بیرسٹر حمید باشانی
جمہوریت ہمارے دور کی ایک شہکار دریافت ہے۔ یہ نظام حکومت مکمل اور آیئڈیل نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر بڑے پیمانے پر اتفاق ہے کہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اس میں جمہوریت ہی ایک ایسا طرز حکمرانی ہے،جس کے ذریعے عام آدمی یعنی لاکھوں کروڑوں انسان اپنی آوازایوانوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اپنی آواز ایوانوں تک پہنچانے کا طریقہ سیاسی نمائندگی ہے۔اس سیاسی نمائندگی کے اصول کے تحت عام آدمی حق رائے دہی کے ذریعے اپنی مرضی کا نمائندہ منتخب کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اور عام طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ وہ منتخب نمائندہ اپنے اس ووٹر کی ایوان اقتدار یا پارلیمنٹ میں نمائندگی کرے گا۔
اگرچہ دانشوروں کی ایک بڑی تعداد اس سے اتفاق نہیں کرتی ۔ ان دانشوروں کا خیال ہے کہ ہماری طرح کے طبقاتی سماج میں سیاسی نمائندے بظاہر منتخب تو عوام کے ووٹوں سے ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ایوانوں میں جا کر عام آدمی کے بجائے با اثر اور بالا دست طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ے کہ ہمارے سماج میں عام آدمی اس پوزیشن میں ہوتا ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کر سکے۔ اس کی ایک وجہ طبقاتی تقسیم ہے۔ عام آدمی جس سطح کی بھوک ، ننگ اور تنگ دستی کا شکار ہوتا ہے، وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کے آزادانہ طریقے سے ووٹ کا ستعمال کر سکے۔
دوسرا ہمارے ہاں خواندگی اور علم و شعور کی کمی کی وجہ سے عام آدمی کے لیے یہ طے کرنا ممکن نہیں ہے کہ کون سی پارٹی یا امیدوار اس کے مفادات کا سچی ترجمانی کر سکتا ہے۔ دولت کا استعمال ایک ایسا عنصر ہے ، جو پورے انتخابی عمل کو ہی بے معنی بنا دیتا ہے۔ دولت کے استعمال سے ووٹ خریدنا تو ایک سادہ سا عمل ہے، اس کی کئی دوسری پیچیدہ شکلیں ہیں ، جن میں دولت کے ذریعے ووٹ اور حق رائے دہی پر اثر انداز ہوا جاتا ہے۔ اس میں انتخابی مہم کے دوران کروڑوں عربوں کے اخراجات سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے سے لیکر سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دولت مند امیدواروں کو میدان میں لانے کی پالیسی بھی شامل ہے۔ اس طرح جو شخص منتخب کر سامنے آتا ہے، اسے بے شک عام آدمی نے ووٹ دیا ہو، یا انتخابی عمل کے دوران اس سے انٹر ایکشن کا موقع میسر آیا ہو، منتخب ہونے کے بعد یہ شخص اس عام ووٹر کے لیے ایک اجنبی شخص بن جاتا ہے۔ اور منتخب شخص بااثر گروہوں اور طبقات کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہ جمہوریت کی خامیاں، کمزوریاں اور مجبوریاں ہیں، جو زیادہ پسماندہ اور غریب معاشروں میں زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کمزوریوں کی موجودگی کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں قانون کی حکمرانی کا نہ ہونا، کرپٹ اور بد عنوان سوسائٹی، غربت اور بد حالی جہاں لوگوں کی غربت اور بے بسی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ساز گار ماحول مہیا ہوتا ہے۔ لیکن جوں جوں جمہوریت مستحکم ہوتی جاتی ہے، اس طرح کے مسائل اور کمزوریوں پر قابو پانا آسان ہوتا جاتا ہے۔ ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں ، جہاں امیدوار انتخابی مہم کے دوران ایک مقررہ حد سے زائد دولت خرچ نہیں کر سکتا۔ پھر قانون کی حکمرانی مضبوط ہوتی ہے تاکہ اس طرح کے قوانین صرف کاغزوں کی حد تک محدود نہ ہوں، بلکہ عملی میدان میں بھی ان پر سختی سے عمل کیا جائے۔ لیکن اس کے لیے جمہوری کلچر اور جمہوری روایات کا موجود اور مضبوط ہونا ضروری ہے، جو جمہوریت کے تسلسل سے ہی ممکن ہے۔
