پائندخان خروٹی
فلسفہ جمالیات میں ہر شخص اپنے حواس خمسہ کے ذریعے اشیاء کو دیکھتا بھی ہے اور محسوس بھی کرتا ہے لیکن اسے اُسی شدت کے ساتھ بیان کرنا یا تحریر میں لانا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے بلکہ اس کیلئے ایک خاص سطح کی قابلیت، فنی مہارت اور بیانیہ کی قوت درکار ہوتی ہے۔ اگرچہ فلسفہ جمالیات خوبصورتی کو سمجھنے اور سمجھانے کا ذریعہ ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ حسن کو دیکھنا، محسوس کرنا اور سمجھنا بہت سے لوگوں کی قدرت میں ہو سکتا ہے لیکن اسے بیان کرنے اور سمجھانے کا انداز کہیں زیادہ گنجلک اور مشکل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ جمالیات کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے ماضی کے بڑے دانشوروں اور فلاسفرز کے حوالوں پر انحصار کرتے ہیں جو اس اعتبار سے غلط ہے کہ ہمارے حال یعنی لمحہ موجود میں بھی حسن و جمال کے ماخذ موجود ہیں اور ان سے استفادہ کرنا زیادہ متعلق (ریلیونٹ )ہے۔ اسی طرح ایک طبقاتی معاشرے میں بعض فنکار،موسیقار، شاعر، مصور، مورخ، صحافی اور ادیب حضرات وغیرہ حکمران طبقے کی عینک سے اشیاء کو دیکھتے ہیں اور ان ہی کے خیالات کو آگے بڑھاتے ہیں جبکہ مفاد خلق کے تناظر میں یا بالفاظ دیگر معاشرے کی وسیع اکثریت کے نقطہ نظر سے دنیا اور اس کے حُسن و قُبح کو دیکھنا ہی اصل سچائی ہے۔ اکثر ادبی شہ پاروں اور فن پاروں میں ماضی کے معروف ناموں کا حوالہ دینے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو اپنے تجربوں، مشاہدہ اور معروضی حقائق میں خوبصورتی اور جمال تلاش کرنے سے قاصر ہے جس سے ان کے فن کی تاثیر متاثر ہوتی ہے۔
اگر آپ پہلی مرتبہ فلسفہ جمالیات کے بارے میں کچھ سنجیدہ آرٹیکل یا کتاب پڑھ رہے ہوں تو ایسی صورت میں جمالیات کی اصطلاح کا ماخذ معلوم کرنا، اس کے ارتقائی مراحل سے واقفیت حاصل کرنا، ، پہلی بار علم و ادب میں اس کا استعمال رواج پانا اور پھر جمالیات کو فلاسفی کا باقاعدہ برانچ بنانے سے متعلق اصل معلومات اہم ہو جاتے ہیں جبکہ تخلیقی اہل فکر و قلم کیلئے اپنے سماج کی کوکھ سے پیدا ہونے والے جمالیات کو ضبط تحریر میں لانا باعث فخر و مسرت بن جاتے ہیں۔ 1880 میں برطانیہ سے اٹھنے والی آرٹسٹوں اور ڈیزائنروں کی تحریک جمالیات کو والٹر پیٹر اور آسکر وائلڈ کی سرپرستی ملنے کے بعد دنیا بھر زبردست پذیرائی مل گئی لیکن جمالیاتی تحریک کا نعرہ “ادب برائے ادب” بلوغت تک پہنچنے کے بعد ” ادب برائے زندگی” میں تبدیل ہوا۔
نیچرل اور سوشل سائنسز کے تناظر میں عام طور پر جمالیات کا دو مختلف انداز میں اظہار ہوتا ہے۔ نیچرل سائنس میں جسم کے اعضاء کے اثرات کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے یعنی انسان کی جمالیاتی حس، اس کی تشکیل اور جسمانی اعضاء کا کردار اہم ہو جاتا ہے جبکہ سوشل سائنس میں خارجی دنیا، معروضی حقائق اور فطرت کے عناصر کا ذہنی عکس ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نیچرل سائنس میں خارجیت بڑھ جاتی ہے جبکہ سوشل سائنسز میں ذہنی عکس یا داخلیت اہم ہو جاتی ہے۔ پشتو زبان کے معروف رومینٹک شاعر غنی خان کی تصویر اس وقت مکمل ہو گئی جب وہ رنگ اور ہوش یعنی مادہ اور خیال کے درمیان جدلیاتی وحدت قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
