مہرجان
جنگ کو سماج کے اندر جدلیاتی انداز یعنی مجموعی صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو جہاں ایک طرف ریاست امن کی فاختائیں اڑاتی ہے تو دوسری طرف ڈیتھ اسکواڈز کو تشکیل بھی دیتی ہے ، ایک طرف امن کانفرنسز ، یا امن کے نام پہ تھنک ٹینکس کا قیام عمل میں لاتی ہے تو دوسری طرف بندوق بردار ریاستی کارندوں کی صورت میں مقامی لشکر تیار کرکے خوف و ہراس پھیلاتی ہے ۔ان لشکروں کے لیے باقاعدہ ایک طرف ریاست تنخواہیں مقرر کرتی ہے، تو دوسری طرف ڈیتھ اسکواڈز کو ریاست ہر طرح سے چھوٹ دیتی ہے کہ اپنا ذریعہ معاش پورا کرے ، ان کے جرائم کی ایک الگ دنیا ہوتی ہے ، اغوابرائے تاوان سے لے کر قتل غارت گری ، اسمگلنگ سے لے کر زمینوں پہ قبضہ گیری، منشیات فروشی سے لے کر ہر جنسی ہراسگی تک کو “مقدس ریاستی پرچم” میں لپیٹ کرکیاجاتا ہے۔
ریاست کے یہ کرائے کے قاتل ، مزاحمت کاروں سے لے کر عام آبادی تک کو نشانہ بناتے ہیں ۔ ریاست اپنی طاقت کے بل بوتے پر عام عوام کو ان کا محتاج بناتی ہے ۔ یعنی سرکار سے کوئی جائز کام بھی کروانا مقصود ہو تو راستہ یہیں سے ہوکر جاتا ہے ۔ کسی بندے کو ریاستی اداروں سے اٹھوانا ان کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے ۔ ان سارے جرائم میں ایک طرف ان کےلیے، مراعات، دولت کی فراوانی ہوتی ہے تو دوسری طرف وار اکانومی کی پیداواری کی کلید بھی ان کے ہاتھ آجاتی ہے۔
جہاں ریاست اسی کلید سے اپنی مقامی معاشی و دیگر ضروریات بھی پوری کرتی رہتی ہے ۔ انہیں ریاست بہت سی جگہوں پہ سیاسی چھتری کے نیچے پروان چڑھاتی ہے تاکہ انتظامیہ بھی ان کے بغیر پر نہ مار سکے۔ امن کی فاختہ اور ڈیتھ اسکواڈ کی سرکشی کا کھیل ریاستی پالیسیز کی صورت میں قریباً ہر جنگ زدہ علاقہ میں کھیلی جاتی ہے۔ جس کا مقابلہ فکر و نظریہ و بندوق کی نالی سے سے کیاجاسکتا ہے۔ گرچہ یہ الفاظ چھن تاؤ کے ہیں جو کسی اور تناظر میں لکھے گئے ہیں لیکن مستعار یہ جملہ ترمیم کے ساتھ یہاں لکھ رہا ہوں کہ “ دایاں ہاتھ سامراجیوں کو مار گرانے کےلیے اٹھاؤ اور بایاں ہاتھ ڈیتھ اسکواڈز کو چت کرنے کے لیے” کیوں کہ یہ ریاستی اداروں کے پالے ہوئے کارندے ہیں۔
دوران جنگ ریاستی اداروں کی تسلط زدگی کی لہر عروج پہ ہوتی ہے۔ ان کا چھوٹے سے چھوٹا رینکر بھی فرعون بنا ہوتا ہے، میر و معتبر ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے نظر آتے ہیں۔جہاں خان و شوان کی “بے عزتی” کا کوئی طبقاتی معیار مقرر نہیں ہوتا ۔والئی قلات خان احمد یار خان کی مثال اتنی پرانی نہیں کہ ایک ریٹائرڈ کرنل کو یہ کام سونپ دیا گیا کہ خان آف قلات سے امور مملکت کی شمولیت کے حوالے سے گفت و شنید کرے، یعنی ایک ریاست کے سربراہ کو ایک ریٹائرڈ کرنل سیکرٹری لیول کا بندہ ڈیل کررہا تھا ۔
آج تو جنگ کی جدلیات کی بدولت نوآبادیاتی فرعونیت کھل کر سامنے آئی ہے کہ وہ جب چاہے جس وقت چا ہے کسی کی چادر و چاردیواری کو پامال کرے۔ ہر چھوٹے بڑے جرائم میں ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں لیکن خاکی دستانوں کی وجہ سے یہ پاک و صاف دامن کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں۔ کسی قبیلہ کو کسی دوسرے قبیلہ مخالف کی سمت میں کھڑا کرنا ہو یا نئی پالیسی کے مطابق دو ریاستی سرداروں کو راضی نامہ کے لیے حکم دینا ہو ، یہ پلک جھپکتے ہی کرلیتے ہیں ۔ بڑے سے بڑا ریاستی میر و معتبر و سردار انکی ضیافت کو اپنے لئے قابل فخر سمجھتا ہے ، اگرچہ یہ میر معتبر اپنے بھائی پہ زور آور ، اور دست دراز ہوتے ہیں لیکن ایک چھوٹے رینکر کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں ، یہ نو آبادیاتی ذہن ہے جو کنٹرولڈ پالیسیز کے ذریعے ذہنوں پہ حکمرانی کررہا ہوتا ہے۔
