بیرسٹر حمید باشانی
اس وقت دنیا کے ہر ملک میں طبقاتی تقسیم موجود ہے۔ یہاں تک کہ یہ طبقاتی تقسیم کیوبا جیسے ملک میں بھی پائی جاتی ہے۔ حالاں کہ کیوبا میں سوشلزم اب تک کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔یہ طبقاتی تقسیم اس وقت بھی پائی جاتی تھی، جب فیڈل کاسترو کی قیادت میں کیوبا ایک مکمل سوشلسٹ ملک تھا۔ یہ طبقاتی تقسیم سوویت یونین میں بھی موجود تھی، جہاں تارِیخ کا سب سے پہلا اور بڑا سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا تھا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک سوشلسٹ سماج غیر طبقاتی سماج ہوتا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ خود سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے والوں نے بھی کبھی سوسلسٹ نظام کو غیر طبقاتی نظام نہیں قرار دیا۔ اس کے برعکس ان کا خیال تھا کہ سوشلزم غیر طبقاتی سماج کے قیام کی طرف بڑھنے کے لیے ایک پہلا قدم ہے۔ اور سوشلسٹ سماج کی مکمل کامیابی اور نشونما کے بعد یہ نظام کمیونزم میں ڈھل جائے گا۔ اور ایک کمیونسٹ سماجی ہی دراصل ایک غیر طبقاتی سماج ہوگا، جس میں ہر طرح کی طبقاتی تقسیم ختم ہو جائے گی۔
جن ملکوں میں سوشلسٹ انقلاب آیا، انہوں نے بڑے حیرت انگیز کارنامے سر انجام دیے، مگر وہ کئی بھی سوشلزم کو کمیونزم یعنی مکمل غیر طبقاتی سماج کے مراحلے میں داخل کرنے میں ناکام رہے۔ ان حیرت انگیز کارناموں میں کیوبا سب سے آگے تھا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے اعداد و شمار کے مطابق کیوبا تعلیم ، صحت اور روزگار کے اعتبار سے پوری لاطینی امریکہ سے کہیں آگے تھا۔ یونیسف کاسترو کے زمانے میں ہر سال اس طرح کے اعداد و شمار دیتا رہا، جسے عالمی دنیا نے تسلیم کیا۔ لیکن وہاں طبقاتی تقسیم تب بھی تھی اور اب بھی ہے۔ اس لیے اگر پاکستان جیسے ملک میں طبقاتی تقسیم کی بات ہو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں ہے۔
پاکستان شروع دن سے نظریاتی اعتبار سے سرمایہ دارنہ نظام معشیت کو اپنے معاشی نظام کی بنیاد قرار دیتا رہا ہے۔ اور اس بنیاد پر پاکستان نے روایتی سرمایہ داری سے لیکر لبرل ازم اور نیولبرل ازم کے معاشی اصولوں اور فلسفے کو اپنی ترقی کا راستہ قرار دیا ہے۔ لہذا پاکستان میں آج طبقاتی تقسیم نظر آتی ہے۔ لیکن اس طبقاتی تقسیم کی جو شکل یہاں موجود ہے، اور جس طریقے سے یہ طبقاتی تقسیم دن بدن گہری ہوتی جا رہی یہ تشویشناک ہے۔ ملک کی بہت بڑی آبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اور یہ لوگ دن بدن غربت، پسماندگی اور بد حالی کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں۔ یہ وہ سٹیج ہے، جہاں پہنچ کر طبقاتی تقسیم ، محض سادہ تقسیم نہیں رہ جاتی ، بلکہ یہ طبقاتی لوٹ کھسوٹ بن جاتی ہے، جس کا اظہار اور عکس زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی انسانی ضروریات کے معاملے میں تو یہ تقسیم نا قابل بیان حد تک بڑھ چکی ہے۔
یہاں پہلی بات تو یہ ہے لاکھوں بچوں کو کبھی کسی سکول کی دہلیز پر قدم رکھنا ہی نصیب نہیں ہوا۔ ایک طرف لاکھوں بچے جو غربت اور بدحالی کی وجہ سے مدرسوں میں داخل ہوئے، دوسری طرف لاکھوں بچے مہنگے انگلش سکولوں سے تعلیم حاصل کرتے رہے۔ درمیان میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے، جو سرکاری سکولوں میں پڑھ کر اپنا مستقبل بنانے کا خواب دیکھتے رہے، جن کی ان کو تعبیر نہ ملی۔ اس تفاوت اور تضاد میں اب ایک نیا اضافہ ہوا ہے۔ وہ ہے براہ راست بیرونی ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کا رحجان۔ اس رحجان میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان سے ہزاروں نوجوان ہر سال مغربی تعملمی اداروں میں داخلے کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔ ہزاروں پہلے ہی ان تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔
