مہرجان
The owl of Minerva spreads its wings only with the coming of the dusk. Hegel
فلسفے کی دنیا میں فکری و نظریاتی مباحث کو بنیادی ا ہمیت حاصل ہے۔ خاص کر عملی میدان میں “فکر و نظریہ‘ عمل کا پیکر بنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس حوالے سے مختلف مفکرین نےافکار و نظریات کو زیر قرطاس لاکر طبع آزمائی کی ہے جبکہ سیاسی مدبرین انہی افکار و نظریات کی روشنی میں انسانیت کی رہنمائی کرتے آرہے ہیں، ان افکار و نظریات کو تاریخی واقعات کی طرح فقط مرتب نہیں کیاجاسکتا بلکہ حالات واقعات کی روشنی میں ان کا تجزیہ کرنا اور سمجھنا لازمی امر ہے تاکہ عمل کی دنیا فکشنل پولیٹکس(کسی اور زمین سے کاپی اینڈ پیسث) سے ہٹ کر رئیل پولیٹکس(اپنی زمین سے جڑی ہوئ سیاسی حقائق ) تک جا پہنچے۔
فکشنل پولیٹیکس کی سب بڑی خامی یہ ہوتی ہے یہ جلد ہی زمینی حقائق سے ہٹ کر “ہیرو ازم” کے گرداب میں بری طرح سے پھنس جاتی ہے، اسی لیے زمینی جنگ کے ساتھ ساتھ ایک جنگ بیانیوں کی بھی ہوتی ہے،جہاں اصل جنگ بیانیوں میں نظر نہ آنے والی ان قوتوں کی ہوتی ہے جس پہ عقل کی قوت بیانیہ کی غیر مرئی قوتوں کی ڈیولپمنٹ سے پہلے پہنچتی ہے ،دراصل بیانیہ میں اس طرح کی غیر مرئی قوتیں ہمیشہ سے خوش کن نعروں ،مسحور کن لہجوں اور دلفریب تصورات میں چھپی ہوتی ہیں جن کا زمینی حقائق سے کوئ تعلق نہیں ہوتا بلکہ محض فکشن ہوتا ہے جو اپنے نیچر اور خوش کن نعروں کی بدولت کسی حد تک پرکشش ہوتا ہے اس لیے سیاسی میدان میں فکری و نظریاتی بنیادوں پہ اکثر ہوا مخالف سمت کھڑے ہوکر بیانیہ دینا ہوتا ہے جس کے لیے فلسفیانہ بنیادوں پہ تنقیدی نقظہ نگاہ کا ہونا زیادہ سود مند ہے۔
بات گر فلسفے کی ہو تو فلسفے میں تین بنیادی سوالات کی بنیاد پر فکر و نظریےکی فلسفیانہ عمارت نہ صرف تشکیل پاتی ہے بلکہ لا تشکیل کا عمل بھی انہی سوالات کی مرہون منت ہے،
کہ وجود کیا ہے؟ (The Question of Being)
(The Question of Knowledge)، دوسرا سوال کہ علم کیا ہے؟
تیسرا سوال شعور اور وجود کا آپس میں کیا تعلق ہے ؟
ان کی وحدت ممکن العمل ہے جس سے علم کا حصول ممکن ہو؟ یہ سوالات آج بھی بہت سے فلاسفرز کے درمیان زیر بحث ہیں ۔انہی سوالات کے تناظر میں، فلسفہ مادیت و فلسفہ عینیت “فلسفہ حرکت” ” فلسفہ سکون” لازمیت و اتفاقیت کا پہلو، سماج میں فلسفہ کی سائنسی اور غیر سائنسی تناظر کو پرکھا جاتا ہے ، ان جیسے فکری و نظریاتی موضوعات کا عملی میدان میں کارگر ہونا اور سیاسی طلباء کا ان آئیڈیاز کو سمجھ کر اپنی بات علمی سطح پہ سیاست کی دنیاء میں رکھنا اور اپنے عمل کا ہر لحاظ سے قوت استدلال کے ساتھ تائید کرنا بالغ نظری کی علامت ہے۔اس لیے فلسفے کو صرف کلاس رومز تک محدود نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ عملی میدان میں اسے بہر صورت کارگر بنایا جاسکتا ہے وگرنہ فلسفے کی محدودیت ڈگری کے حصول سے لے کر نوکری کی حصول تک رہ جاتی ہے ۔
