونوں ممالک کے درمیان پچھلے دو سال سے چل رہی تھی۔2016میں ایک شیعہ عالم کو موت کی سزا کے بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھی اور دونوں کے سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے۔ حالیہ مذاکرات صرف سفارتی تعلقات بحال کرنے کی حد تک ہیں اور اس میں ابھی مزید دو ماہ معاملات طے کرنے میں لگیں گے۔ یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات پہلے بھی کئی دفعہ (خمینی رجیم میں) اچھے رہ چکے ہیں۔
ایران جب تک حزب اللہ، حماس اور خاص طور پر حوثی باغیوں کی حمایت ختم نہیں کرتا ۔اس وقت تک دونوں ممالک کے تعلقات صرف سفارتی حد تک رہیں گے۔
لیاقت علی/اسد رحمن