جنگ کی جدلیات۔ حصہ دوم



مہرجان

جب بات نو آبادیات کی ہو جسے مارکس نے معیشت سے زیادہ “سیاسی سوال” قرار دیا ہے تو نظریہ و جنگ کی جدلیات میں نظریہ کسی بھی بندوق بردار کو یہ امتیاز بخشتا ہے کہ اس میں اور عام بندوق بردار میں فرق ہے۔ اس کی بندوق ہمیشہ فکر و نظریہ کی پابند ہوتی ہے، جو محکوم کی محکومیت کے خاتمہ کے لیے اٹھائی گئی ہے۔ جبکہ عام بندوق بردار کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا اس کی حیثیت ایک وارلارڈ کی ہوتی ہے جس کا محور صرف طاقت کا حصول ہوتا ہے ۔ اس فرق کو مدنظر رکھ کر ہم بات کو آگے بڑھا سکیں گے۔

گولی کی اہمیت سے ناواقف لوگ ہمیشہ عقلیت کو گولی، ٹیبل ٹاک کو جنگ پہ فوقیت اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے جنگ ایک غیر عقلی یا غیر سیاسی عمل ہے اور ٹیبل ٹاک کے لیے حاکم وقت مذاکرات کے لیے ہاتھوں میں سفید پھول لیے تیار بیٹھی ہے، فلسفے کی دنیا میں بہت سے نام جنگ کو ہمیشہ حیوانیت سے تعبیر کرتے ہیں کہ جب انسان پہ حیوانیت غالب آتی ہے تو وہ جنگ کی طرف مائل ہوتی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جنگ میں “ہوش و خرد” ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ایسے لوگ اس بات کو ہمیشہ سے جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں کہ بقول غسان کنفانی “ تلوار اور گردن کے درمیان ٹیبل ٹاک کا رشتہ نہیں ہوتا“ نہ ہی تلوار اور گردن کے درمیان کبھی بھی “محبت و عزت و برابری” کا رشتہ برقرار رکھا جاسکتا ہے، تیز دھار تلوار کی فطرت ہی گردن کو یکلخت جسم سے جدا کرنا ہے۔

اس لیے یہ کہنا کہ یہ اکیسویں صدی ہے عقل و شعور اور امن و ٹیبل ٹاک کی صدی ہے بے معنی سی بات رہ جاتی ہے کیونکہ دوسری طرف خود حاکم وقت اسی اکیسویں صدی میں مسخ شدہ لاشوں کا کاروبار کررہا ہوتا ہے۔حاکم وقت طاقت کے خمار میں توسیع پسندی کی آڑ میں ننگی جارحیت پہ اترا ہوا ہے اور یہی ننگی جارحیت کمزور کے لیے طاقت جبکہ طاقت ور کے لیے خاتمہ کا سبب ہے کیونکہ طاقت کی فطرت ہی طاقت موت ہے۔اس لیے طاقت و نظریہ کی جدلیاتی تعلق سے مفر ممکن نہیں۔ جو عالِم غیر نظریاتی ہونے کی تبلیغ کرتا ہے، ان کے وچار اُس بندوق کی مانند ہوتے ہیں۔جو کسی نظریہ و فکر کے پاپند نہیں ہوتی، کیونکہ میدانِ جنگ کا چناؤ کوئی بھی ذی شعور شخص ابدی جنگ کے طور پر نہیں کرتا یعنی وہ اسے بطورِ شوق یا ایڈونچر کے نہیں اپناتا بلکہ اس کے پس و پیش بہت سارے محرکات و مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔ تسکینِ ذات اور تشفیِ شوق کو پورا کرنے کے لئے شاید ہی کوئی جان کی بازی لگاتا ہو ۔