کینیڈا جیسے ملکوں میں اس طرح کے قوانین پر عمل درآمد کی کوشش ہوتی رہتی ہیں۔ ان ممالک میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، جب امیدواروں پر مقررہ حد سے زیادہ پیسے خرچ کرنے کے الزامات لگے ، اور ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔ ظاہر ہے اس کےلیے خواندگی، تعلیم اور شعور کا ایک خاص سطح پر پہنچنا بھی ضروری ہے، جہاں پہنچ کر رائے عامہ اتنی حساس اور ذمہ دار ہو جاتی ہے کہ وہ امیدواروں کی طرف سے کسی قسم کی بے ضابطگی یا کسی قانون کی خلاف ورزی پر انکے خلاف سخت رد عمل دیتی ہے، اس طرح کے الزامات لگنےکے بعد امیدوار کا سیاسی کیریر تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک مثالی صورت حال جس کے لیے ایک حساس اور باشعور معاشرہ لازم ہے۔
ہمارے ہاں مجموعی علم و شعور اور عام آدمی کے سییاسی شعور کی جو سطح ہے، اس سے فائدہ اٹھا کر شاطر سیاست کار پارٹی ٹکٹ سے لیکر انتخابی عمل کے اخراجات تک ہر جگہ دولت کے بے تحاشا استعمال کر کہ الیکشن کو آسانی سے “مینوپولیٹ” کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے ہاں آج جو سیاسی کلچر موجود ہے ، اس میں عام آدمی انتخابی یا جمہوری عمل میں کسی قسم کا فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست اور قیادت ہر حلقے میں چند امیر خاندانوں کا پیشہ بنتا جا رہا ہے، جس میں عام آدمی بے وقعت ووٹر یا پھر خاموش تماشائی ہے۔ یہ جمہوریت سے جڑی و کمزہوریاں ہیں جو زبان زد عام ہیں، اور ہمارے ہاں ہر فورم پر ان کا ذکر ہوتا رہتا ہے۔
لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت سے جڑی ایسی کمزوریاں بھی ہیں، جن کا عام آدمی تو کیا بڑے بڑے دانشوروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی علم نہیں ہوتا۔ اس کی ایک مثال آزاد کشمیر اسمبلی ہے۔ آزاد کشمیر اسمبلی میں ، جس کو قانون ساز اسمبلی کہا جاتا ہے ، اس میں کل تریپن سیٹیں ہیں، جن میں سے بارہ سیٹیں مہاجرین جموں و کشمیر حال مقیم پاکستان کے لیےہیں۔ ان سیٹوں کا مطلب یہ ہے کہ تقسیم کشمیر کے وقت جو لوگ سابق ریاست جموں کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان میں آباد ہوئے ان کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ یہ لوگ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں آکر آباد ہوئے۔ اگرچہ ان کے بڑے مراکز لاہور، کراچی، راولپنڈی ، گجرانوالہ سیالکوٹ ، کوئیٹہ اور پشاور ہیں، لیکن حلقہ بندی کے اعتبار سے ان کی کانسٹیچنیونسی میں پورا پاکستان شامل ہے۔ یعنی یہ لوگ پاکستان کے کسی کونے میں بھی آباد ہوں انتخابات کے وقت اپنے حلقے کے امیدوار کو ووٹ دے کر آزاد کشمیر اسمبلی کا ممبر بنا کر مظفرآباد کے ایوانوں میں بھیج دیتے ہیں۔
اس سلسلہ عمل میں یہ مہاجرین جموں کشمیر کی تیسری اور چوتھی نسل ہے، جو مستقل طور پر پاکستان میں آباد ہو چکی ہے۔ ان کا پاکستان میں نسل در نسل کاروبار اور روزگار ہے ۔ان میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ریاست جموںوکشمیر یا آزاد کشمیر کی سر زمین پر کبھی قدم نہیں رکھا۔وہ اس خطےکی سیاست، تاریخ اور جغرافیہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ لیکن وہ ہر پانچ سال بعداس خطے میں قانون سازی کے لیے بارہ نمائندے منتخب کرتے ہیں ، جو مظفرآباد میں بیٹھ کر آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے قانون بناتے ہیں۔
اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس قانون کا اطلاق خود ان لوگوں پر نہیں ہوتا۔ وہ حکومت آزاد کشمیر کو ٹیکس نہیں دیتے، اور نہ ہی آزاد کشمیر حکومت کا کوئی فیصلہ ان پر اثر اندز ہوتا ہے۔ وہ جو قانون سازی کرتے ہیں ، اس کا اطلاق صرف آزاد کشمیر کے لوگوں پر ہوتا ہے۔ جو لوگ 1947 میں ریاست جموں کشمیر سے آکر پاکستان کے مختلف شہروں اور قصبوں میں آباد ہوئے تھے، ان کی تیسری نسل کو مہاجرین کی کسی تعریف کے مطابق مہاجر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور اس استحقا ق کی بنیاد پر وہ کسی ایسے علاقے کے لیے قانون سازی نہیں کر سکتے جس کا خود ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ یہ عمل جمہوریت اور سیاسی نمائندگی کے تمام بین القوامی اور اخلاقی ضابطوں سے متصادم ہے، لیکن گزشتہ سات دہائیوں سے یہ انوکھی نمائندگی جاری ہے۔
♠