آتے ہیں اس سوال پر کہ وجود کیا ہے؟ فلسفے کی دنیا میں بنیادی طور پر وجود یا تو مادہ ہوتا ہے یا خیال٫ نہایت ہی آسان لفظوں میں جو فلاسفی وجود کو مادہ تسلیم کرتا ہے یا مادہ کو ازل سے ابد تک حقیقی اورخیال پر مادے کی فوقیت کو مانتا ہے، اس کے لیے“مربوط نظام علم” پیش کرتا ہے کہ مادہ شعور ( خیال) سے الگ اپنا آذادانہ وجود رکھتا ہے، وہ مادیت پسند فلسفہ کہلاتا ہے اس فلسفے کی رو سے مادے کے وجود کو ذہن (شعور) پہ منحصر نہیں سمجھا جاتا یعنی مادے کا انحصار ذہن پہ کسی بھی لحاظ سے نہیں ہوتا ، ذہن کے بغیر بھی مادہ اپنا ایک جدا گانہ وجود اور حقیقت رکھتا ہے، جبکہ اس کے مقابل وہ فلاسفی جس میں وجود کسی بھی لحاظ سے خیال مانا جاتا ہو، یعنی خیال مادے پہ مقدم ہو (آئیڈیلزم ) عینیت پسند فلسفہ کے زمرے میں آتا ہے ۔
اس لحاظ سے عینیت پسند فلسفے کی تین اقسام ہیں، ایسا خیال جو مکمل ذہن پہ منحصر ہو “سبجیکٹیو آئیڈل ازم” کہلاتا ہے، یعنی مادی اشیاء کا وجود انسان کے شعور سے باہر نہیں، ذہن پہ مکمل انحصار سے مراد کہ شعور سے باہر کسی بھی شے کا وجود نہیں، اس کی بہترین مثال خواب کی ہے کہ انسان جب خواب دیکھتے ہوئے بیدار ہوتا ہے، تو خواب خواب ہی رہتا ہے ،یعنی خواب کا مکمل انحصار ذہن پہ تھا ، دوسرے قسم کی آئیڈیل ازم ایسا خیال جو ذہن سے باہر ہو جو زہن پہ کسی بھی حوالے سے منحصر نہ ہو، یا دوسرے الفاظ میں “قدرت” نیچر ہمارے زہن سے باہر (افکار و تصورات کلی یا مطلق خیال کی صورت) آزادنہ وجود رکھتا ہے ، ‘اوبجیکوٹیو آہیڈلازم” کے زمرے میں آتا ہے۔جبکہ تیسری قسم ایسا خیال جو ماورا ذہن ہو “ٹرانسیٹینڈل آئیڈل ازم” کہلاتا ہے۔
پس وجود کے سوال پہ فلاسفرز یا تو مادیت پسند کہلائے جائینگے یا پھر عینیت پسند کے زمرے میں آئینگے۔ ان کے برعکس جو ” وجود اور خیال” دونوں کو قائم بالذات حقیقت مانتے ہیں یعنی دونوں کی حقیقت اپنے اپنے طور پہ جدا گانہ حیثیت سے ایک دوسرے پہ انحصار کیے بغیر موجود ہے،وہ دوئی پسند فلاسفی کے زمرے میں آتے ہیں۔ دوسرا سوال کہ علم کیا ہے ؟ “مربوط نظام علم” کہ علم کیا ہے؟ اس کی فطرت و محدودات کیا ہے ؟ علمیات کہلاتا ہے، یہ ایسا ہی ہے کہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے ، وہ سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے لیکن اسے شروع شروع میں یہ شعور نہیں ہوتا کہ وہ آنکھ سے اشیاء کو دیکھ رہا ہے, ایک وقت آتا ہے جب اسے یہ پتہ چل جاتا ہے کہ وہ اپنی آنکھ سے سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے ، اب جس آنکھ سے وہ دیکھ رہا ہوتا ہے اس آنکھ کی اپنی حقیقت یا فزیالوجی کیا ہے ؟