لیکن جب صورتحال نظریاتی و مادی محرکات و ماخذات رکھتی ہو ، یا جب رشتہ محکوم و حاکم کا ہو ، کمزور اور طاقتور کا ہو ، گردن اور تلوار کا ہو تو شدید نحیف و نزار ذی شعور انسان بھی اپنے تحفظ کے لیے ، امن کے لیے، ایک نظریہ کے تحت “عشق” کا رستہ چنتا ہے ، تاکہ آنے والی نسل میں آقا و غلام کا رشتہ “برابریکی بنیاد میں تبدیل ہو جائے، محبت، عزت اور وقار کا رشتہ وحدت کی صورت قائم ہو ، اسی لیے بندوق اور میدان جنگ ان کی اپنی ذاتی خواہشات، یا کسی احساس برتری کا ضامن نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ ایک فکر و نظریہ کا پابند ہوتا ہے، یہی فکر و نظریہ مستقبل کی راہیں متعین کرتا ہے، یہی فکر و نظریہ عشاق کو اپنی زمین سے اپنے لوگوں سے جوڑ کر نہ صرف بنیادیں فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں وجودی بے معنویت سے نکال کر ، مستقبل کی پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے۔

یہ نظریہ و فکر ہی ہے جو کسی بھی بندوق بردار کو دہشت کے بجائےمزاحمت کی علامت اور عشق و مستی کا علمبردار بناتا ہے۔اگر کوئی بھی انسان کہیں پر بھی اپنے لوگوں کے لیے دہشت کی علامت بن جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ فکر و نظریہ سے کوسوں دور ہے، کیونکہ فکر نظریہ کا پابند انسان کے لیے نہ صرف اپنائیت کے گیت گائے جاتے ہیں بلکہ انکی موت کے بعد ان گیتوں پہ لوگ رقص بھی کرتے ہیں۔ قربانی شاید انا پسندی ، نرگسیت جیسی بیماری کا شعوری یا لاشعوری طور پہ مؤجب بن جائے لیکن ان جیسی موذی بیماریوں کا تریاق نظریہ فکر ہے، فرد کی قربانی فکر و نظریہ کے سمندر میں مل کر بابا مری جیسے عجز و پیکر کی تصویر بن جاتی ہے جہاں صرف خاموشی بولتی ہے۔

جس طرح جنگ کے لیے نظریہ تعقلی بنیاد فراہم کرتا ہے ، اسی طرح جدلیاتی تعلق کی وجہ سے بعض جگہ جنگ کی وجہ سے نظریہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے ، وہ گولی جو نظریہ کی بندوق کی نلی سے نکلتی ہے اس کی گونج بڑے بڑے بہروں کو بھی سنائی دیتی ہے ، اس لیے تاریخ میں نظریاتی ، انقلابی معماروں نے اک آدھ کے علاوہ جنگ کی مکمل طور پہ مخالفت کسی نے بھی نہیں کی ہے بلکہ “کسی انسان کا استحصال کوئی انسان کرے ، یا کسی طبقہ کا استحصال کوئی طبقہ کرے اس سے بڑھ کر کسی قوم کا استحصال کوئی قوم کرے” تو وہاں نظریہ کی بازگشت کے لیے لشکر و سپاہ کا میدان میں ہونا لازم قرار دیا گیا ہے۔اور اس جنگ میں عوامی شرکت اور قومی یکجہتی کے سر توڑ کوششیں کی ہیں ۔ ان کے لیے عقلی تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ تشدد یا عدم تشدد کو ایک مذہب کی طرح مستقل طور پہ نہیں اپناتے بلکہ واقعات و حالات کے تناظر میں پیش بندی و منصوبہ بندی کرتے ہیں ۔

آج کے دور میں سیاسیات کے میدان میں قانون و آئین کی حکمرانی پہ یقین رکھنے والے گاندھی کی سول نافرمانی جیسے اقدامات کو بھی “انقلابی تشدد” کے زمرے میں لاتے ہیں۔وہ ہر جہد کو قانون کا پاپند بنانے کی تگ و دو کرنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں جبکہ وہ یہ بات نظر انداز کرتے ہیں کہ فسطائیت کے لیے قانون کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی وہ صرف طاقت کی آنکھ سے دیکھتی ہے جس آنکھ کا پھوڑنا محکوم پہ لازم ہے ۔جس طرح جدلیات میں “امن میں جنگ” ، “جنگ میں امن” پنہاں ہے اسی طرح تشدد میں عدم تشدد اور عدم تشدد میں تشدد کا پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