لیکن اپنی تمام تر پالیسیز ( سول و پولیٹکل سوسائیٹیز )کے ساتھ یہ اجنبی کردار کے حامل ہوتے ہیں ، زمین ان کے لیے اور یہ زمین کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، انکی یہی اجنبیت مقتدر ہونے کے باوجود انہیں احساس محرومی میں مبتلا کرتا رہتا ہے ،انکے لیے یہاں نوکری کرنا کسی “یو این مشن” سے کم نہیں ہوتا ،یہ اجنبیت جنگ کی بدولت ہوتی ہے جو کہ زمین زادوں کے دفاع کے لیے کسی بھی طرح ایٹم بم سے کم نہیں ۔ جنگ کی وحشت میں جنگ کی جمالیات کا پہلو ہمیشہ سےُ نظر انداز ہوا ہےجسے جدلیات کی بدولت محسوس کیا جاسکتا ہے، جنگ کی تباہ کاریوں پہ بہت کچھ لکھا گیا ، یہ تباہ کاری ہمیشہ حاکم کی طرف سے عمل میں آتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالم کی طرف سے وحشت، خوف و ننگی جارحیت ہر جگہ رچائی جاتی ہے ، لیکن جدلیاتی تناظر میں محکوم کے لیے اپنی سرزمین کی جنگ میں وحشت کی بجائے جمالیات کا پہلو زیادہ پر اثر ہوتا ہے ۔
اسی جمالیات کے تناظر میں محکوم اپنی جنگ منطقی بنیادوں پہ لڑ رہا ہوتا ہے یہ منطق زمین کے ساتھ فطری رشتہ اور اس سے وابستہ تاریخی حقائق سے جمالیاتی طور پر منسلک ہوتا ہے۔ احساسات و تخیلات کی الگ الگ دنیائیں اور داستانیں بنتی ہیں، جہاں چاپ و نغمہ کی گونج سنائی دیتی ہے ، زمین سے لے کر زمین زادوں تک کو نازاں جاتا ہے، بولان ، شاشان ، چلتن دپتر کی حیثیت اختیار کرتے ہیں۔ بولان مزاحمت کا استعارہ بن کر روح کی رگوں میں گردش کرتا ہے، اس نام سے انسیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ زمین زادے اس نام کے تخیل میں بہ ہر سو بسمل کی مانند محو رقص ہوتے ہیں۔زمین زادوں کا ہر قدم ، بیٹھنے کے انداز سے لے کر اٹھنے تک کا انداز ،بود باش، جہاں حاکم ِوقت کے لیے دہشت و مزاحمت کی علامت بنتا ہے تو دوسری طرف محکوم کے لیے یہ مزاحمت جمالیات سے لبریز مجسم کا پیکر ہوتا ہے۔
جنگ میں شاعری ہوتی ہے، موسیقی ہوتی ہے اور جنگی آھنگ میں رس ہوتا ہے۔ انسان کرائسس میں کتنا توانا عشق کرسکتا اس کا اندازہ دوران جنگ ہی ممکن ہے جب ہر عشقیہ داستان کی ماخذ بھی مٹی ہی ہوتی ہے ، زلف و رخسار سے بات دار و رسن تک بھی جاتی ہے، گلی کوچوں میں مصرعے بنپتے رہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ فلسفہ اپنا رنگ بکھیرتا رہتا ہے۔ قہوہ خانوں میں فلسفہ و سیاسیات پہ مجلسیں ہوتی ہیں ، فلسفہ و نظریہ سے بندوق کی نالی کو سمت دینا شروع ہوتا ہے، جہاں فلسفہ خلا کی بجائے زمین سے جڑا ہوتا ہے۔ فلسفہ وجودیاتی اور علمی بنیادیں فراہم کرنے کے لیے ہزاروں در وا کردیتا ہے۔ جنگ زدہ سماج میں شور وغل ، سبک پن کی جگہ مہر و محبت ، خاموشی اور سنگینی جگہ بنالیتی ہے اس لیے جنگ زدہ علاقوں میں جنگ جس قدر کربناک ہوتی ہے ، محکوم کے لیے وہی جنگ اسی قدر تابناک بھی ہوتی ہے ۔ جنگ کی تابناکی و جمالیات نظریہ و فکر سے وابسطہ ہوتا ہے وگرنہ جنگ بغیر نظریہ و فکر کے تباہی پے۔۔
(جاری ہے)
Pingback: جنگ کی جدلیات۔۔ حصہ چہارم – Niazamana