بیرسٹر حمید باشانی
میں نے گزشتہ کالموں میں نظریہ ضرورت اور عدالتوں کے کردار کا تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیا تھا۔میرے اس تجزیے کی بنیاد مولوی تمیزالدین کیس تھا، جس کو پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سلسلے کا اگلا اہم مقدمہ ” دوسو بنام ریاست ہے۔ اس اہم مقدمہ کے حقائق یہ ہیں کہ دوسو ایک عام قبائلی آدمی تھا، جس کا تعلق لورالئی بلوچستان سے تھا۔دوسو کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس کے خلاف ایف سی آر 1901 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔ ایف سی آر ا1901 بنیادی طور پر انگریزوں کا بنایا ہوا قانون تھا، جو انہوں نے قبائلی علاقوں کو قابو میں رکھنے کے لیے بنایا تھا۔ یہ قانون برطانوی ہند میں رائج باقی قوانین سے مختلف تھا۔ اس قانون کا واحد مقصد پشتون بغاوتوں اور مزاحمت کی تحریکوں کو کچلنا تھا۔ بد قسمتی سے پاکستان کے قیام کے بہت دیر بعد تک یہ قانون من و عن نافذ رہا، اور اس قانون کے تحت قبائلی علاقوں کے لوگوں کے خلاف مقدمات چلائے جاتے رہے۔
دوسو کو اس قانون کے تحت چارج کرنے کے بعد لویا جرگہ کے حوالے کیا گیا۔ سیکشن گیارہ کے تحت لویا جرگہ نے دوسو کو قتل کیس میں مجرم قرار دے دیا۔ یہ کیس دوسو بنام ریاست پاکستان کے عنوان سے مشہور ہوا۔ دوسو کے لواحقین نے لویا جرگہ کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر دی۔ دوسو کے وکیل کا یہ استدلال تھا کہ دوسو پاکستانی شہری ہے، اس کے خلاف ایف سی آر کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی جواز نہیں، اس لیے اس کے خلاف عام پاکستانی قوانین کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔ لاہور ہائی کورٹ نے 1956 کے آئین کے تحت مقدمہ کی سماعت کی اور دوسو کے حق میں فیصلہ کیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ ایف سی آر آئین سے متصادم ہے، اور دوسو پاکستان کے ایک شہری کی حیثیت سے1956کے آئین کے دفعہ پانچ اور سات کے تحت مساوی سلوک کا حقدار ہے۔
عدالت نے 1956 کے آئین کے آرٹیکل پانچ اور سات کا حوالہ دیا۔ آئین کے آرٹیکل5کہ مطابق قانون کے سامنے تمام شہری برابر ہیں، اور آرٹیکل سات کے مطابق تمام شہریوں کو آئین کا مساوی تحفظ حاصل ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ایف سی آر 1956 کے آئین سے متصادم ہیں۔ یہ امتیازی سلوک پر مبنی ہیں، جبکہ آئین تمام شہریوں کو مساوی تحفظ دیتا ہے۔ عدالت نے لویا جرگہ کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے نے ان تمام مقدمات پر سو الیہ نشان لگا دیا، جو1956کے آئین کے نفاذ کے بعد ایف سی آر کے تحت چلا ئےگئے تھے۔وفاقی حکومت نے عدالت کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا۔
عدالت نے اس مقدمہ کی سماعت کے لیے تیرہ اکتوبر1958 کی تاریخ مقرر کی۔ لیکن اس تاریخ سے چھ دن پہلے صدر سکندر مرزا نے پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کر دیا۔ جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا۔ وفاقی او ر صوبائی قانون سازی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے نیا لیگل آرڈر جاری کر دیا۔ اس نئے لیگل آرڈر کے تحت تمام پرانے قوانین کی توثیق کر دی گئی ، مگر 1956 کے آئین کی توثیق نہیں کی گئی۔ اس دوران دوسو کیس اپیل کے لیے سپریم کورٹ پہنچا۔ قانونی ماہرین پر امید تھے کے دوسو کیس کی سماعت کے دوران مارشل لا کی قانونی حیثیت اور1956 کا آئین بھی زیر بحث آئے گا ۔ اگر سپریم کورٹ اس کیس کی اپیل کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دے دیتا تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا کہ1956 کا آئین ابھی تک نافذ العمل ہے کیوں کہ ہائی کورٹ نے اس کیس کا 1956 کے آئین کے دفعہ پانچ اور سات کے تحت فیصلہ کیا تھا۔ اور اگر1956 کے آئین کو ابھی تک نافذ العمل مان لیا جاتا تو مارشل لا آرڈر1958کے تحت ملکی قوانین کے حوالے سے جو آرڈر جاری کیے گئے تھے، ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔
اتفاق سے اس اپیل کے دوران بھی مولوی تمیزالدین کیس کی طرح بنچ کے سربراہ جسٹس منیر ہی تھے۔ جسٹس منیر نے تمام توقعات اور تجزیوں کے بر عکس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے لیے کسی واضح نظیر یا قانون کی عدم موجودگی میں انہوں نے قانون دان اور مفکر ہینس کیلسن کی “جنرل تھیوری آف لا اور سٹیٹ “پر انحصار کیا۔ کیلسن ایک آسٹرین جیورسٹ اور فلاسفر تھا، اس نے1920 میں آسٹریا کا آئین لکھا تھا، جو مختلف ترامیم سے گزرنے بعد آج بھی نافذ ہے۔ بہر کیف جسٹس منیر کے فیصلے نے1958کے مارشل لا کو جائز قرار دیا۔ مارشل لا کے نفاذ کو ایک پر امن تبدیلی قرار دیا گیا، جس میں کوئی خون خرابہ نہیں ہوا۔انہوں نے یہ دلیل دی کے چونکہ اس پر امن تبدیلی کی عوام نے کوئی مزاحمت یا مخالف نہیں کی، اس لیے اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ عوام اس تبدیلی یا انقلاب سے مطمئن ہیں اس لیے یہ مارشل لا قانونی طور پر جائز ہے۔
عدالت نے 1958کے نیو لیگل آرڈر کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ پرانا لیگل آرڈر یعنی1956 کا آئین منسوخ ہو چکا ہے۔ عدالت نے مزید دلیل یہ دی کہ چونکہ آئین منسوخ ہو چکا ہے، اس لیے ایف سی آر 1901 اب بھی نافذ العمل ہے، اور لویا جرگہ کے فیصلے کی1958 کا آرڈر توثیق کرتا ہے۔ یہ کیلسن کی تھیوری کا ایک نیا اور انوکھا استعمال تھا، جس کے تحت مارشل لا کو جائز قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ دوسو کیس میں جسٹس منیر کی سربراہی میں قائم عدالت کے فیصلے نے پاکستان کی سیاست کو بہت گہرائی سے اور بری طرح متاثر کیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف ملک میں پہلے مارشل لا کو درست قرار دے دیا بلکہ مستقبل کے تمام مارشل لاز کے لیے دروازہ کھول دیا۔ مارشل لا کو جائز قرار دینے کے اس فیصلے نے فوری طور پر چیف مارشل لا جنرل ایوب خان کو ایک عشرے تک حکومت کرنے کی طاقت اور اختیار دے دیا۔
ملک میں پہلے سے چیلنج شدہ نیا جمہوری نظام ختم ہو گیا، آئین کو مسترد کر کہ آمریت کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا گیا۔ اس عمل سے آمریت پسند طالع آزماوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے بار بار جمہوری حکومتوں کو بر طرف کرنے ، آئین معطل کرنے اور اقتدار پر قابض ہونے کا عمل دہرایا۔ چھپن کے آئین کے پس منظر میں نو سال کی جدو جہد تھی۔ اس میں اس اسمبلی کی سات سالہ کاوش بھی تھی ،جس کو تحلیل کر دیا گیا تھا۔ آئین معطل کرنے سے کئی مسائل کھڑے ہوگئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان معاملات خراب ہو گئے۔
ابھی تازہ تازہ پاکستان میں جو اردو اور بنگالی دونوں کو قومی زبان قرار دیا گیا تھا، اس کا خاتمہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے برطانیہ کا تخلیق کردہ فرنٹئیر کرائم ریگولیشن جیسا کالا قانون دوبارہ نافذ ہو گیا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان میں عدالتوں کی خود مختاری پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا۔ عدالتیں انتظامیہ کے آگے جھکنے کی راہ پر چل پڑِیں اور عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان علیحدگی کے تصور کو شدید نقصان پہنچا۔ اس صورت حال کا تفصیلی احوال آئندہ کالموں میں پیش کیا جائے گا۔
♠