ذہن نشین رہے کہ جمالیاتی حس کی تشکیل میں معروضی حالات، معطر فضاء، رنگوں کے اثرات، خوشبو کی لہریں، پیار بھرا لمس، آنکھوں کی مستی، لبوں کی جنبش، تحریک پیدا کرنے والی دلکش ادائیں، ڈھول کی تھاپ پر اٹھنے والے قدم، گلابی رخسار، پیار کا کانٹا، دلکش مناظر، گلشن موسیقی کی دُھن، اور پرندوں کی چہچہاہٹ وغیرہ اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ویسے بھی شعر وادب میں کیفیت، میڈیا میں واقعیت جبکہ فلسفہ و سائنس میں حقیقت پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی کبھار محسوسات کی دنیا میں تحریر اور تقریر کی حیثیت ثانوی بن جاتی ہے۔
انسانی جسم کے دو مختلف نظاموں یعنی اعصابی اور اینڈوکرائن نظاموں کے امتزاج سے جسم سے خارج ہونے والی رطوبتیں انسانی نفسیات اور رویوں پر بہت زیادہ اثرات اندازہ ہوتی ہیں جس کو میڈیکل کی زبان میں ہارمونز کہتے ہیں۔ یہ ہارمونز غم، مسرت، لذت اور جنسی تسکین وغیرہ کی نمو اور نمود کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن خدمت خلق کے جذبے سے سرشار انقلابی شخص کو دکھی انسانیت کے غم پر غمگین ہو جانے اور اولسی درد پر دردمند بنے سے جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ سب سے انوکھا سرور ہوتا ہے۔
جمالیات کے حوالے سے طبقاتی سماج میں یہ پہلو بھی نہایت اہم ہے کہ طبقاتی سماج کا اکٹریتی غریب طبقہ روز اول سے ایسے حالات سے دوچار رہتا ہے کہ اسے ہر قسم کے خوشگوار احساس اور جذبے سے محروم کر دیا جاتا ہے، جوانی میں ہی بڑھاپے کے اثرات نمودار ہو جاتے ہیں اور معاشی ناآسودگی سے چہرے کی چمک ماند پڑ جاتی ہے۔ مفکر اعظم کارل مارکس کے بقول طبقاتی سماج اور استحصالی نظام کے باعث زیرکش طبقہ شدید احساس محرومی اور بیگانگی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
طبقاتی سماج میں ایک معصوم بچہ کا بچپن چھین جاتا ہے اور اس میں تہذیب، ادب اور فن کے فروغ کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ غریب شخص قوت خرید نہ رکھنے کی وجہ سے زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم رہ جاتا ہے اس طرح ان کی تمام جائز خواہشات، جذبات، ارمان اور اُمنگیں دم توڑ جاتی ہے۔ پشتو زبان کے معروف صوفی شاعر حضرت عبدالرحمٰن بابا نے بجا فرمایا ہے کہ موسموں کا بادشاہ یعنی موسم بہار تو آکر گزر گئی لیکن میں نے پھول بھی نہیں دیکھے۔” اسی طرح اکادميسين سلیمان لائق کہتا ہے کہ “ہمارے ہاں جوانی پر خزاں ہی غالب رہتا ہے اور جب بہار آتی ہے تو اپنا یار جدا ہوتا ہے۔“۔ پشتو ترقی پسند ادب اور سیاست جمالیات کے انمول خزانے سے بھرا پڑے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پشتون افغان کے جمالیات کو کتابی شکل میں قلمبند کیا جائے کیونکہ پشتو ترقی پسند ادب و سیاست کے جلوے دنیا کے سامنے آشکار ہو جانے ابھی باقی ہیں۔
کسی بھی ملک میں نافذالعمل نظام کے گہرے اثرات زندگی کے تمام شعبوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ طبقاتی سماج میں بالادست طبقہ صرف ملک کی سیاست اور معیشت پر قابض نہیں رہتا بلکہ وہ عوام کے خیالات، جذبات، احساسات اور جمالیات کو بھی اپنی ضرورت کے تحت محکومیت، محرومیت اور مغلوبیت کے مخصوص سانچوں میں ڈھالتے ہیں۔ اس ضمن میں یہ کہنا بجا ہے کہ طبقاتی سماج کے جمالیات سرمایہ دارانہ اور عیش پرستانہ ہیں جو معاشرے کی محدود اقلیت تک محدود ہیں۔
لہٰذا اب وقت آپہنچا ہے کہ ہم معاشرے کو حکمران طبقہ کے خیالات اور بورژوا رحجانات سے پاک کرنے کیلئے حقیقی خلقی مفکورہ قائم کریں، بورژوا جمالیات کا معیار بدل کر پرولتارين بنیادیں فراہم کریں اور بورژوا نمائندوں کو اولسی رنگ میں بدل دیں۔ واضح رہے کہ یہ جزیات سے نہیں بلکہ سسٹم اینڈ سٹیٹس کو کی تبدیلی کے متقاضی ہیں کیونکہ پرولتارين ڈکٹیٹرشپ کے قیام سے ہی پرولتارين خیالات اور رحجانات متعارف ہوں گے۔
♠