بیرسٹر حمید باشانی
اسرائیل حماس تنازعہ میں اقوام متحدہ کہاں کھڑا ہے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے، جو ہرجگہ اٹھایا جا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر اقوام متحدہ دنیا کے اس قدیم ترین اور شدید ترین تصادم میں بھی کوئی کردارادا نہیں کر سکتا تو پھراس ادارے سے کسی سنجیدہ تنازعے کے حل کی توقع کیوں رکھی جا رہی ہے۔ خصو صاً کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے جو لوگ اقوام متحدہ سے آس لگائے بیٹھے ہیں، اقوام متحدہ کی پرانی قرار دادوں کو مسلہ کشمیر کا واحد حل قرار دیتے ہیں۔ ان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ وہ ایک بے سود تمنا کے سہارے اپنا اور کشمیری عوام کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے اقوام متحدہ سے اسرائیل سخت نالاں اور ناراض ہے۔ فلسطینی اور دوسرے عام عرب لوگوں کو اس عالمی ادارے پر سخت غصہ اور شکوہ ہے۔ فلسطینی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارہ ان کی داد رسی کے لیے کچھ نہیں کر رہا ہے۔ اوراسرائیلیوں کو یقین اور شکایت ہے کہ اس عالمی ادارے کو ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، اور یہ ادارہ اس کو غیر ضروری طور پر فوکس کر رہا ہے۔ دوسری طرف عالمی برادری اور رائے عامہ بھی اقوام متحدہ سے مایوس ہے، اور اس کو بحیثیت مجموعی ایک ایسا عالمی ادارہ سمجھتی ہے، جواپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اسرائیل فلسطین کے درمیان موجودہ تصادم کے تیسرے ہفتے اسرائیل کے ایک بڑے اخباراسرائیل ٹائمز نے بڑے دکھ و افسوس سے لکھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سال 2022 میں صرف اکیلے اسرائیل کے خلاف جو تنقیدی قراردادیں پاس کی ہیں، وہ دنیا کے تمام ممالک کے خلاف پاس ہونے والی کل قرار دادوں سے زیادہ ہیں۔ یہ عالمی ادارے کی طرف سے یہودی ریاست پر یک طرفہ توجہ مرکوز کرنے کا عمل اور ثبوت ہے۔
اسرائیل کے حامی مانیٹرنگ گروپ یو این واچ کے ایک جائزے کے مطابق، جنرل اسمبلی نے پچھلے سال 15 اسرائیل مخالف قراردادوں کی منظوری دی تھی، جبکہ دیگر تمام ممالک پر تنقید کرنے والی کل 13 قراردادیں تھیں۔ یوکرین پر اس کے حملے کی مذمت کرنے والی چھ قراردادوں کا مرکز روس تھا۔ شمالی کوریا، افغانستان، میانمار، شام، ایران اور امریکہ کے خلاف ایک ایک قرارداد پاس ہوئی۔سعودی عرب، چین، لبنان، ترکی، وینزویلا اور قطر، جن کا انسانی حقوق کا ریکارڈ خراب ہے یا وہ علاقائی تنازعات میں ملوث ہیں، کے خلاف کوئی تنقیدی قرارداد نہیں آئی۔ تھوڑا سا اور پیچھے جاکر جائزہ لیں تو2015 سے لے کر اب تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے خلاف 140 قراردادیں منظور کی ہیں، جن میں بنیادی طور پر فلسطینیوں کے ساتھ اس کے سلوک، پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات اور دیگر مبینہ غلط کاموں پر تنقید ہے۔
یو این واچ نے کہا کہ اسی عرصے کے دوران، اس ادارے نے دنیا کے دیگر تمام ممالک کے خلاف کل ملا کر 68 قراردادیں منظور کی ہیں۔ سن2013 تک، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی جانب سے 45 قراردادوں میں ریاست اسرائیل کی مذمت کی گئی تھی۔ 2006 میں انسانی حقوق کی کونسل کی تشکیل کے بعد سے، اس نے اسرائیل کی مذمت کرنے والی تقریباً اتنی ہی قراردادیں پیش کی ہیں جو باقی دنیا کے مشترکہ مسائل پر ہیں۔ اگر تاریخ میں اور زیادہ پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو ۔1967 سے 1989 تک، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 131 قراردادیں منظور کیں، جن میں عرب اسرائیل تنازعہ کو براہ راست فوکس کیا گیا۔سلامتی کونسل کی ابتدائی قراردادوں میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے باب VII کو براہ راست شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے بر عکس انہوں نے خطرے، امن کی خلاف ورزی، یا جارحیت کے عمل کا واضح تعین کیا، اور آرٹیکل 39 یا 40 کے مطابق کارروائی کا حکم دیا۔ سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 54 نے طے کیا کہ چارٹر کے آرٹیکل 39 کے مفہوم کے تحت امن کے لیے خطرہ موجود ہے، اس لیے اس نے جنگ بندی کی ضرورت کا اعادہ کیا، اور چارٹر کے آرٹیکل 40 کے مطابق جنگ بندی کا حکم دیا۔ لیکن دوسری طرف روایتی طور شروع دن سےاسرائیل کے خلاف پیش ہونے والی قرار دادوں کو امریکہ کی طرف سے ویٹو کرنے کا ایک طویل ریکارڈ ہے۔ امریکہ کا یہ عمل عالمی برادری میں ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہا، اور عالمی برادری نے مختلف انداز میں اس کے خلاف ردعمل دیا۔ بیشتر اسلامی ممالک میں امریکہ کے خلاف پائی جانے والی ایک خاص قسم کی مخاصمت اور نفرت کی دیگر کئی وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ امریکہ کی اسرائیل کے بارے میں یہ پالیسی ہے۔
