بصیر نوید
جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں مختلف سیاسی نعروں اور منشور کی آوازوں سے تبدیل ہونے لگ گئی ہے۔ ہر سیاسی گروہ نے ایسے نعروں کو بلند کرنا شروع کردیا جو انکے آئندہ کے عزائم کو واضح کرتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر (اس لفظ کو ہر نیوز کاسٹر اور اینکر پرسن کنوینیئر کہتا ہے) جناب خالد مقبول صدیقی نے حسب معمول سندھ سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم قائد اعظم کے پاکستان میں آئے تھے ہمیں بھٹو کے پاکستان میں کس نے دھکیلا، ہم قائد کے بنائے گئے ملک کے دارالخلافہ کراچی میں آئے تھے ہمیں صوبہ سندھ میں کسی نے دھکیلا۔
آگے چل کر کہتے ہیں جو خالق ہوتا ہے اسکی مجبوری ہوتی ہے اپنی تخلیق سے محبت کرنا ہماری محبت ملک سے فطری ہے لگا دو فتوی۔ پاکستان ہماری مجبوری، کمزوری اورہمارے بزرگوں کی امانت بھی ہے ایم کیو ایم کودیوار سے لگانے اور چنوانے والوں کو علم ہوگیا ہے کہ دیوار کو اٹھانے والے کاندھے ہمارے ہی ہیں جو ملک بناتا ہے وہی چلا سکتا ہے اس ملک کو چلانے کا فیصلہ ہوا تو تیاری کیجئے ہمارے علاوہ اسکو کوئی نہیں چلا سکتا اس ملک کو چلانے کیلئے ہمارے سوا کوئی آپشن نہیں۔
ایم کیو ایم کا کوئی بھی گروہ ہو ان کا زعم ختم نہیں ہوتا کہ پاکستان انہوں نے یا انڈیا خاص کر یو پی اور سی پی سے آنے والے “مہاجرین” نے بنایا ہے اور وہ اسکے خالق ہیں۔ یہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے جس صوبے میں پناہ لی اسکے خلاف بات کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جیسے کراچی ان کیلئے ہی بنایا گیا تھا۔ یعنی اگر کراچی وجود رکھتا تھا تو ایک ویران سا علاقہ تھا جہاں نہ تعلیم تھی، نہ صنعتیں، بس انکے آنے سے کراچی ایک شہر بن گیا۔
میں بھی ان ہی خاندانوں سے تعلق رکھتا ہوں جو ترک وطن کرکے سندھ میں آئے تھے اور میرا تعلق بھی قیام پاکستان کے بعد کی پہلی نسل سے ہے۔ اس بنا میں انہیں بیشمار حقائق سے آگاہ کرنا چاہتاہ ہوں۔ اول تو یہ کہ بقول ڈاکٹر مہدی حسن کے (جو خود بھی اردو بولنے والے گھرانے سے تعلق رکھتے تھے) ہم مہاجر نہیں تارک وطن ہیں کیونکہ ہم نے بقید ہوش و حواس وطن ترک کرکے پاکستان آئے تھے اور اسے اپنا نیا وطن بنا لیا۔ دوئم، قائد اعظم مسلمانوں کی پاکستان ہجرت کی سخت مخالف تھے بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ “یہاں آپ کو کروڑوں مسلمانوں کی خدمت کرنی ہے“۔
ان کی اس تلقین کا بھی ایک تسلسل ہے، واقعہ یوں ہے کہ 3 جون 1947 کو ڈیفنس کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ہندوستان کی دو ریاستوں پنجاب اور بنگال کی مسلمانوں کی اکثریت کی بنیاد پر بٹوارے جبکہ سلہٹ اور سابقہ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کے سلسلے میں فیصلہ کیا گیا جس میں کہا گیا کہ متفقہ علاقوں میں ہجرت ہوگی۔ ان اپگریڈ علاقوں اور ریفرنڈم کیلئے ریڈ کلف کی ماتحتی میں کمیٹی بنائی گئی۔ پنجاب کو اپگریڈ علاقہ قرار دینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ اپگریڈ علاقوں میں آبادی کی منتقلی یعنی ٹرانسفر آف پاپولیشن ہوگی اور دونوں حکومتوں کو پابند کیا گیا کہ منتقل ہونے والی آبادیوں کو لک آفٹر یعنی دیکھ بھال کریں گے۔ جبکہ غیر متفقہ علاقوں میں کوئی ٹرانسفر آف پاپولیشن نہیں ہوگی جن میں خاص طور پر یو پی، بہار، گجرات وغیرہ سمیت کچھ اور ریاستوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
سوئم۔ جناح صاحب نے ہجرت کی مخالفت کی تھی۔ یہ واقعہ بھی 7 اگست 1947 کا ہے جب قائداعظم پاکستان آرہے تھے۔ دہلی ائیرپورٹ پر انہیں رخصت کرنے چوہدری خلیق الزماں، حسین امام، اور راجہ صاحب محمود آباد سمیت دیگر زعما بھی آئے تھے وہاں لیاقت علی خان بھی تھے۔ جناح صاحب نے کراچی روانگی سے قبل خطاب کرتے ہوئے دیگر مسائل کے علاوہ خاص طور پر ہجرت کے موضوع پر گفتگو کی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں تقسیم شدہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ بہترین مسلم لیگی ہیں، آپ میں سے کوئی پاکستان نہیں آئے گا، آپ کو یہاں (ہندوستان) میں کروڑوں مسلمانوں کی خدمت کرنی ہے، یاد رکھو کوئی بھی ملک غدار وطن کو پسند نہیں کرتا، اس لئے آپ سے کہتا ہوں کہ آپ نے ہندوستان میں رہنا ہے اور اسکا وفادار ہوکر رہنا ہے، بٹوارے والے علاقوں میں آبادی کی منتقلی کا فارمولا طے ہوگیا ہے اسلئے ان ہی علاقوں میں آبادی کی منتقلی ہوگی۔
دوسرے دن یعنی 8 اگست کو ٹائمز آف انڈیا میں یہ تقریر شائع ہوئی اور اسکے ساتھ ایک کارٹون شائع ہوا جس میں قائد اعظم خطاب کررہے ہیں اور لیاقت علی خان پریشان حال اور حیرانگی میں منہ کھولے کھڑے ہیں۔ یہ کارٹون اس لئے بنایا گیا کہ لیاقت علی خان ہجرت کے زبردست حامی تھے کیونکہ مسلم لیگ کی جو قیادت پاکستان منتقل ہورہی تھی اسکا کوئی حلقہ انتخاب نہیں تھا اسلئے لیاقت علی خان چاہتے تھے کہ بھاری تعداد میں ہندوستان بھر سے مسلم آبادی کی منتقلی ہو۔ ہجرت سے متعلق اور بھی بہت سارے شواہد ہیں جن کے باعث مسلم لیگی قیادت میں مختلف آراء رہی ہیں۔ بالآخر 1951 میں نہرو لیاقت پیکٹ وجود میں آیا جس کے تحت دونوں ملکوں میں ہجرت روک دی گئی۔ مگر غیر قانونی ذرائع سے ہجرت جاری رہی بلکہ کراچی میں اراکین اسمبلی بھی وہ لوگ منتخب ہوئے جو انڈیا سے صرف چند ماہ قبل پاکستان آئے تھے کیونکہ ایم کیو ایم اس وقت حاکم تھی۔
