پائندخان خروٹی
کسی بھی بورژوا معاشرے میں سیاسی عمل بنیاد طور پر بالادست طبقہ کے مفادات اور اقتدار کے تحفظ کیلئے ہوتا ہے البتہ نظام کو بہت زیادہ تنقید سے بچانے کیلئے عوام کو یا ان کی کچھ پرتوں کو چھوٹی موٹی سہولیات اور مراعات دینے کی بات بھی ہوتی ہے۔ ہمارے جیسے پسماندہ معاشرے میں عوام کے کھلے استحصال سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تاہم ان تمام غیرقانونی بےضابطگیاں کو قانونی اور اخلاقی بیساکھیاں فراہم کرنے کیلئے عوامی ترقی و خوشحالی کے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ کے خاص مرحلے میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اراکین اسمبلی کو خصوصی کردار دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ابتدائی طور پر اکثر لوگوں نے اس کا خیرمقدم بھی کیا کیونکہ اس طرح ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کے مختلف مراحل میں عوامی نمائندگی نظر آتی تھی لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں آج بھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو واضح اکثریت حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ تمام اہل زر اور زور تو عملاً اپنے طبقے کے ہی نمایندگی کرتے ہیں۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی سے لیکر ان پر عملدرآمد تک کمیشن اور کرپشن کے الزامات لگے اور مذکورہ ترقیاتی منصوبوں کے ثمرات عوام تک کم ہی پہنچے۔
اب کچھ عرصہ سے بعض خلقی دانشور اور سیاسی حلقے یہ موقف اختیار کر رہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اربوں روپے ضائع کرنے کی بجائے انھیں ارکان اسمبلی سے الگ کر دیا جائے۔ بقول ان کے کہ ترقیاتی فنڈز الگ کرنے سے ہی نظریاتی سیاست کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ گویا وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبے/پی ایس ڈی پی نظریاتی سیاست کی راہ میں رکاوٹ بھی ہے اور عوامی نمائندوں کے دامن پر ایک بدنما داغ بھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی پارلیمانی سیاست میں نظریاتی سیاست بھی کی جا سکتی ہے؟ کیا تکمیل کے بعد ترقیاتی منصوبے عوامی نمائندوں کے دامن پر بدنما داغ بن جاتے ہیں؟ تیسرا یہ کہ اگر ارکان اسمبلی سے ترقیاتی فنڈز واپس لے لئے جائیں تو منصوبوں پر عملدرآمد میں شفافیت کی ضمانت کون فراہم کریگا؟ کیا ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد کیلئے پارلیمنٹرین اور بیوروکریٹس کے علاوہ کسی اور پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟
یہ بات طے ہے کہ اگر ترقیاتی منصوبوں پر کمیشن اور کرپشن کے حوالے سے سیاستدانوں کے کردار پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں تو دوسری طرف ارباب اختیار بھی ان ہی الزامات سے بری الزمہ نہیں ہیں۔ کسی بھی طبقاتی معاشرے میں نافذ العمل نظام کے وجود پر سوال اٹھانا ہی اولین شرط ہے۔ ویسے بورژوا سماج میں کمیشن اور کرپشن میں کمی تو لائی جا سکتی ہے لیکن اس کیلئے اختیارات کے ارتکاز کو ختم کرنے اور اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنا ضروری ہے۔ اچھی طرز حکمرانی میں تین عناصر یعنی احتساب، ذمہ داری اور شفافیت ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ مذکورہ تینوں عناصر کی ضمانت پارلیمنٹرین اور بیوروکریٹس نہیں دے سکتے بلکہ اس بات کی اصل ضمانت تو عدل و مساوات پر مبنی سوشواکنامک سسٹم ہی دے سکتا ہے۔
پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں گزشتہ چھہتر برس سے اسلامی انقلاب برپا کرنا، ریاست مدینہ کا قیام عمل میں لانا، طبقاتی نظام سے نجات دلانا، قومی آزادی کو ممکن بنانا، انقلابی نظریات کے دعوے کرنا، صنفی مساوات قائم کرنے کا نعرہ لگانا، ذات پات پر مبنی نظام کا خاتمہ کرنا اور سوشلسٹ انقلاب لانا وغیرہ جیسے خوش نما نعروں کی گونج تو سنائی دیتی ہے لیکن ایسے نعرے لگانے والی تنظیمیں ایوان میں محض چند نشستوں کے ساتھ نظام بدلنے اور اقتدار پر قابض ہونے کے دھواں دھار دعوے سے خود کو عوام سے جوڑنے کی ناکام کوششیں کرتی ہیں جبکہ ہر ذی شعور شخص کو یہ معلوم ہے کہ سینکڑوں کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں دو تین نشستیں رکھنے والی سیاسی جماعتیں وہ سب کچھ قطعاً نہیں کر سکتی جن کے وہ دعویدار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی سیاست موجود نظام کے اندر اور آئینی دائرہ کار تک محدود ہوتی ہے اور ماورائے آئین کسی سیاسی عمل کی اس میں کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ پارلیمانی سیاست چھوٹے موٹے فلاحی اقدامات، چند افراد کو روزگار کی فراہمی، ضرورت کے مطابق جزوی قانون سازی اور ترقیاتی کاموں کے ٹھیکے فراہم کرنا ہے۔ علم سیاسیات کی کتابوں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر پارلیمنٹرین کی پانچ ذمہ داریاں ہیں۔ 1۔ نئی قانون سازی 2۔ صدر اور سینٹ چیئرمین کے انتخاب کیلئے ووٹ کا استعمال، 3۔ ترقیاتی منصوبوں کی تیاری 4۔ بجٹ سازی 5۔ قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ پر اظہار خیال ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بورژوا پارلیمنٹ ایک ڈیبیٹنگ کلب ہے جہاں تمام اہل زر اور زور اپنی دھواں دھار تقاریر سے اپنے دل کی بھڑاس تو نکال لیتے ہیں لیکن اس سے عوام کے حقوق و اختیارات میں اضافہ نہیں ہوتا لہٰذا ہونا یہ چاہیے کہ عوام کو اتنی ہی بات بتائی جائے جتنی پارلیمانی سیاست میں ممکن ہو۔ جب سیاسی جماعتوں سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہوتی تو عوام میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور سیاسی قیادت پر اعتماد بھی متزلزل ہو جاتا ہے لہٰذا پارلیمانی سیاست میں پرولتاري یا انقلابی دعوے نہیں کیے جانے چاہیے اور اس سے یہ خطرہ بھی رہتا ہے کہ عوام پارلیمانی سیاست کے محدود ثمرات سے سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
انسانی تاریخ میں عام آدمی کو اقتدار میں شریک کرنے، مذہب اور صنفی امتیاز سے بالاتر برابری کا تصور دینے اور عوام کو ریاست کے اصل مالک قرار دینے کے حوالے سے سابق سوویت یونین کے خالق اور بالشویک انقلاب کے ناقابل فراموش رہنماء ولادیمیر لینن نے پہلی بار “تمام اختیارات سوویت (عوام) کے” کا نعرہ لگا کر اور اسے عملی شکل دیکر انسانی تاریخ کا منفرد تجربہ کیا۔ آج بھی دنیا کے کسی ملک میں عوام کی امور مملکت و حکومت میں شراکت داری کی اس سے زیادہ واضح اور ٹھوس شکل موجود نہیں ہے۔ مالی اور انتظامی اختیارات کے ساتھ لوکل گورنمنٹس کی تشکیل، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی، خواتین کی نمائندگی بڑھانے اور تمام امور و معاملات میں ہر سطح پر عوام کی شراکت داری کو یقینی بنا کر ہی جمہور کی حقیقی جمہوریت قائم کی جا سکتی ہے اور درپیش مشکلات کا پائیدار حل بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔
لوکل گورنمنٹ سسٹم ایک قسم کی سیاسی نرسری ہے جو تمام سیاسی تنظیموں کو سچی بنیادیں اور نئے لیڈرز فراہم کر سکتی ہے۔ بدبختانہ پاکستان میں سیاسی قوتیں بلدیاتی اداروں کو مقامی حکومتوں میں بدلنے اور بلدیاتی نظام کو آئینی تحفظ فراہم کرنے میں اب تک بری طرح ناکام ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج چھہتر برس کے بعد بھی کئی پڑھے لکھے لوگ لوکل باڈیز اور لوکل گورنمنٹ کے فرق کو نہیں جانتے۔
♣