پائند خان خروٹی
اب تک کی تحقیق کے مطابق پوری کائنات میں انسان کا واحد مسکن سیارہ زمین ہی ہے۔ سیارہ زمین یعنی دنیا کی رنگینی اور خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر معنویت انسان کی ذات سے وابستہ ہے۔ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ سامراجی قوتوں اور استحصالی عناصر کی وجہ سے بنی نوع انسان ترقی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی یکسانیت، مساوات اور استحصال سے پاک دنیا بنانے میں کامیاب نہیں ہے۔ آج بھی مذہب، نسل، صنف، اور سب سے بڑھ کر طبقاتی بنیادوں پر انسان تقسیم کا شکار ہے۔ جہاں چند لوگوں کو دنیابھر کی سہولیات اور مواقع میسر ہیں وہی انسانوں کی اکثریت محرومیت، محکوميت اور مغلوبیت کا شکار ہے۔
ہمارے اپنے شہر کوئٹہ میں بھی ایک جانب اہل زر اور زور اپنے پالتو کتوں اور بلیوں کیلئے سات سمندر پار سے کھانے پینے کی امپورٹڈ اشیاء منگوائی جاتی ہیں جبکہ دوسری جانب ان کے اڑوس پڑوس میں بڑی تعداد میں خود انسان دو وقت کی عزت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ ارتقاء اور ترقی کے سفر کے دوران یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ماضی میں انسان رنگا رنگ پھول پودے بناؤ اور سنگھار کیلئے کاشت کرتے تھے۔ انسان کے ہاتھوں سے کاشت ہونے والے پھول دوسرے انسانوں کے گلے کا ہار بنتا تھا یا لیلیٰ کی زلفوں کا سنگھار ہوتا تھا یا انسان کے اردگرد ماحول کو معطر بنانے کا وسیلہ ہوتا تھا لیکن صد افسوس کہ آج انسان کے کاشت کردہ وہی رنگا رنگ پھول اور پودے قبروں کی زینت بنتے ہیں، زخمیوں کو پیش کیے جاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ مریضوں کے بستر پر رکھے جاتے ہیں۔
گویا پھولوں کی رنگینی اور خوبصورتی محض قبروں، زخمیوں اور مریضوں تک محدود ہو چکے ہیں جو کہ آج کے ترقی یافتہ اور سولائزڈ سوسائٹی کے وجود پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجے میں پھیلی ہوئی دنیا سمٹ گئی ہے، انسان نے اپنی آواز تیز رفتار سفر کرنے کو ممکن بنا دیا، انسانوں کے درمیان فاصلے بظاہر کم ہوگئے ہیں، آج کا جدید انسان دور دراز کی اشیاء کو اپنے قریب تو لے آنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے قومی اور اجتماعی رشتے ناطوں سے فاصلے بڑھا دیئے۔ فیملی اسٹرکچر تو اتنا تبدیل ہو گیا ہے کہ جہاں ماضی میں ایک باپ اپنے متعدد بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرتا تھا وہی جوان لڑکے لڑکیاں آج سب مل کر اپنے ایک والد/والدہ کی جائز ضروریات پوری کرنے کیلئے تیار نہیں۔ انسان کی ترقی کے عمل کو برقرار رکھتے ہوئے انسانیت کو مستحکم بنانا اور انسان دوست رویے تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ انسان کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی ترقی و آسودگی بھی یقینی بنایا جا سکے۔
زیر بحث موضوع “انسان کی ترقی لیکن انسانیت کی پسپائی” کے موضوع کو انتھروپلوجی اور آرکیالوجی کے تناظر میں ہی بہتر طور پر سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ علم البشریات میں چار مختلف حوالوں سے انسانی ارتقاء کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے انسانی کی بائیولوجیکل ترقی کے مرحلہ سے بحث آتا ہے جسکے مطابق نباتات، حیوانات اور باقاعدہ انسانی زندگی کے مراحل کو سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کے مظاہر میں آولیت انسان کے وجود کو حاصل ہے۔ انسانی وجود کی طاقت اور حکمت دونوں کے درمیان جدلیاتی رشتہ کی تفہیم حاصل کر کے ہی قدم آگے بڑھائے جا سکتے ہیں۔
اسکے بعد ارتقاء کے عمل میں لسانیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انسان نے زبان کی تخلیق کر کے تجرید کو معنی دینے میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کائنات کی تمام اشیاء کو باقاعدہ نام دینے کا کارنامہ بھی انجام دیا ہے۔ زبان کے ذریعے اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کی صلاحیت بھی انسانی ارتقاء کا حصہ ہے۔ علم البشریات کے تیسرے حصے میں سماجی ثقافتی ترقی کا شمار ہوتا ہے۔ جسمانی تحفظ کو یقینی بنانے، موسم کی شدت سے بچاو کا اہتمام کرنے کے بعد جمالیاتی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے انسان نے اپنی بودو باش کو ہر مرحلے پر ترقی دی اور کلچر سے سویلائزیشن تک کا سفر کامیابی سے طے کیا۔ علم البشریات کا چوتھا حصہ بہت منفرد ہے جس میں قدیم زمانے سے لیکر آج تک کی حیران کن تعمیر و ترقی کا ذکرِ ہے۔ ماضی کے آثار قدیمہ میں سے کئی تعمیرات کو عجائب کا درجہ دیا گیا ہے۔
آج کا ترقی یافتہ انسان بھی ماضی کے بعض آثار قدیمہ کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے لیکن انسانی ترقی کے حیران کن مناظر صرف ماضی میں ہی نہیں بلکہ پل پل بدلتی دنیا میں فلک بوس عمارات، شیش محل، شاندار ٹاورز اور برق رفتار ٹرین وغیرہ بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ بعض لوگوں کیلئے ماضی کے عجائب زیادہ اہم ہیں جبکہ ہمارے لیے آج کی حیران کن ترقی اور ایجادات زیادہ دلچسپی کا باعث ہیں۔ مختصراً یہ کہ علم البشریات میں انسان اور انسانیت کی ترقی اور اس کے ساتھ ساتھ اسکی تخلیقی اور تعمیری پیش رفت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ دَور یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ انسانوں کی اکثریت طبقاتی اور قومی بنیادوں پر محرومی اور محکومی کا شکار ہیں۔ بڑے ترقی یافتہ ممالک نے نیو کالونیل سسٹم کے تحت غریب اور ترقی پذیر ممالک و اقوام پر تسلط حاصل کر رکھا ہے۔ طاقتور قوموں نے کمزور قوموں کو غلام بنا رکھا ہے۔ مٹھی بھر بالادست طبقہ نے اکثریتی عوام کو زیردست اور استحصال کا شکار بنایا ہوا ہے۔ بیشتر انٹرنیشنل آرگنائزیشنز سامراجی ممالک کی چاکری میں مصروف عمل ہیں۔
انسانی ترقی کے مختلف پہلوؤں اور خاص کر اس حقیقت کا جائزہ لیا جانا کہ آج کے سائنٹفک دور میں انسان جس رفتار سے ترقی کر رہا ہے انسانیت اُسی رفتار سے ترقی نہیں کر پا رہی ہے۔ انسانیت کی پسپائی اور پسماندگی کے حوالے سے ریاستوں کے مقابلے میں بین الاقوامی اداروں کا کردار زیادہ باعثِ تشویش ہے کیونکہ عمومی طور پر توقع یہ کی جاتی ہے کہ یہ ادارے کسی ایک یا دو بڑی ریاستوں کے نمائندہ نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک، محکوم اقوام اور عالمی معاشرے کے مشترکہ نگہبان ہیں۔
♥