لیاقت علی
سیاسی جماعتوں کی قوت وطاقت اس کے کارکنوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔کم از کم چند دہائیاں قبل تک یہ بات درست تھی کہ کسی سیاسی جماعت کی قوت اس کے کارکنوں کی کمٹمنٹ اور اخلاص کو سمجھا جاتا تھا۔ جماعت اسلامی، بائیں بازو کے گروپوں پیپلزپارٹی اور نیپ( اے این پی) اور قوم پرستوں کی رنگا رنگ ٹولیوں میں ایسے کارکن بکثرت مل جاتے تھے جو بغیر کسی لالچ، طمع اور خوف کے اپنی پارٹی،گروپ اور اس کے نظریات کے ساتھ ثابت قدمی کے ساتھ وابستہ اور ان نظریات کو ہر قدم پر پھیلانے اور عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کمر بستہ رہتے تھے۔ وہ نہ صرف خود پرامید ہوتے تھے بلکہ اپنے مخاطب کو بھی بہتر اور روشن مستقبل کی نوید دیتے تھے لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ یہ سب کارکن کہیں دور اندھیروں میں گم ہوگئے۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ اس کی کچھ معروضی اور کچھ موضوعی وجوہات اور محرکات ہیں۔
معیشت کا پھیلاو اور تنوع جس کے نیتجے میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہوئے جو ماضی میں موجود نہیں تھے، سماجی علوم کے مقابل قدرتی سائنس اور مالیاتی امور سے جڑے مضامین کی برتری اور روزگار کے بہتر مواقعوں کی کسی حد تک موجودگی جس نے نوجوانوں کوبہتر سے بہتر تعلیمی کارکردگی کے حصول کی طرف لگادیا،تیزی سے بڑھتی ہوئی اربنائزییشن اور اس جڑے مسائل و مشکلات اور سب سے بڑھ کر سیاسی قیادتوں کی کارکنوں سے بد عہدی اور اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے دولت کے انبار جمع کرنے کی ہوس، ان سب نے مل کر سیاسی جماعتوں میں سیاسی کارکنوں کو نکال باہر کیا۔ اب سیاسی جماعتوں میں سیاسی کارکن نہیں پاور بروکرز آگئے ہیں جو جلسہ جلوس احتحاج اور مظاہرہ کرنے کا معاوضہ وصول کرتے ہیں۔ یہ معاوضہ کیش میں بھی ہوسکتا ہے، حکومتی مراعات بھی اس کا معاوضہ ہوسکتی ہیں اور پھر ممکنہ طور پر ملنے والی حکومت میں مراعات او فوائد کے وعدے پر بھی کام چلایا جاسکتا ہے۔
اب یہ بھول جائیں کہ کوئی کارکن کسی سیاسی جماعت،لیڈر یا نطریہ کی خاطر سالوںجیل میں رہ سکتا ہے بالکل نہیں۔ جماعت اسلامی کے کارکنوں کو لیاقت بلوچ امیرالعظیم اور فرید پراچہ جیسی اسلامی اشرافیہ نظر آتی ہے جو جماعت کے وسائل اور اثاثوں پر قابض اور خوشحال زندگی کے سبھی لوازمات سے مستفید ہورہی ہے لہذا جماعتی کارکن ان جیسا بنناچاہتا ہے نہ کہ مودودی کی طرح سزائے موت کے سیل میں جانے کی خواہش رکھتا ہے۔
پی پی پی کے ایسے کارکن جنہوں نے جمہوریت اورپارٹی کے لئے لازوال قربانیاں دیں اب عنقا ہوچکے ہیں۔اب تصویر اتروانے اور قیادت کے دربار میں حاضری کو سیاسی جدوجہد سمجھا جاتا ہے۔شاہدہ جبیں جتنی مرضی ثابت قدم رہے اس کاعورتوں کی مخصوص نشستوں میں نمبر آخری ہی ہوگا۔پلوشا خان اورمومنہ وحید کا دور ہے۔ اب سیاسی جماعتیں کارکنوں پر نہیں جوڑتوڑ اور راولپنڈی میں بادشاہ گروں کی طرف للچائی نطروں سے دیکھتی ہیں اسی طرح جس طرح چڑیا گھر کے پنچروں میں قید بندر تماشائی بچوں کی طرف کھانے پینے کی اشیا کے لئے ملتجی نظروں سے دیکھتے ہیں دیکھتے ہیں۔
یہی حال بائیں بازو کے گروپوں کا ہے ان کی زیادہ تعداد مختلف این جی اوز کی سخاوت اور زکوۃ پر اپنی جدوجہد کا انحصار رکھتی ہے۔ ان گروپوں میں کچھ تو خوشحال نظریاتی ٹھیکیدار ہیں جو اپنے خیالات سنانے کے لئے چند افراد پر مشتمل ایک گروپ چاہتے ہیں جنھیں وہ وقتاً فوقتاً بلا کر اپنے نئے آئیڈیاز بتا سکیں( کچھ ایسے بھی ہیں جو گا کر سناتے ہیں) اور کچھ ایسے ہیں جو اس امید میں ہیں کہ جلد یا بدیر انھیں بھی کسی این جی او میں ملازمت کی آفر آ جائےگی اور وارے نیارے ہوجائیں گے۔
♥