بیرسٹر حمید باشانی
آج میں آپ کو ایک دلچسب کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ یہ کہانی قدیم بادشاہوں، راجوں اور مہاراجوں کی نہیں ، بلکہ جدید دور کےحکمرانوں کی ہے۔ مگر اس کہانی اور قدیم شہنشاہوں کی کہانی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ایک قدر مشترک انداز حکمرانی ہے۔ قدیم بادشاہوں کے معاون اور مشیر ان کے درباری ہوتے تھے، جن کو آج کے دور میں وزیر و مشیر کہا جا سکتا ہے۔ اپنے وزیروں و مشیروں یعنی درباریوں کے تقرر کے لیے بادشاہ کئی عجیب و غریب طریقے استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بادشاہ کو صبح جو پہلا راہ چلتا مسافر ملتا تھا اس کو دربار میں مشیر یا وزیر لگا دیا جاتا تھا۔
یہاں تک بھی کہانیاں مشہورہیں کہ ایک بادشاہ نے گھوڑے کو وزیر مقرر کر رکھا تھا، جس کو باقاعدگی سے بطور وزیر دربار میں لایا جاتا تھا۔ یہ کہانی اٹلی کے باشاہ جوسیس سیزر کی ہے۔ یہ مشہور شہنشاہ جولیس سیزر کا چھوٹا بھائی تھا۔ اس کے گھوڑے کی وزارت پر اگرچہ تاریخ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے، لیکن اس گھوڑے کے لائف سٹائل پر سب متفق ہیں کہ یہ گھوڑا ماربل کے اصطبل میں رہتا تھا۔ ہاتھی دانت اور سونے کے برتنوں میں چارا کھاتا تھا اور اس کی خدمت کے لیے پندرہ آدمی مقرر تھے۔
بہرحال یہ بادشاہ لوگ تھے ، جو کسی قانون، ضابطے یا آئین کے پابند نہیں تھے۔ بادشاہ کی پسند، اس کا فرمان اور حکم ہی قانون و آئین ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ اور بادشاہتوں کا نظام ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ جمہوری نظام قائم ہوئے، جسے عوام یعنی جمہور کی حکمرانی کہا گیا۔ اس کے لیے آئین و قوانین تشکیل دیے گئے۔ ضابطے بنائے گئے۔ اور حکمرانوں کی مرضی و منشا کی جگہ قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ بادشاہت اور درباروں کی جگہ پارلیمانی اور صدارتی نظام قائم ہوئے۔ ان صدور اور وزرائے اعظموں کو اپنے وزیر و مشیر مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا۔ تاہم بادشاہتوں کے بر عکس یہ اختیار مختلف شکلوں میں قانون، اخلاقیات اور ملکی وسائل کے تا بع کیا گیا۔
اس نظام میں صدر یا وزیر اعظم کوئی بادشاہ نہیں کہ جتنی مرضی درباری رکھ لے۔ صدر اور وزیر اعظم کو ملکی وسائل اور گنجائش کے مطابق ان عہدے داروں کا تقرر کرنا ہوتا ہے۔ آج کل دنیا میں امیر ترین اور طاقت ور ترین ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہے۔ یہ پولیٹیکل سائنس کی ہر تعریف کے مطابق ایک ایمپائر ہے۔ ایک سپر پاور ہے۔ اس حیثیت میں یہ ناصرف اپنے ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر گونا گوں مفادات کی حامل ہے۔ کئی ایک تنازعوں میں ملوث ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کے دفاع کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ اور اس وقت دنیا کے چپے چپے پر اس کے مفادات پھیلے ہوئے ہیں، جن کی اس کو حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ یہ دنیا کی بڑی معیشت ہے، اور اس کے پاس طاقت ور ترین افواج ہیں۔ امریکہ کے موجودہ صدرجو بائیڈن کی کابینہ کے ممبران کی تعداد سولہ ہے۔ اس کابینہ میں نائب صدر کملا ہیرس اور 15 ایگزیکٹو محکموں کے سربراہان شامل ہیں ۔ ان سولہ لوگوں کی مدد سے جو باِئیڈن نا صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے معاملات چلا رہا ہے ، بلکہ دنیا کے ہر ملک کے اندرونی معاملات سے لیکر خارجہ پالیسی تک کے امور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
دوسرے نمبر پرعوامی جمہوریہ چین آتا ہے۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت اور بڑی معشیت ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر میں یہ امریکہ کی شراکت دار ہے۔ یہ دنیا کی بڑی سپر پاور ہے، جو اس وقت روڈ و بیلٹ جیسے منصوبوں کے تحت دنیا کے ایک سو اڑتالیس ممالک کی معیشت اور سیاست پر اثر انداز ہو تی ہے۔ عام الفاظ میں اپ اس کو دنیا کی دوسری بڑی ایمپائر کہہ سکتے ہیں۔ صدر شی جن پنگ اس ایمپائر کا انتظام سٹیٹ کونسل کے ذریعے چلاتے ہیں، جس کے ممبران یعنی وزیروں کی تعداد صرف 26 ہے۔
