دنیا کی انسانی تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ انقلاب فرانس، جولائی 1789 ، بالشویک انقلاب،اکتوبر 1917) اور چینی انقلاب (اکتوبر 1949) ان سب کی اصل تقویت اور مضبوط بنیادیں تاریخی کسان تحریکوں سے آئی ہیں۔ فرانسیسی بوربن شاہی خاندان سے لیکر زارڈم آف رشیا اور چائنیز جاگیردارانہ نظام تک سب کی ظلم، جبر اور استحصال پر مبنی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت اور بغاوت کی تاریخ محنت کش طبقہ کے خون اور قربانی سے رقم ہوئی ہے۔ اگر کسان زمین کا سینہ چیر کر بانجھ و بنجر زمین کو سرسبز و شاداب کر سکتے ہیں تو بڑی بڑی سامراجی اور استحصالی قوتوں کو زمین بوس کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان غیرمنظم کسانوں اور مزدوروں کو ایک انقلابی تنظیمی پلٹ فارم فراہم کیا جائے اور انھیں سیاسی اور نظریاتی شعور کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔
بہرحال اس ضمن میں پشتونخوا وطن کی پولیٹکل اکانومی پر مبنی شاندار تاریخ بھی بڑی کسان تحريکوں کا تجربہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے پشتونخوا وطن میں زمینوں کی مشترکہ ملکیت کا نظام، ایشیاٹک موڈ آف پروڈکشن، جاگیرداروں کے خلاف اٹھنے والی کسان تحريکوں اور ان کے اثرات پر مناسب توجہ نہیں دی جا سکی اور خاص طور تجزیہ کاروں، تاریخ نویسوں، ادیبوں، فل برائٹ پروفیسرز اور اکیڈمیشنز نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا ہے۔ نہ جانے کیوں ہمارے معاشرے میں آج بھی مردہ ادب، فوک لور، غیرمتعلق اور غیرضروری موضوعات پر تحقیق کرنے والوں نے کبھی ان حیات بخش تحریکوں کو اپنی تحریر یا تحقیقی مقالات کا موضوع آج تک نہیں بنایا۔ یہ بات میں اپنے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اس کو اہل علم وادب کی نااہلیت قرار دیتے ہیں یا بالادست طبقہ کی چالاکی۔۔۔۔۔؟ وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے مگر یہ بات حقیقت ہے کہ عوام کے سلگتے مسائل سے نظریں چرانے والے اہل ادب و سیاست کبھی بھی عوامی ہیروز نہیں بن سکتے اور باشعور نوجوان تو اب ان کی شائع شدہ کتابوں کو پرسنل لائبریری میں رکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔
پشتون افغان وطن کی تاریخ میں پہلی بار جب پیر روشان بایزید انصاری کی مزاحمتی تحریک مغل حکمرانوں کے ظلم اور استحصال کے خلاف وزیرستان کی مردم خیز سرزمین سے اٹھی تو جنگل کی آگ کی طرح یہ مزاحمت اور بغاوت کی تحریک مارگلہ اٹک سے لیکر درہ خیبر تک اور عروس البلاد غزنی سے لیکر ننگرهار تک پھیل گئی۔ مغل حکمرانوں کے خلاف تین نسلوں تک چلنے والی روشانی تحریک میں کسان/کاشتکار اپنی قومی تحریک کے شانہ بشانہ رہے۔ واضح رہے کہ کہ برصغیر پاک و ہند میں آباد کئی اقوام میں زمیندار تو جاگیردار کو کہا جاتا ہے جبکہ پشتونخوا میں لفظ زمیندار بزگر/کاشتکار/کسان یا دہقان کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی طرح لفظ مالدار سرمایہ دار کیلئے استعمال ہوتا ہے مگر پشتو زبان میں مالدار لائیو سٹاک رکھنے والے کو بھی کہا جاتا ہے۔
تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ مغل حکمرانوں میں اورنگزیب عالمگیر نے پہلی مرتبہ مذہبی عناصر میں طریقت کی بجائے اہل شریعت کو بڑی بڑی سرکاری جاگیریں اور خلعتیں عطاء کیں۔ برطانوی سامراج نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو وسعت دی۔ تاج برطانیہ اپنی قبضہ گیری کو برقرار رکھنے کیلئے بعض گدی نشین پیروں اور مولاوں کے علاوہ قبائلی شخصیات کو بھی اس میں شامل کیا جو برطانوی قبضہ میں سہولت کار بنے۔ اس سلسلے میں باچاخان اور انکے پیروکاروں نے اصلاح افغانہ اور خدائی خدمتگار کے پلٹ فارم سے جبکہ خان شهيد عبدالصمد خان اچکزئی نے انجمن وطن کے پلٹ فارم سے نہ صرف انکی مخالفت کی بلکہ انھیں مسلسل عوام کے سامنے بےنقاب بھی کرتے رہیں۔
لیکن پشتونخوا وطن کی تاریخ گواہ ہے کہ کسانوں کو پہلی بار تحریک آزادی کے صف آول کے ہیرو اور ڈاڈائے زیارکشان کاکاجی صنوبر حسین مومند نے تنظیمی اور نظریاتی اساس فراہم کیا۔ صنوبر کاکاجی نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہونے کے بعد ” انجمن زمینداران سرحد 1926″ کی داغ بیل ڈالی اور برطانوی سائمن کمیشن کے سامنے دریائے سندھ سے پانی کا جائز حق/حصہ مختص کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈاڈائے محنت کش طبقہ صنوبر کاکاجی بجا فرمایا ہے کہ “زمین بھی بلا کسی کی ہو سکتی ہے۔ زمین کو سینہ اور پسینہ دینے والے ہی زمین کے اصل مالک ہوتے ہیں“۔
اس طرح وقتاً فوقتاً نصف درجن سے زائد کسان تحریکیں سر اٹھانے لگیں۔ گویا صنوبر کاکاجی نے اگر پہلی مرتبہ مضبوط تنظیمی اور نظریاتی بنیاد فراہم کیں تو مارکسی دانشور ایڈوکیٹ افضل خان بنگش اور قوم دوست رہنماء شیرعلی باچا نے غریب کسان کو زمینوں کی فراہمی کیلئے نتیجہ خیز جدوجہد کی۔ واضح رہے کہ پچھلے برس شائع ہونے والی شیر علی باچا کی کتاب” کسان دفتر ” کے صفحہ 310 کے مطابق مزدور کسان پارٹی کے کُل ایک سو تیرہ (113) معلوم غریب کسان مزدور شہید ہیں جو کسان تحریک کی َجدوجہد کے دوران اُس وقت کے حکمرانوں اور جاگیر داروں کے ظلم اور جبر کے شکار رہے۔ گویا خیبر پشتونخوا میں اربابوں، جاگیرداروں اور خانوں کے خلاف طبقاتی جدوجہد میں اگر ایک سو تیرہ کسان مزدور نے پرولتارين بالادستی قائم کرنے کیلئے اپنی جانیں نچھاور کر دیں تو بدلے میں ساٹھ سے زائد بڑے بڑے جاگیردار بھی ہلاک کر دیئے گئے تھے۔
آپ سب سے دست بستہ درخواست ہیں کہ کاکاجی صنوبر حسین مومند سے لیکر ایڈووکیٹ افضل خان بنگش اور شیر علی باچا تک مختلف مراحل کے حوالے سے آپ کے پاس اگر معلومات، دستاویزات یا کتابیں موجود ہیں تو مہربانی کرکے ہمارے ساتھ لنکس شیر کریں۔ پشتونخوا وطن میں ہزاروں برس پرانا ایشیاٹیک موڈ آف پروڈکشن اور کسانی تحریکیں ریسرچ کیلئے بہترین موضوعات ہیں۔
اپنے مضمون کا اختتام مزدور کسان رہنما کے ایک پشتو شعر پر کرنا چاہتا ہوں جس کا مفہومِ یہ ہے کہ محروم، محکوم اور مظلوم کی راہ میں حائل مصیبتوں کے کئی پہاڑ ہم اپنے سر سے گرا چکے ہیں اور اب قافلہ کو بلا خوف و خطر آگے بڑھنا چاہیے۔
♣