بصیر نوید
ملکی سیاست میں جب بھی ناکام معیشت اور مستقبل کی متزلزل سیاست کی بات ہوتی ہے تو دونوں طرف کے سیاستدانوں کی طرف سے ملک کے انارکی کی طرف گامزن ہونے کی پیشن گوئی کی جاتی ہے ایسے جیسے کہ ملک خون خرابے کی طرف چلا جائے گا۔ عام طور پر انارکی ازم کو انتشار، افراتفری، نفسانفسی، مارا ماری، لوٹ مار، خون خرابہ، دہشت گردی اور ہر فرد کی دوسرے فرد کیخلاف جارحانہ رویہ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں اگر کوئی فرد کسی اتھارٹی کے بغیر آزاد معاشرے کے قیام کی بات کرے یا ریاستی اداروں کی حاکمیت کی مخالفت کرے تو ایسے خیالات یا نظریے کو کو فوری طور پر انارکسٹ قرار دیکرمسترد کردیا جاتا ہے۔
حیرانگی اس وقت ہوتی ہے جب ٹیلی ویژن اسکرینز پر بیٹھے ہوئے تجزیہ کار اور ماہرین سیاست ملک میں نوآبادیاتی نظام کے تحت قائم اداروں کی حمایت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں جیسے ملک کی بقاء ان ہی اداروں سے مشروط ہے جبکہ بنگالیوں نے صرف ان اداروں کے ظالمانہ و جابرانہ اور نسل پرستانہ رویوں اور معاشی لوٹ مار کے باعث ہم سے آزادی حاصل کی تھی۔ بلکہ ہمیں پچاس سال قبل ہی کہہ گئے تھے کہ اگر امن و خوشحالی چاہتے ہو تو ان اداروں سے آزادی حاصل کرلو۔
اب وہی ادارے ہیں جن میں ان کی کارکردگی کے لحاظ سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جبر کا نظام پہلے کی نسبت زیادہ سخت ہوگیا ہے حالانکہ میڈیا انتہائی جدید سطحوں پر موجود ہے نیز سوشل میڈیا تو کسی کو بخشنے کو تیار نہیں پھر بھی جبر اور ظلم انتہائی پیچیدہ نوعیت اختیار کرگئے ہیں۔ گرفتاریوں کے بعد جبری گمشدگیاں، عقوبت خانوں میں ہلاکتیں، پولیس مقابلے، فوج کا آڈٹ نہیں ہوسکتا، پولیس کو ایذارسانی اور ماورائے قانون قتل پر مقدمات نہیں چل سکتے نہ سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ عدلیہ جو چاہے فیصلے کرلے، آئین کو بدل لے، پھانسی لگنے کے بعد ملزمان کو بری کردیا جائے، لاکھوں مقدمات عدالتوں میں موجود ہیں۔ سائل اپنے مقدمات اپنی نسلوں کو منتقل کرکے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی ملک کے آئین ساز اور قانون پر عمل کرنے کی نصیحتیں کرنے والے ادارے، وکلاء حضرات، بڑے بڑے دانشور، تجزیہ داں اور رائے عامہ کے ادارے کہتے ہیں کہ “اداروں” کیخلاف بات نہ کریں ورنہ ملک انارکی کی طرف جائے گا۔یہاں کوتاہ نظر افراد کیلئے صرف یہی جاسکتا ہے اگر انارکی ازم بری شے ہے تو وہ پاکستان کے اداروں سے سے تو قطعی برے نہیں ہونگے جو قرون وسطی سے بھی بدتر ہیں۔
