مبصرین کے مطابق ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام سے پاکستان کے بیرون ملک سفارتی، دفاعی اور معاشی مفادات متاثر ہو رہے ہیں۔ سیاسی کارکنوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن پر انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔
پاکستان میں جاری اندرونی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اس کے بیرون ملک سفارتی اور تجارتی مفادات کے متاثر ہونے کے خدشات زور پکڑتے جارہے ہیں۔ اس ضمن میں حالیہ دنوں کئی ممتاز بین الاقوامی شخصیات اور اداروں نے کھل کر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے پاکستان تحریک انصاف کے خلاف زور و شور سے جاری کریک ڈاؤن پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت کی جانب سے سیاسی کارکنان کے خلاف سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے فیصلے کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کی اسٹریٹجک پوزیشن بہت اہم ہے اور پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اس لیے بین الاقوامی برادری اس صورتحال کو بہت قریب سے دیکھ رہی ہے اور اس پرتشویش کا بھی شکار ہے۔
تاہم بین الاقوامی امور کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورتحال سے پاکستان کو بیرونی محاذ پر بہت سارے نقصانات ہو سکتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابقہ سربراہ طلعت وزارت کے مطابق پاکستانی معیشت پہلے ہی خستہ حال ہے اور بےیقین اور خراب معاشی صورتحال کے منفی اثرات کا ملکی سلامتی پر پڑنا بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ انہوں نے کہا، ” موجودہ سیاسی صورتحال کا نقصان یہ ہو رہا ہے ہمارا دوست ملک چین بھی میں سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچا رہا ہےاس کا مطلب ہے کہ آپ کی معیشت کمزور ہو گی اور اس کا بہت گہرا اثر آپ کی سکیورٹی پر بھی پڑے گا‘‘۔
پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر معاشی میدان میں بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کو قرض کی ادائیگی میں اربوں ڈالر ادا کرنے ہیں جبکہ ملک میں معاشی شرح نمو بہت سست ہے اور عالمی مالیاتی اداروں سے بھی حکومت کو پیسے نہیں مل رہے۔
لاہور میں مقیم معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے مالیاتی اداروں کے لئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بنک کبھی ایسے کاروباری افراد کو پیسہ نہیں دیتے جن کا کاروبار ڈوب رہا ہوں۔ پاکستان میں بھی سیاسی افراتفری اور انتشار کا خطرہ ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف قرض کی قسط دینا نہیں چاہتا اور آئی ایم ایف کی طرف سے رقم کی فراہمی میں تاخیرکا مطلب یہ ہے کہ پیرس کلب، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دوست ممالک بھی پاکستان کو قرضہ دینے سے کترائیں گے‘‘۔
ڈاکٹرقیس اسلم کے مطابق ایسی صورت میں پاکستان کو اوپن مارکیٹ سے قرضہ لینا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، ” اس قرض پر شرح سود بہت زیادہ ہوگی، جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے قرضوں میں اضافہ ہوگا بلکہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی بہت مشکلات ہوں گی۔
حالیہ برسوں میں پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے صنعتوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ گزشتہ برس کے سیلابوں نے بھی ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچا۔ اسی طرح ٹیکسٹائل کی صنعت میں بھی لاکھوں لوگ پہلے ہی بے روزگار ہیں۔
ناقدین کے خیال میں موجودہ سیاسی صورتحال میں کھل کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ اس کی وجہ سے معیشت کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ یورپی یونین کی طرف سے دیا گیا دس سالہ جی ایس پی پلس کا درجہ ستمبر میں ختم ہو رہا ہے اور اس کے تجدید کے لیے یورپی یونین بہت سارے عوامل پیش نظر رکھے گی۔
یہ خدشات صرف عام آدمی کی طرف ہی نہیں بلکہ صدر پاکستان عارف علوی نے بھی ایک انٹرویو میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔ ٹریڈ یونینز سے وابستہ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خدشہ غیر منطقی نہیں ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن کے سربراہ کرامت علی کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال جی ایس پی پلس کے اسٹیٹس کو متاثر کر سکتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یورپی یونین کے ستائیس کنونشنز ہیں، جس میں انسانی حقوق آزادی اظہار رائے سمیت کئی دیگر حقوق شامل ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہورہی ہے، جس کا نوٹس یورپی یونین یقیناً لے گی اور پاکستان کا جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس خطرے میں پڑ سکتا ہے‘۔
dw.com/urdu