علاوہ ازیں یہ کہاں سے ثابت ہوتا کہ ہجرت کرنے والوں نے پاکستان بنایا تھا، ہاں! البتہ مہاجروں کی پاکستان آمد خاص طور پر ان کا اپنا فیصلہ تھا، جن علاقوں سے آئے تھے وہاں فسادات نہیں ہوئے تھے اور نہ ہی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ جس صوبے سندھ میں وہ اپنا حق جھٹلاتے ہیں وہ ہی پہلا صوبہ تھا جس نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ سندھ نے بھی اس لئے ووٹ دیا تھا کہ قائد اعظم کی جانب سے سائیں جی ایم سید سے ایسی درخواست کی گئی تھی کیونکہ 1937 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے ایک بھی نشست نہیں جیتی تھی اور لارڈ للنگتھو ہمیشہ طعنے دیتا تھا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد تنظیم کہلاتی ہے مگر ایک بھی سیٹ جیت نہ سکی۔ اسی صوبہ سندھ کی قرار داد کے باعث ہندوستان سے ہجرت ممکن ہوسکی۔ مگر یہ لوگ ایک ہی دھن میں لگے ہیں کہ سندھ کو تقسیم کردیا جائے اور کراچی کو سندھ سے جدا کردیا جائے۔ مزید برآں سندھ میں ہجرت کا انتخاب بھی انہوں نے خود کیا تھا کسی نہیں زبردستی یہاں انہیں نہیں بھیجا تھا۔
ہاں! البتہ سندھ میں ہجرت کرنے کی وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ دوسرے وہ اپنے ساتھ یہ تاثر لیکر آئے تھے کہ سندھی کم پڑھے لکھے ہوتے ہم جاکر ساری نوکر یوں پر قبضہ کرلیں گے۔ تیسری وجہ سندھ میں جاکر مختلف اراضیوں کے لٹ جانے کےعوض کلیم کا دعوٰی کرنا۔ وجہ بھی صاف تھی کہ لیاقت علی خان سمیت انڈیا سے آنے والی بیوروکریسی اپنے لوگوں کو آبادکاری اور متروکہ املاک میں مدد دینے میں پیش پیش رہے گی۔ چوتھی وجہ سندھی صوفی ازم اور مہمان نوازی پسند ہیں اسلئے آبادکاری میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری وجوہات بھی تھیں۔
لیکن یہ دعوٰی کہ ہجرت کرنے والے پاکستان کے خالق ہیں اور خالق ہی اس ملک کو چلا سکتے ہیں ایک خام خیالی ہے یہی دعوٰی سابقہ مشرقی پاکستان میں بھی کیا گیا تھا جہاں سے بھاگنا پڑا جس کے بعد وہ ملک پاک ہوگیا اور ہم سے دو گنا ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ مگر یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ملک تو نہیں البتہ کراچی اور حیدرآباد جب فوجی طاقت نے ان کے حوالے کیا تو 35 سال تک سندھ کے شہری علاقے قتل و خون، مایہ ناز بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، بوری بند لاشوں، زمینوں پر قبضے، اور گالم گلوچ کی بہترین تربیت گاہ کی آماجگاہ بنے رہے۔ اگر ملک ان کو دیدیا جائے تو تصور کریں کیا حشر ہوگا۔
سندھ میں کئی دہائیوں سے بس جانے اور اپنی املاک بنانے کے باوجود بھی خود کو مہاجر کہلانا دراصل انکار وطن ہے، انڈیا میں بھی ہم لوگ مختلف ممالک سے بہتر روزگار اور تحفظ کی خاطر آباد ہوئے تھے مگر ہماری انکار وطن کی بے چین طبیعت کے باعث ہم نے ہندووں اور سکھوں سے نفرت کی اور انڈیا کو توڑنے کا فریضہ انجام دیا کیونکہ ہم انکار وطن پر یقین رکھتے ہیں۔ ان عناصر کو،مہاجر کا مطلب بھی پتہ ہوگا کہ حالات بہتر ہونے کے باعث واپس جانا بھی ہوتا ہے۔ تو پھر ایسا ہی کیا جائے۔ مگر ایم کیو ایم کی طرف سے نئی راگنی چھیڑنے سے لگتا ہے کہ سندھ کو پھر سے طویل عرصے کیلئے کسی قیامت سے گزارنے کا ارادہ لگتا ہے۔
♣
4 Comments