ان سب باتوں سے بالاتر، انارکی ازم ایک خوبصورت نظریہ ہے جو ریاستی جبر اور اداروں سے آزاد معاشرے کی تشکیل کا نظام پیش کرتا ہے۔ یہ ایک فلسفے اور تحریک کا نام ہے جو حاکمیت یا اختیارات کے تمام درجات کے خاتمے کی بات کرتا ہے۔ جہاں یہ سرمایہ دارانہ نظام کے سخت خلاف ہے وہاں وہ حکومتوں کی تشکیل کے ساتھ ساتھ نیشن اسٹیٹ (قومی ریاست) کیخلاف بھی جو انفرادی آزادی چھین لیتے ہیں۔ یہ حکومتوں کو ایک غیر ضروری طرز حاکمیت اور عوام کیلئے نقصان دہ سمجھتا ہے کیوں کہ حکومتیں لوگوں سے اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے بھاری ٹیکسز عائد کرتی ہیں، اپنے اور اشرافیہ کے تحفظ کیلئے سخت قوانین نافذ کرنا، پولیس اور فوج کر بھاری تعداد بنا کر لوگوں کو مسلسل جرائم میں ملوث کرنا، سزاوں کیلئے عدالتوں کا ایک سخت گیر جال بچھانا کہ ہر فرد خود کو مجرم سمجھے اور ریاست ہمہ وقت خود کو غیر محفوظ بنا کر عوام کی تمام ازادیاں چھین لیتی ہیں جن میں سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ختم ہوکر لوگ روبوٹ بن جاتے ہیں۔ علم بھی وہی فراہم کیا جاتا ہے جو ریاست اور اسکے آقاؤں کی ضروریات کو پورا کرے۔
نراجیت پسند نظریہ داں ، پیٹر کروپوٹکن ،کے مطابق یہ دراصل ایسے اصول یا نظریہ زندگی اور رویے کا نام ہے جس میں ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جو کسی کی فرمانبرداری اور حاکمیت کے بغیر قائم ہو۔ ہمارے چھٹ بھیئے دانشور چھوٹی اسکرینوں پر بیٹھ کر تباہ شدہ صورت حال اور خون خرابے کو انارکی سے تشبیہ دیدیتے ہیں۔ حالانکہ انارکی فلسفہ حیات میں ہر انفرادی فرد کی تکریم اور آزادی سے زندگی گزارنے کی بات کی گئی ہے، کسی کو کسی پر زور زبردستی دکھا کر اپنے تابع رکھنے کی سختی سے ممانعت ہے۔ یہ نظریہ اخلاقیات، اخلاقی بندھنوں اور باہمی تعاون پر زور دیتا ہے جس میں سزاوں، قانون کی بالادستی کے نام پر فوج و پولس اور عدالتوں کا تصور نہیں ہے۔ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو کمیونٹی اسکو جرائم سے دور رکھنے کی ذمہ دار ہوگی۔ یعنی ہر کمیونٹی (یوں سمجھئے کہ ایک یونین کونسل کے برابر کی آبادی) میں آباد لوگ (مرد، خواتین اور بچے) اپنے وسائل، اپنی کھپت اور ضروریات کے تحت باہمی رضامندی اور آزادانہ سمجھوتوں کے تحت مسائل حل کریں گے۔
امریکہ کی ممتاز اور ایوارڈ یافتہ مصنفہ ، سنڈی ملسٹن نے انارکی ازم کی تعریف کچھ یوں کی ہے کہ “آزاد افراد کی آزاد سوسائٹی“۔
انارکی یونانی زبان کے لفظ انارکیہ سے لیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ “بغیر حاکمیت کے“۔ وسیع معنوں میں یوں ہے کہ کسی کی بالا دستی، اقتدار، یا مذہبی و نسلی اور ذات پات کی درجہ بندی یا خاندان کی حاکمیت کے بغیر معاشرہ قائم کرنا ہے۔ انارکی نظریہ کا سلسلہ قدیم یونان اور چین سے ملتا ہے جہاں کے فلسفیوں نے ریاست کے وجود کی موجودگی پر سوالات اٹھائے ہیں اور ایسے فلسفیوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہر فرد کا حق ہے کہ وہ کسی جبر اور اتھارٹی (حاکمیت) کے بنا آزادانہ زندگی گزارے۔ ان کا نظریہ تھا کہ دنیا یا معاشرے 1ور افراد کے گروہوں یا تنظیموں پر کسی کی حاکمیت نہیں ہونی چاہئے فیصلے باہمی مشاورت اور تعاون سے ہوں۔
