بصیر نوید
حضرت میر تقی میر بھی کیا خوب بات کہہ گئے کہ میر بھی کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لیتے ہیں اس خوبصورت شعر کو اسلامی جمہوریہ میں مشرف بہ اسلام کرنے کیلئے اس میں لفظ لونڈے کو نکال کر “لڑکے” سے تبدیل کرنے کی کوشش کامیابی سے جاری ہے بلکہ اسکولوں کے اساتذہ شعر میں لڑکے کی تحریف کرکے پڑھا رہے ہیں۔ خیر! نصاب اس آرٹیکل کا موضوع نہیں ہے۔
شعر کا مطلب ہے کہ جن کو آزمایا جا چکا ہے یا جن سے دھوکا کھایا تھا ہم تو اتنے سادہ تھے کہ اس کے لڑکے سے بھی دھوکہ کھانے کو تیار رہتے ہیں یعنی جس سے نقصان اٹھایا اب اپنی سادگی کے باعث اس کے چیلوں سے نقصان اٹھانے کو تیار ہیں۔ یہ مطلب تو میں نے اپنی ناقص فہمی کے باعث کیا ہے ہوسکتا ہے کہ اسکا مطلب زیادہ گہرا اور وسیع ہو جس کی میں پیشگی معافی چاہتا ہوں۔ یہاں میں پاکستانی نصاب کی نئی تحریف کو تسلیم کرتے ہوئے لونڈوں کی جگہ عطار کے “لڑکوں” کا ہی ذکر کروں گا، کیونکہ لونڈے لکھنے سے مدرسوں کی طرف نظریں اٹھ جاتی ہیں۔
تازہ سیاسی صورت حال میں جب سویلین حکومت بے بس نظر آرہی ہے تو ایک بار پھر عطار کے لڑکوں سے دوائی لینے کا عمل شروع ہوگیا جن کے سبب گذشتہ سات دہائیوں سے سیاسی نظام متزلزل رہا اور آج تک مستحکم نہ ہوسکا۔ حکومت اس مرتبہ بھی ایک بار پھر ایک ہی سوراخ سے ڈسے جانے کیلئے تیار ہے۔ وہی عطار ہیں اور اب تو انکے بیشمار لڑکےہیں ہیں جو اسی روایت کو لیکر چل رہے ہیں کہ بیمار کو کسی طور تندرست نہ ہونے دیا جائے۔ بنگلہ دیش کے قیام اور وہاں قتل عام میں بھی عطار کے لڑکوں کا ہی دخل تھا۔ جنرل ضیا الحق کی آمریت کے دوران عطار کے لڑکوں کا بہترین استعمال کیا گیا۔
عطار کے لڑکے ہیں کون؟ جنرل ضیا الحق کی حکومت میں انہیں سیاست میں مداخلت کرنے اور اپنی پسند کی سیاسی جماعت بنانے کا پورا پورا اختیار دیدیا گیا تھا جس کے بعد آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کور کمانڈرز، نیول اینڈ ائیرفورس کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے عطار کے لڑکوں کا فریضہ سنبھال لیا۔ پہلا کامیاب ٹاسک ضیا کی مجلس شوریٰ تھی جس میں پیپلزپارٹی 75 اراکین تھے جو بھٹو کی زندگی میں ان پر مر مٹنے کا دعوٰی کیا کرتے تھے۔ اسی مجلس شوریٰ نے ایک نئی سیاسی قیادت دی جس کا نام میاں محمد نواز شریف تھا جنہیں پہلی دفعہ پنجاب کا وزیر خزانہ نایاب گیا تھا عطار کے لڑکوں کیلئے وہ تجربہ انتہائی کامیاب رہا۔
وجہ یہ تھی کہ سب سے بڑے صوبے کے وزیر خزانہ اپنی مرضی سے کام نہیں کرتے تھے۔ جنرل ضیا نے افغانستان میں سوویت یونین مداخلت کے بعد بڑی تعداد میں عطار کے لڑکوں کی فوج تیار کی جنہوں نے جہاد کے نام پر دہشت گردی کو نہ صرف منظم کیا بلکہ دہشت گردوں کی ایک فوج ظفر فوج تشکیل دی جس سے 53 سال گزر جانے کے باوجود ملک کی جان چھوٹنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔ عطار کے لونڈوں کے اتنی بڑی اور کامیاب فوج کے بعد جنرل ضیا کی حکومت نے ملکی سیاست میں مداخلت کو اپنے لئے چیلنج بناتے ہوئے سندھ سے ابتدا کی جہاں ایم آر ڈی کی واضح فوج دشمن تحریک نے فوجی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
