پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست کا اختتام؟

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں بہت سارے حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔

پاکستان میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیاں سیاسی میدان میں سرگرم عمل رہی ہیں لیکن پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے قانون سازی اور دوسرے طریقوں سے اسٹیبلشمنٹ کو بے تحاشہ اختیارات‘ دے دیے ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست آخری سانسیں لے رہی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے یکم جولائی سے لے کر اب تک 96 سے زیادہ بلز پارلیمنٹ میں متعارف کرائے، جن میں سے کئی اب قانون کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ ان میں سے کئی بلوں کا بنیادی مقصد پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر اسٹیبلشمنٹ کے گرفت کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہمیشہ ایک یا دو سیاسی جماعتیں ایسی رہی ہیں، جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا اور سیاسی معاملات میں ان کی مداخلت کی بھرپور مزاحمت کی۔

سیاسی جماعتیں اور اسٹیبلشمنٹ

قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں آزاد پاکستان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، عوامی لیگ اور جگتو فرنٹ نے اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کی، جو مغرب نواز تھیں۔پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں بائیں بازو کی جماعتوں نے ان مغرب نواز پالیسیاں کی مخالفت جاری رکھی۔1967 میں جب پی پی پی بنائی گئی، تو اس کا لب ولہجہ بھی سامراج مخالف اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھا۔ 1970 کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی نیپ، عوامی لیگ اور پی پی پی تینوں ہی کسی حد تک جی ایچ کیو مخالف تھیں۔

تاہم 70کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پی پی پی کا جی ایچ کیو کی طرف رویہ نرم ہوگیا، جب کہ نیپ اور کچھ قوم پرستوں نے اپنی پنڈی مخالف پالیسیاں جاری رکھیں۔ 80 کی دہائی تقریبا تمام قومی سطح کی جماعتوں نے جی ایچ کیو کے سیاسی کردار کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ 80 کی دہائی میں انتہائی کمزور سمجھے جانے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی ایک وقت میں اسٹیبلشمنٹ کو اس کی آئینی حدود کے حوالے سے یاد دہانی کرائی جبکہ 1988 کے انتخابات کے بعد کبھی پاکستان پیپلز پارٹی، کبھی مسلم لیگ نون، کبھی ایم کیو ایم اور سندھی، بلوچ اور پختون قوم پرست جی ایچ کیو کے خلاف بر سر پیکار رہے۔

پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ

سنہ2011 کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نےپاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی اور یہ حمایت کم و بیش عمران خان کے اقتدار سے نکلنے سے کچھ عرصے پہلے تک جاری رہی۔ اقتدار سے نکلنے کے بعد یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ مخالف لائن لی اور فوج پر کھل کر تنقید کی۔

تحریک انصاف پر کیے جانے والے موجودہ کریک ڈاؤن کی روشنی میں کئی ناقدین اب یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے قومی دھارے کے سیاسی منظر نامے پر کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں، جو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہو یا اس کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

سیاسی منظر اسٹیبلشمنٹ مخالفت سے خالی

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ قومی سیاسی منظر نامے پر اس وقت کوئی اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت نظر نہیں آتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، پاکستان میں 1971 کی جنگ کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ تقریبا تمام مواقع پر طاقتور رہی ہے اور 1988 کے بعد اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کی معراج پر نظر آتی ہے‘‘۔

خطرناک خاموشی

ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نامور سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر بولتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ نون سے پرویز رشید اور خواجہ آصف اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان سمجھے جاتے تھے لیکن پرویز رشید اب کم نظر آتے ہیں جب کہ شعلہ بیاں خواجہ آصف اب پنڈی کے منظور نظر سمجھے جاتے ہیں، جو ہر محاذ پر اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کرتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی میں فرحت اللہ بابر، رضا ربانی اور تاج حیدر اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے سخت مخالف تھے لیکن اب پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی توانا اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازیں نہیں اٹھ رہی۔ اسلم رئیسانی کا خیال ہے کہ یہ بڑا خطرناک رجحان ہے۔،محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ کوئی ایسی آواز نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں میں موجود جی ایچ کیو مخالف سیاست دان ممکن ہو کہ پارٹی اجلاسوں میں بات کرتے ہوں لیکن عوامی سطح پر وہ خاموش ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے‘‘۔

dw.com/urdu

Comments are closed.