میں یہاں انارکی ازم کی تبلیغ نہیں کررہا ہوں اور نہ ہی انارکسٹ ہوں ہاں البتہ انارکی ازم کے نظریئے کو پسند کرتا ہوں بالکل اسی طرح جس طرح دینی جماعتیں خود کو اسلام پسند کہلاتی ہیں یعنی وہ اسلام کو پسند کرتے ہیں اور اسلام سے تعلق نہیں اسی طرح میں انارکی پسند ہوں۔ اس تحریر کا مقصد تجزیہ کاروں اور خاص کر ان تبصرہ نگاروں پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہر بے لگام سیاسی صورت حال کو انارکی کہہ دینا اپنی کم علمی کا اظہار ہے۔ ہو سکے تو اس کے بارے مطالعہ کرلیا جائے۔ اس ضمن کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں محض گوگل کرنے سے ہی کام چل جائے گا۔ لفظ انارکی کو بدنام کرنے سے بہتر ہے کہ ہم افراتفری، نفسانفسی یا خون خرابے کے الفاظ استعمال کریں۔
ویسے مضمون کے اختتام سے پہلے یہ بتادوں کہ گذشتہ تین چار دہائیوں سے انارکی ازم نے نئی نئی تحریکوں کو جنم دیا جن کے تحت سامراج اور عالمی معیشت کیخلاف بڑی بڑی تحریکیں چلائی گئی ہیں جن میں غریب ممالک میں لوٹ کھسوٹ اور ریشہ دوانیوں کیخلاف عوام کو منظم کیا ہے۔ ان تحریکوں میں نہ کوئی قائد ہوتا ہے نہ کوئی قائد تحریک۔ انارکی ازم کی تحریکیں عوام میں اتنی پیوست ہوگئی ہیں کہ صرف ٹوئٹر و فیس بک میسج پر لاکھوں کی تعداد لوگ نہ صرف صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ کئی روز تک سڑکوں پر قبضے بھی رکھتے ہیں اور ایسی تحریکوں میں لوگ رہائش و خوراک اپنے ہی خرچے پر کرتے بلکہ چندے جمع کرنے کیخلاف بھی ہوتے ہیں۔
ان تحریکوں کے نتیجے میں انارکی ازم کے نظریئے پر لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے کہ وہ خود عوامی تحریکوں کے قائد ہیں اور انہیں کوئی اپنا حاکم نہیں بنایا ہوا ہے۔ ان میں معاشی استحصال کیخالاف عوامی تحریکوں کو پاپولر بنانا، اور معاشی عالمگیریت کو مسترد کرنا جیسی تحریکیں شامل ہیں۔ امریکہ کے شہر سیاٹل میں 1999 کی تحریک جب ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا اجلاس تھا جس کے دوران لاکھوں لوگوں نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کیخلاف بھرپور احتجاج کیا تھا۔جس پر امریکی حکومت نے بدترین تشدد کیا، یہ مظاہرہ اجرتوں کی غیر مساوی تقسیم اور معاشی عالمگیریت کے ظالمانہ نظام اور منافع کے بے لگام حصول کیخلاف عوامی غصے کا بھرپور اظہار کیا۔ جنگ سیاٹل نے اسکے بعد بہت ساری تحریکوں کو جنم دیا جن میں ورلڈ سوشل فورم، سڑکوں گلیوں پر قبضوں کا حق، یورپی یوم مئی (فرانس میں مسلسل چلنے والی مزدور تحریک، ماحولیات کی بحالی سمیت دنیا بھر میں بغیر کسی قیادت کے چلنے والی تحریکیں اور عرب اسپرنگ جیسی تحریکیں شامل ہیں۔
♣