بیرسٹر حمید باشانی
گزشتہ کالم میں کشمیر پر مختلف فارمولوں کا ذکر کیا تھا۔ یہ وہ فارمولے تھے، جن پر پاکستان کی طاقت ور اشرافیہ نے سرکاری اور روایتی موقف سے ہٹ کر غور کیا۔ ان میں سے ایک فیلڈ مارشل ایوب خان کا “پاک بھارت مشترکہ دفاع” کا فارمولہ بھی تھا۔ اس فارمولے کی ایک بڑی وجہ ابھرتے ہوئے سرخ چین اورسوشلزم کا خوف تھا۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ سوویت یونین کے بعد اب چین برصغیر میں توسیع پسندانہ عزائم اور سوشلزم پھیلانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دفاع ضروری ہے۔ اس وقت اس خطے میں چین کے کردار کے بارے میں پاکستان کا تاثر بہت مختلف تھا۔
سنہ 1950 کی دہائی میں، پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور اس نے سوویت یونین کے خلاف امریکی جاسوس پروازوں کے لیے ملک میں اڈے تک دینے کی پیشکش کی تھی۔ یہ ایک سرخ ملک سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی طرف سوشلسٹ دشمن بلاک کا حصہ بننے کی خواہش بلکہ عزم کا کھلا اظہار تھا۔ دوسری طرف سرخ چین تھا، جس کے بارے میں پاکستان کی پوزیشن مختلف نہیں تھی۔ اس وقت پاکستان کی حکمران اشرافیہ روس کی طرح چینی سوشلزم کے خلاف بھی مغربی بلاک کے ساتھ مل کرہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار تھی۔ چین کے ساتھ پاکستان کا سرحدی تنازعہ بھی چل رہا تھا۔ چین اس وقت کھل کر ہنزہ اور گلگت کے کچھ حصوں پر دعویٰ کر رہا تھا۔پاکستان کے پہلے فوجی حکمران، فیلڈ مارشل ایوب خان کا موقف تھا کہ کمیونسٹ چین سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
سرخ روس اور سرخ چین اور ان کی طرف سے” سوشلزم پھیلانے کے خطرے ” سے بچنے کے لیے فیلڈ مارشل نے جو اقدامات تجویز کیے تھے، ان میں مسئلہ کشمیر کا حل اور ہندوستان کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ شامل تھا۔ ایوب خان کی تجویزپر مشتمل دستاویزات کئی علاقائی اور عالمی مراکز میں موجود ہیں۔ جے این ڈکشٹ نے اپنی کتاب“انڈیا، پاکستان ان وار اینڈ پیس” میں ایوب خان کے اس ‘مشترکہ دفاعی معاہدے‘ کی تجویز کی تفصیلات اور اس کے ارتقاء کے بارے میں لکھا ہے۔
اس کتاب میں، ڈکشٹ لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے 24 اپریل 1959 کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدے کی تجویز پیش کی۔ اس سے پہلے مارچ 1959 میں، دلائی لامہ تبت سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینے کے لیے آ گئے تھے۔ ڈکشٹ نے ٹوکیو میں پاکستانی سفیر محمد علی کا حوالہ دیتے ہوئے 20 اپریل 1959 کو کہا، “تبت کے مسئلے نے ایشیائی لوگوں کو ان کی خوش فہمی سے باہر نکال دیا ہے، ایشیاء کی آنکھیں سرخ سامراج کے خطرے کی طرف کھلنی چاہئیں۔آگے چل کر ایوب خان نے اعلان کیا، “پاکستان کی سرزمین میں کسی بھی چینی مداخلت کو پاکستان اپنی کمان میں پوری قوت کے ساتھ پسپا کرے گا“۔
لیکن ایوب خان کے اس جوش و خروش کے باوجود وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے ایوب خان کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس سال مئی میں لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے، نہرو نے کہا، ” ہم پاکستان کے ساتھ مشترکہ دفاع نہیں چاہتے، جو تقریباً ایک قسم کا فوجی اتحاد ہے” ۔ نہرو کا تاثر یہ تھا کہ ایوب خان شاید مشترکہ دفاع کو جموں و کشمیر پر سمجھوتہ کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ اس سے پہلے 1949 میں نہرو نے پاکستان کے ساتھ ‘نو وار پیکٹ‘ کی تجویز پیش کی تھی، جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔ آگے چل کرایوب خان نے ستمبر 1959 میں خود اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی مشترکہ دفاعی تجویز کے لیے ایک “شرط” “کشمیر اور نہری پانی جیسے بڑے مسائل کا حل” تھا۔