خود اقوام متحدہ کے اندر اس امریکی پالیسی کے ردعمل میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے امریکہ کے خلاف متعدد قراردادیں پیش کی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے امریکہ کے ساتھ تزویراتی تعلقات، ایک سپر پاور اور ویٹو پاور کے حامل سلامتی کونسل کے مستقل رکن کو جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں اور طریقوں پر عمل کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اسرائیل فلسطین تنازعہ کو لے کر جب جنرل اسمبلی کا 9واں ہنگامی اجلاس سیکورٹی کونسل کی درخواست پر بلایا گیا تو امریکہ نے اسرائیل کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تمام کوششوں کو روک دیا۔ یہ وہ وقت تھا جب نگرو پوٹنے ڈاکٹرائین سامنے آیا۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے اداروں کی جانب سے مسلسل تنقید کا جواب دیتے ہوئے نیگروپونٹے نظریے کو اپنایا جس میں واضح کیا گیا تھا کے امریکہ، اسرائیل پر تنقید کرنے والی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کسی بھی ایسی قرارداد کی مخالفت کرے گا، جس میں فلسطینی عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کی بھی مذمت نہ کی گئی ہو۔ امریکہ کی اس پالیسی اور نظریے کو سمجھنے کے لیے اسکا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
جولائی 2002 کو اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان نیگروپونٹے نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند اجلاس کے دوران اسرائیل عرب پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ، اسرائیل فلسطین تنازعہ کے بارے میں سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کی مخالفت کرے گا، جو اسرائیل کی مذمت کرتی ہیں، لیکن دہشت گردوں کی مذمت نہیں کرتیں۔ دہشت گرد گروہوں کی مذمت، اسرائل کی مذمت کے ساتھ لازم ہے. امریکہ کی اسرائیل عرب پالیسی کا یہ اصول نیگروپونٹے نظریے کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اسے ریاستہائے متحدہ میں حکام نے اسرائیل کی مذمت کرنے والی ان قراردادوں کے جواب کے طور پر استعمال کیا ہے، جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ ساری گفتگوہ بند اجلاس میں ہوئی تھی، اس لیے ان کے اس پالیسی بیان کا باضابطہ ٹرانسکرپٹ جاری نہین کیا گیا۔ لیکن نیگرو پونٹے کے بیان کا خلاصہ دنیا کے سامنے آگیا۔
نیگروپونٹے کے بیان کے وسیع پیمانے پر رپورٹ کردہ خلاصے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف کوئی بھی ایسی قرارداد جس میں بیک وقت دہشت گردی کی مذمت نہ کی گئی ہو اسے امریکہ ویٹو کرے گا۔ اس لیے کسی قرار داد کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں درج ذیل چارعناصر موجود ہوں ۔
اول، قرارداد میں ہر قسم کی دہشت گردی اور دہشت گردی پر اکسانے کی سخت اور واضح مذمت کی گئی ہو۔
دوم، الاقصیٰ شہداء بریگیڈ، اسلامی جہاد اور حماس کے نام سے وہ تمام گروہ جنہوں نے اسرائیل پر خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، ان کی مذمت کی گئی ہو۔
سوم، بحران کے سیاسی حل کے لیے تمام جماعتوں سے اپیل کی گئی ہو۔
چہارم، ستمبر 2000 میں دوسری انتفادہ کے آغاز سے قبل اسرائیلی مسلح افواج کی ان کی اصل پوزیشنوں پر واپسی کے مطالبے کے لیے، امن اور سلامتی کی صورتحال میں بہتری کا مطالبہ کیا گیا ہو۔
امریکہ اب تک نیگروپونٹے ڈاکٹرائین کو عرب اسرائل تنازعے پر اپنا رہنما اصول تسلیم کرتے ہوئے اپنی بیان کردہ پالیسی پر سختی سے کاربند ہے۔ اسرئیل اور حماس کے درمیان تازہ ترین تنازعے پر امریکہ کی پوزیشن اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
♣