اب مدرسے سے لیکر ایچیسن تک، اور ایچیسن سے مغربی یونیورسٹیوں میں جو تعلیم کا فرق ہے، اس کا لازمی اثر ہر طالب علم کے مستقبل پر پڑتا ہے۔ اس تعلیمی معیار میں جو فرق ہے، اس کا اثر روزگار اور کاروبار سے لے کر طلبہ کی معاشی و سماجی زندگی پر پڑتا ہے۔ اس طرح صحت کے میدان میں ہی دیکھ لیجے۔ ہزاروں لاکھوں افراد کو جو دور افتادہ گاوں اور پسماندہ علاقوں میں آباد ہیں ، ان کے لیے کسی بیماری کی صورت میں شفا خانے اور ادوایات تک رسائی ایک بہت بڑا چلنج ہے۔ یہ لوگ لمبی مسافتوں کے بعد شہروں میں پہنچتے ہیں ، جہاں وہ اپنی غربت کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
دوسری طرف ہزاروں لوگ ایسے ہیں، جو انتہائی مہنگے پراہیویٹ ہسپتالوں یا بھر براہ راست مغربی ممالک کے شفا خانوں سے علاج کراتے ہیں۔ ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار اور پراہیویٹ یا بیرون ملک ہستالوں کے معیار میں جو فرق ہے، اس کا لازمی اثر انسانی زندگی اور موت پر پڑتا ہے۔ یہ صحت اور تعلیم کے میدان میں موجود طبقاتی تفریق کی صرف ایک ہلکی سے جھلک ہے۔ یہ تقسیم پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں مروج ہے، اوردن بدن گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔
اس وقت پاکستان کے اس معاشی و سماجی پس منظر میں ملک میں انتخابات ہو رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ طبقاتی تقسیم ، بلکہ لوٹ کھسوٹ انتخابات کے دوران زیر بحث آنے والے موضوعات میں شامل ہی نہیں ہے۔ طبقاتی تقسیم یا طبقاتی جدوجہد کی بات ہی نہیں ہو رہی۔ آپ پاکستان کی پہلی پندرہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے آئین و منشور اور انتخابی پروگرام اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپ کو یہ دیکھ کر حیرت ہوگی کہ ان بڑی جماعتوں کی دستاویزات میں طبقاتی تقسیم کا ذکر تک نہیں ، اور اگر ہے بھی تو اس کا کوئی ٹھوس حل یا پروگرام موجود نہیں ہے۔ ایک دو چھوٹی پارٹیاں ہیں ، جنہوں نے اس مسئلے کو سنگین مسئلہ قرار دے کر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق اس کا حل بھی پیش کیا ہے ، لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ یہ چھوٹی پارٹیاں عوام کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں ناکام رہی ہے۔
پہلی پندرہ پارٹیوں سے عوام کسی انقلاب کی توقع نہیں رکھتے۔ اور حقیقت میں اس وقت کوئی ایک پارٹی بھی نہیں ہے جو انقلاب کی بات کرتی ہو۔ بلکہ انقلابی پارٹیوں نے بھی انقلاب کی بات ترک کرکہ جمہوری عمل اور جدوجہد کے زریعے عوامی مسائل حل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں بات حقیقی آزادی کی ہو یا سوشل ڈیماکریسی کی، یا پھر دائیں بازوں کی قدامت پرست سرمایہ دارانہ سیاست کی ، آپ کو کسی پارٹی کے پروگرام میں پاکستان کی غربت افلاس و طبقاتی تقسیم پر کوئی روڑ میپ نہیں ملے گا۔ جس طرح کی دائین بازوں کی قدامت پرست پارٹیاں پاکستان میں پائی جاتی ہیں، اس طرح کی پارٹیوں کی دنیا میں کمی نہیں ہے۔ مگر یہ پارٹیاں اپنی قدامت پرستی اور دائیں بازوں کی طرف جکھاو کے باوجود اپنے اپنے معاشرے میں بڑھتی طبقاتی تقسیم سے انکار نہیں کرتیں ، بلکہ وہ ٹیکس سمیت کئی دوسرے اقدامات کے ذریعے طبقاتی تقسیم کا خاتمہ تو نہیں ، لیکن اس کی شدت میں کمِی کی بات ضرور کرتی ہیں۔
دوسری طرف لبرل اور سوشل ڈیموکریٹ اپنے پروگرامات میں دولت کی زیادہ منصفانہ تقسیم کے لیے بھاری ٹیکس لگانے جیسے اقدامت کی وکالت کرتی ہیں۔ پاکستان میں حالیہ برسوں دائیں اور بائیں بازوں کا فرق تقریبا ختم ہو چکا ہے۔ سیاسی پارٹیاں اقتدار کے حصول کو اپنا بنیادی مقصد قرار دے کر ایسے بحث و مباحثے سے ہی کتراتی ہیں، جس کی وجہ سے سماج کا کوئی طاقت ور طبقہ یا فرد ان کے خلاف ہو جائے۔ ان حا لات میں ہونے والے انتخابات جمہوری تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے تو اہم بلکہ ناگزیر ہیں، مگر ان انتخابات سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع رکھنا درست نہیں ہوگا۔ یہ انتخابات قومی مسائل پر ٹھوس نظریہ پیش کرنے کے بجائے زاتی خوبیوں اور نیک ارادوں کے پرچار پر لڑے جا رہے ہیں۔
♣