جنرل ضیا کی حکمت کے تحت سندھ میں واضح لسانی تقسیم کی مضبوط دیوار بنائی گئی اور الطاف حسین کی سربراہی میں ایم کیو ایم کی تشکیل کی جس نے 30 سے زائد سالوں تک سندھ خاص کر صوبے کے صنعتی اور تجارتی شہروں کو شہری دہشت گردوں کے حوالے کئے رکھا۔ ایسا خون خرابہ کرایا جو سندھ کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا نوجوانوں کا قتل کرایا یا انہیں مایہ ناز جرائم پیشہ افراد میں تبدیل کردیا جس کے باعث سندھ ابھی تک نفرتوں سے جان نہ چھڑا سکا۔ عطاروں کی اولادوں نے پورے دس سالوں 1989 سے لیکر 1999 تک منتخب حکومتوں کو 18 مہینوں سے لیکر 20 مہینوں سے زیادہ چلنے کا موقعہ نہیں دیا بالآخر جنرل مشرف کو عنان اقتدار حوالے کرکے سکون سے بیٹھ گئے۔
زرداری کی منتخب حکومت کو تمام پانچ سال تنگ کرنے کے بعد اور 18ویں ترمیم سے پریشان ایک بار پھر نواز شریف کو کالا کوٹ پہنا کر اگلے وقت کیلئے تیار کیا گیا۔ جب میاں نواز شریف 18ویں ترمیم تبدیلی نہ کرسکے تو پھر عطار کے لڑکوں نے عدلیہ کا سہارا لیکر نواز شریف کو تا حیات نااہل کرکے ان کی بیٹی کو بھی نااہل کرکے سزا دیدی۔ یوں عطاروں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنادیا۔ عمران بھی ساڑھے تین سالوں میں دل سے اتر گیا۔ اس مرتبہ سیاسی لوگ خود سے جاکر عطار کے بچوں کو اپنی مدد کیلئے لے آئے حالانکہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں ہی یہ طعنے دیتی رہیں کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ہی عمران خان کو پال پاس کر اقتدار اسکے حوالے کیا۔
اب جبکہ عمران خان قابو میں نہیں آرہا تو آزمائے ہوئے عطاروں کی اولادوں کو اپنا لیا اور پرانے تمام گلے ختم کردیئے۔
بقول راز مراد آبادی ۔۔ اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے اب رہائی ملے گی تو مر جائیں گے۔
تازہ ہنگامہ آرائی، فوجی تنصیبات پر حملوں پر پی ٹی آئی کے بلوائیوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے اور لمبی سزائیں دینے سے پہلے عطار کے لونڈوں پر بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائیں جنہوں نے پی ٹی آئی کی ہر قسم کی سہولت کے ساتھ تخریب کاری کی ویسی ہی تربیت کی جیسی انہوں نے تحریک طالبان اور کشمیری مجاہدین کی خاطر کی تھی۔ ملک میں بہتر جمہوری عمل کیلئے ضروری ہے کہ پہلے عطار کے چھوکروں کو آرمی ایکٹ میں پکڑا جائے اور سزائیں دی جائیں کیونکہ جو کچھ تحریک انصاف کے کارکنوں نے کیا اس میں بے خوفی کا عنصر اسی لئے تھا کہ ان کی پشت پناہی یہی عطار کی اولادیں کررہی تھیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسی عطار کی اولادیں کتنے عرصے تک جمہوری عمل کے ساتھ رہیں گی اور کب کوئی اور نیا فارمولا لاکر کوئی نیا عمران خان یا نواز شریف آزمائیں گے پھر سارے سابقہ حکمران کورس میں ٹسوے بہاتے رہیں گے۔