اسی طرح “علم” اس آنکھ کی مانند جس سے انسان جان رہا ہوتا ہے کہ کون کیا ہے ؟ ایک وقت آتا ہے کہ اس “علم” پہ خود سوال آتا ہے کہ علم کی اپنی حقیقت و ماہیت کیا ہے؟ کہ ہم کیسے جان رہے ہوتے ہیں کہ وجود مادہ ہے یا خیال؟ یا خود شعوری کا عمل کیسے پایہ تکمیل تک پہنچ رہا پے؟ دراصل “علمیات” میں علم کی حقیقت کو آشکار کیا جاتا ہے کہ علم کی اپنی فطرت و محدودات کیا ہے؟مثال کے طور پہ کہ ‘موجودات” مادہ ہیں یا کہ خیال در اصل یہ سوال کہ مادہ / خیال کو ہم کیسے جان رہے ہوتے ہیں یعنی “جاننے کی بنیاد” تجربہ ہے یا عقل یا ان دونوں سے الگ “عمل” ہے ، یہ دائرہ علمیات کا دائرہ کہلاتا ہے۔ جس فلاسفی میں “علم کا اصل” تجربہ کو مانا ہے وہ “تجربیت پسند فلاسفی‘ کہلاتا ہے جس فلاسفی میں عقل کو علم کی بنیاد مانا ہے ‘عقلیت پسند فلسفہ” کہلایا جاتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ عمل سے جاننا جارہا ہے “۔
عملیت پسند فلسفہ” (ریشنلزم ) کہلاتا ہے ۔ ان کے لیے عقلیت و تجربیت دونوں کی بنیاد وجدان ہوتا ہے ،جو رومانوی مفکرین کے لیے قابل توجیح ہے،جبکہ جدلیات کا دائرہ کار میں کسی ایک کی بھی نفی ممکن نہیں۔ دیکھنے میں یہ بہت ہی آسان عبارتیں و عمومی اصطلاحیں ہیں لیکن جب ان کا اطلاق سماج پہ ہوتا ہے پھر یہ فلسفے کے میدان سے بڑھ کر سیاسی میدان بن جاتا ہے، جہاں ایک طرف ان سادہ پیراؤں میں پوشیدہ نقوش کا اظہار ،ان گنت اصطلاحوں کا بوجھ اٹھانا اور کتابوں کا بوجھ ڈھونا، تو دوسری طرف کتاب دوستی و فکر و عمل کا پیکر سیاسی و علمی میدان میں ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔ یہاں سے اب نظریات کی تشکیل و لا تشکیل کا مسلسل عمل شروع ہوجاتا ہے یہ ایک ایسا اسلحہ خانہ ہے جہاں ‘سیاسی میدان جنگ” کے لیے ہر قسم کا بارود میسر ہوتا ہے۔
ا گر چہ یہ “اسلحہ خانے” والا تاثر ھیگل کے فلسفہ کے حوالے سے منسوب ہے کہ “جدلیات” کو بطور ہتھیار کے نیشنل ازم ، سوشل ازم حتی کہ لبرل ازم نے سیاسی میدان میں زبردست طریقے سے استعمال کیا ، لیکن یہاں اس کا اطلاق پورے فلسفے پہ ہو رہا ہے، کہ اب یہ استادوں پہ منحصر ہے کہ وہ انقلابی قوتوں کے لیے میدان کار زار میں عقل و دانش کی یہاں سے راہیں متعین کریں یا پھر رد انقلاب قوتوں کے لیے جواز تراش تراش کر بارود سے راہیں مسدود کردیں ۔زود نویس اور بسیار گو “ادیب و دانشور” آزادانہ روش کو بنیاد بناکر سماج کے ظاہری حالات پہ قناعت کرکےراگ الاپتے رہیں یا پھروہ حضرات جو درحقیقت خواب آشنا ہوکر سماج کے ظاہری حالات کواس کی زمین و سماج کے جوہر سے جوڑ کر حقیقی آزادی کا خواب دکھاکر انقلابی عمل کو مہمیز مہیا کریں۔
۔ (جاری ہے)۔