کچھ اسکالرز نے یہاں تک رائے دی ہے کہ ایوب کی طرف سے تجویز کردہ مشترکہ دفاعی معاہدہ اس وقت کے ہندوستانی آرمی چیف اور وزیر اعظم کے درمیان اختلافی نکات میں سے ایک تھا۔ فروری 1963 میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی گفتگوکا ریکارڈ اس طرح کے مشترکہ دفاعی معاہدے کے عملی منصوبوں کو ظاہر کرتا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے آرکائیوز کے مطابق مشترکہ دفاع کے بندو بست کے تحت اگر پاکستان لداخ کے دفاع کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، تو اس کا نتیجہ برصغیر کے حقیقی مشترکہ دفاع کی صورت میں نکلے گا۔ یعنی پاکستان کشمیر اور لداخ پر مشتمل مغربی کنارے کا دفاع کرے گا، اور ہندوستان شمال مشرقی سرحدی علاقوں کا دفاع کرے گا۔
بھارت کے ساتھ 1962 کی جنگ کے نتائج دیکھنے کے بعد، امریکہ اور برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی فوج کو مضبوط بنانے میں مدد کرنے کی پیشکش کی۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن کی طرف سے اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو 13 دسمبر 1962 کو لکھے گئے خط میں ایک مشترکہ دفاعی معاہدے کے بارے میں برطانیہ کے نقطہ نظر پر زور دیا گیا تھا۔ میکملن نے لکھا، ہندوستانیوں کو ایک ہمہ گیر چینی حملے کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات میرے لیے واضح ہے کہ کوئی بھی دفاع صرف اس صورت میں موثر ہو سکتا ہے جب یہ مجموعی طور پر برصغیر کے دفاع کے لیے ایک مشترکہ پاک بھارت منصوبے کے طور پر ترتیب دیا گیا ہو۔ یہ مشترکہ منصوبہ کہیں زیادہ موثر ہوگا،اس سے فوجیوں کا فضول خرچہ کم ہوگا، اور ہماری یہ بڑی مشکل بھی دور کر دے گا کہ پاکستان جو ہمارا وفادار دوست، اور سیٹو، سینٹو کا ممبر ہے، اس کو مشتعل کیے بغیر ہندوستانیوں کی مدد کیسے کی جائے۔
میکملن نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر کی حیثیت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی بھی معاہدے کی کامیابی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ “کسی بھی معاہدے میں پاکستان کو واضح طور پر کشمیر کا وہ حصہ اپنے پاس رکھنا ہوگا، جواس وقت اس کے پاس ہے، اور بھارت جموں اور لداخ اپنے پاس رکھنا چاہئے گا۔ باقی مسئلہ رہ جاتا ہے کشمیر کی وادی کا تو ہندوستان کشمیر پر رائے شماری کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ کشمیر کی وادی کو ایک خودمختار ریاست بننے پر راضی ہو جائیں، جس کی ضمانت ہندوستان اور پاکستان دونوں نے دی ہو“۔
تاہم، 1959 کے بعد کے سالوں میں مشترکہ دفاعی معاہدے کے امکانات معدوم ہونے لگے کیونکہ پاکستان اور چین نےآپس میں تعلقات استوارکرنے شروع کر دیے اور اپنے سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کی کوششیں کیں۔ مارچ 1963 میں، چین اور پاکستان نے ایک سرحدی تصفیہ کا باقاعدہ آغاز کیا، جس میں پاکستان نے گلگت بلتستان کا 5,180 مربع کلومیٹر کا علاقہ چین کو دے دیا۔ بھارت نے اس پر شدید اعتراض اور احتجاج کیا اور اب بھی بھارت اس وقت چین کو زمین کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف 1963 کے سرحدی معاہدے کو چین پاکستان تعلقات میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے، جس نے چین کو پاکستان کا سب سے مضبوط اسٹریٹجک اتحادی اور ہتھیاروں کا اہم سپلائر بننے کی راہ ہموار کی۔
پاک چین تعلقات میں بنیادی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ چین بھارت جنگ تھی۔ اس جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات نے پاکستان نے بھر پور فائدہ اٹھایا، اور چین کے ساتھ اپنا سرحدی تنازعہ طے کر کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ چین کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی آنے کے ساتھ ساتھ پاک بھارت مشترکہ دفاع کا تصور کمزور ہوتا گیا، اور پاکستان کو چین کی طرف سے جارحیت یا سوشلزم کا جو فوری خطرہ محسوس ہو رہا تھا وہ کم ہوگیا۔ آگے چل کر حالات نے کیا رخ اختیار کیا اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔
♠