ایک نظر ہندوستان پر بھی ڈال دیجیے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے، جو جلد ہی دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں، جو یونین کونسل آف منسٹر کے ذریعے اس مالک کا انتظام چلاتے ہیں۔ یونین کونسل آف منسٹرز حکومت ہند کا پرنسپل ایگزیکٹو ادارہ ہے، جو ایگزیکٹو برانچ کے سینئر فیصلہ ساز ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کی سربراہی وزیر اعظم کرتے ہیں اور اس میں ہر ایک ایگزیکٹو حکومت کی وزارتوں کے سربراہ ہوتے ہیں۔ آج کل کونسل کی سربراہی وزیر اعظم نریندر مودی کر رہے ہیں، اوروزیروں کی یہ کونسل وزیر اعظم سمیت 29 اراکین پر مشتمل ہے۔ کونسل ہندوستان کی پارلیمنٹ کے تابع ہے۔ اس کے بعد ایک اس سے بھی چھوٹی ایگزیکٹو باڈی جسے مرکزی کابینہ کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان میں فیصلہ سازی کا اعلیٰ ادارہ ہے۔ یہ یونین کونسل آف منسٹرز کا ایک ذیلی سیٹ ہے، جو حکومت کے اہم قلمدان اور وزارتیں اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس طرح بھارت میں صرف29 کیبینٹ منسٹر ہیں۔
اس طرح بڑی بڑی کامیاب مغربی جمہوریتوں کو دیکھ لیجیے۔ آسٹریلیا میں عموماً منسٹر کی تعداد 20سے زائد نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں 21 منسٹرز کی تعداد پر کیپ ہے، اور کینیڈا میں وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی کابینہ میں35 منسٹرز ہیں، جن میں سترہ خواتین اور اٹھارہ مرد ہیں۔ ان کامیاب مغربی جمہوریتوں کے ساتھ ساتھ سنگاپور اور جاپان جیسی مشرقی جمہوریتوں کو بھی دیکھ لیں۔ خود پاکستان میں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے سترہ رکنی کابینہ کے ساتھ حلف اٹھایا تھا۔ اگرچہ پاکستان کی نوخیز جمہوریت میں منسٹرز کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہی ہے۔
لیکن سب سے دلچسب بات یہ ہے کہ اس خطے میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے، جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ اس کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔ بین القوامی قانون کی روشنی میں یہ ساورن حکومت نہیں بلکہ لوکل اتھارٹی ہے، اور اس کو لوکل اتھارٹی کا نام اس وقت اقوام متحدہ نے دیا تھا، جب مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں زیر بحث تھا۔ اس اتھارٹی کے پاس وزارات خارجہ، دفاع، کرنسی، تجارت اور مواصلات جیسے محکمے بھی نہیں ہیں۔ اس لوکل اتھارٹی کے زیر انتظام علاقے کا رقبہ ساڑھے چار ہزار مربع میل اور آبادی تقریبا چا لیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی یہ اور آبادی کے لحاظ سے ضلع راول پنڈی سے چھوٹا ہے، جس پر ایک ڈپٹی کشمنر چند اسسٹنٹ کشمنرز کی مدد سے حکومت کرتا ہے۔۔
لیکن وزیروں اور مشیروں کے تقرر کے معاملے میں آزاد کشمیر کی لوکل اتھارٹی تمام بین القوامی ریکارڈ توڑنے کے لیے مشہور ہے۔ چالیس لاکھ والی اس آبادی کے لیے حال ہی میں موجودہ حکومت نے انتیس وزیر مقرر کیے ہیں، جو بلا لحاظ رقبہ و آبادی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی تمام سپر پاورز اور بڑی جمہوریتوں کے وزیروں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ چالیس لاکھ آبادی والے آزاد کشمیر کا سالانہ بجٹ صرف دو کھرب بتیس ارب روپے ہے، جو کامیاب ملکوں کی چھوٹی سے چھوٹی مونسپلٹی کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ اس بجٹ پر انتیس وزیر رکھ لیے گئے ہیں، جن میں سے ہرایک کے پاس سرکاری گاڑی ، نوکر چاکر، ٹی اے ڈی اے اور دیگر بے شمار مراعات ہوں گی۔ ان وزیروں کا لائف سٹائل ترقی یافتہ اور کامیاب جمہوریتوں کے وزرا سے بہتراور پروٹوکول ان سے زیادہ ہے، کیوں کہ ان کو اس طرح سرکاری گاڑیوں اور نوکر چاکر والی سہولیات اور دیگر مراعات میسر نہیں ہوتی۔
دوسری طرف غربت کا یہ عالم ہے کہ عوام آٹے اور روٹی کے لیے سڑکوں پر دھرنے دیے بیٹھے ہیں۔ غریب عوام کے وسا ئل کا اس بے دردی سے استعمال تاریخ میں کسی شہنشاہ نے بھی نہ کیا ہوگا۔ چالیس لاکھ کی آبادی کو انتیس وزیروں پر تقسیم کر کہ دیکھیے کہ ایک وزیر کے حصے میں کتنے افراد آتے ہیں ؟
♣