مستقل عدم تشدد کا نظریہ جہاں محکوم کو اخلاقی بنیادیں فراہم کرتا ہے تو وہی حاکم کی چھری کو تیز دہار آلہ بھی بناتا ہے ، اب اس آلہ کی نیچے گردنیں ہی کٹتی جاتی ہے ، لیکن تب تک مستقل عدم تشدد والا فارمولہ ایک واہماتی اخلاقی دنیا تخلیق کرچکا ہوتا ہے ، جہاں وہ یہ سمجھتا ہے کہ اخلاق کی بنیاد پہ دشمن کو زیر کیا جاہیگا لیکن بقول سارتر حاکم کا کوئ اخلاق نہیں ہوتا ، اس کے پاس صرف اور صرف طاقت کا جواز ہوتا ہے، دراصل عدم تشدد کا پیروکار تشدد کے ہمہ گیر پہلو کو نظر انداز کر بیٹھتا ہے ، جس میں علمیاتی تشدد سے لے کر اسٹرکچرڈ تشدد شامل حال ہے۔

تاریخ میں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہر نیلسن منڈیلا کے ساتھ ساتھ ایک میلکم ایکس بھی ہوا کرتا ہے ۔ نظریہ و فکر محض تجریدی صدائے بازگشت نہیں بلکہ جب یہ جنگ کی جدلیات میں کارفرما ہو تب یہ آپس میں یوں پیوست ہوتے ہیں جیسے زمین و مٹی، جب نظریہ و فکر کے لیے خون کی قربانی جیسے ٹھوس عمل کے مراحل سے گزر جائے تو وہ نظریہ زمین و مٹی میں اپنی جڑیں مضبوط کرتا ہے اور زمین کے باہر بارآور شاخوں کی شکل اختیار کرتا ہے۔ جن جڑوں کی آبیاری قومی جہد کار اپنے خون سے کرتے ہیں اس خون کی بدولت نظریہ و فکر زمین زادوں کو نہ صرف زمین سے جوڑ کر رکھتی ہے بلکہ ان کو ہمت و حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔

جنگ و نظریہ تاریخی مراحل سے گذر کر اسپیس اور ٹائم میں اپنی جگہ بنارہا ہوتا ہے اس تاریخی عمل میں فکر و عمل کا تعلق اس قدر ایک دوسرے جڑ جاتا ہے کہ ان کو علیحدہ سوچنا بھی محال ہوتا ہے ۔اسی قطعی صورتحال کے خوف کی بنیاد پہ حاکم وقت جنگ کی مخالفت ، “شعور ، امن اور ترقی” کے نام پہ کرنا شروع کرتا ہے۔ جس کے لئے ہمدردانہ لہجہ اختیارکرکے باقاعدہ طور پہ مختلف سیمینارز کا انعقاد کیا جاتا ہے، مذہب کے نام پہ امن کانفرنسز منعقد کیے جاتے ہیں ، اکیڈمک و نان اکیڈمک طور پہ امن پسندی کا رٹہ زبان زد عام ہوجاتا ہے ،کتابوں کے انبار اسی بیانیہ کی ترویج کے لیے لکھے جاتے ہیں، آئین ، قانون،جمہوریت کے نام پہ ایک لایعنی شور بپا ہوتا ہے ۔نصاب و تدریس کو ایک سمت میں مقید کرنے کی کوششیں تیز تر ہوتی ہے ۔

لیکن جنگ کی جدلیات یہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنا رستہ سیاسی میدان میں خود بنا رہی ہوتی ہیں اور یہی اس کی خوبصورتی ہے جس سے محکوم میں سیاسی شعور عام ہوتی ہیں ، جبکہ دوسری طرف معاملہ شراکت اقتدار کے خواہاں پارلیمانی سیاست ، آلہ کاران ریاست و طاقت ، پروفیسرز ، بیوروکریٹس سے لے کر دانشوروں تک صرف اور صرف روزی روٹی و ناموری کا چل چلاؤ ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

پہلا حصہ

جنگ کی جدلیات

Comments are closed.