سائنسی فلسفے کے خدوخال

جہانزیب کاکڑ

فلسفہ کو عام طور پر خیالات کا  گورکھ دھندا سمجھا جاتا ہے جس کے تصورات کا عملی اور تجرباتی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسکی وجہ دیگر علوم کا فلسفے کی کلیاتی کسوٹی  سے الگ ہونا  اور  شعبہ جاتی علوم کے ماہرین کا فلسفہ کے بارے میں

پھیلائی گئی غلط فہمیاں ہیں۔
سائنس چونکہ ایک منظم تجرباتی علم کا نام ہے جسکا اپنا ایک طریقہِ کار ہے جسے سائنسی طریقہِ کار کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طریقہِ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے مفروضاتی،  مشاہداتی اور تجرباتی عمل کے بعد اُصول وقوانین اخذ کیے جاتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا فلسفہ بھی سائنس کی طرح سے ایک منظم اور قابلِ عمل علم ہو سکتا ہے جس کے اصول وقوانین فطرت کے باقاعدہ مشاہدے اور تجربے سے اخذ شدہ بھی ہوں اور بعد ازاں جس کے اُصول و قوانین کا دوبارہ

فطرت اور اس کے مظاہر پر اطلاق بھی ہو۔
تاریخِ فلسفہ میں اس علم کو بڑی حد تک منظم شکل دینے میں ہیگل کا ہاتھ ہے مگر اس کو ایک جامع اور مربوط علم بنانے کا سہرا کارل مارکس کے سر جاتا ہے جہاں اس نے ایک طرف فلسفہ کو مابعدالطبیعاتی دھندلکوں سے باہر نکالا وہاں اسے مادی مظاہر سے جوڑتے ہوئے سائنسی بنیادوں پر اُستوار بھی کیا۔ تاریخ فکر کے محتاط تجزیے و مطالعے کے بعد مارکس نے جدلیاتی مادیت کا مقولہ مرتب کیا۔ جوکہ ہے تو فطرت، سماج اور فکر کے عام قوانینِ حرکت سے اخذ شدہ مگر اس کا اطلاق ہستی کے تینوں مربوط دائروں یعنی فطرت، تاریخ انسانی اور تاریخ فکر پر دوبارہ کرتے ہوئے اس سے ذیادہ اعلا پیمانے کے جدلیاتی اُصول و قوانین اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

جدلیاتی مادیت کے مطابق فطرت اور اس کے مظاہر انسانی موضوع یا شعور سے آزادانہ وجود رکھتے ہیں اور یہ اپنی موجودگی کیلئے کسی ذہن یا شعور کے محتاج نہیں ہیں۔
انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں آسٹریا کے ماہر طبیعات اور فلسفی ارنسٹ میک اور جرمنی کے فلسفی اویناریوس نے جدید طبیعات کے انکشافات جو ایٹم کے تجزیے سے متعلق تھیں کی بنیاد پرتجربی انتقادکا نظریہ پیش کیا اور دعوی کیا کہ جدید طبیعات کی رو سے جدلیاتی مادیت غلط ثابت ہوئی اس لیے کہ مادہ سراسر موضوعی ثابت ہوا اور ظاہر ہے اس پر متصرف قوانین بھی موضوعی ثابت ہوئے اس کا جواب دیتے ہوئے لینن نے کہا تھا
ارنسٹ میک کا نظریہ تجربی انتقادبشب بارکلے کی موضوعی عینت پسندی کے علاوہ کچھ نہیں جس کی بار بار تردید ہوچکی ہے۔ مادے کی معروضیت پر بحث کرتے ہوئے لینن کہتا ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں پہلا یہ کہ مادہ کیا ہے؟ لینن کہتا ہے کہ مادہ وہ ہے جو شعور یا موضوع سے باہر اپنا مسقل وجود رکھتا ہےدوسرا پہلو یہ کہ مادہ کیسا ہے؟ اس کا تصور وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتا رہے گا۔

جس طرح ہر سائنس کے  قوانین ہوا کرتے ہیں اسی طرح جدلیاتی مادیت کے بھی چند عمومی قوانین پائے جاتے ہیں جن پر عبور حاصل کیے بغیر کائنات، تاریخ اور فکر کے ارتقا کو سائنسی بنیادوں پر نہیں سمجھا جا سکتا۔

جدلیاتی مادیت کے قوانین حسب ذیل ہیں۔
۔(۱)ضدین کے بہم انضمام کا قانون
۔(۲)کمیتت سے کیفیت میں تبدیلی کا قانون
۔(۳) نفی کی نفی کا قانون

ضدین کے انضمام سے مراد ہے کہ ہر چیز متضاد پہلووؤں ( یعنی مثبت و منفی کے انضمام) سے مرکب ہے جو اسے حرکت پر مجبور کرتی ہے۔ اس حرکت سے کسی چیز یا مظہر کے اندر چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جنہیں مقداری تبدیلیاں کہتے ہیں اور یہ چھوٹی چھوٹی مقداری تبدیلیاں باالاخر کیفیتی تبدیلی میں ڈھل جاتی ہیں۔ اور یہ سارا عمل اثبات،  نفی اور پھر نفی کی نفی کے زریعے طے پاتا ہے جس کے بعد دوبارہ اثبات کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
جدلیاتی مادیت کے اس فارمولے کو اچھی طرح ذہن نشین کرتے ہوئے ہم نہ صرف کائناتی عمل بلکہ سماج اور فکر کے ارتقاء کو بھی سمجھ کر انہیں تبدیل کر سکتے ہیں۔جدلیات کے یہ مذکورہ بالا قوانین ہستی کے تمام دائروں میں کارِ فرما ہیں۔اگر غور کریں تو زرہ ریگ سے لے کر آفتاب تک، ہمارے نظامِ شمسی سے لے کر دور دراز کہکشاؤں تک ہر چیز انہی قوانین کی پابند ہے۔

جدلیاتی مادیت کے اُصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے علی عباس جلالپوری رقمطراز ہیں:۔
۔(۱)۔: کوئی شے قطعی، حتمی اور مطلق نہیں ہے، سب ا شیاء ہمہ وقت حرکت وتغیر میں ہیںاینجلز کہتا ہے۔ مادے کا بغیر حرکت کا تصور کرنا اتنا ہی محال ہے جتنا کہ حرکت کا بغیر مادے کے تصور کرنا۔

یہی جدلیاتی مادیت کا پہلا اصول ہے اسکی رو سے کوئی شئے اپنی جگہ پر قائم نہیں رہتی۔ ہر شئے کا ماضی ہے حال ہے مستقبل ہے۔ کائنات کی کوئی شئے اس عمل تغیر سے محفوظ نہیں ہے۔

۔(۲)۔: کائنات میں اشیاء ایک دوسرے سے الگ تھگ موجود نہیں ہیں بلکہ ہر شے دوسری پر اثرانداز ہو کر اس میں تغیر پیدا کر رہی ہے۔
اس اُصول کا اطلاق انسانی معاشرے اور علوم پر کیا جائے تو مفہوم ہوگا کہ سیاسیات، معاشیات، ادبیات، فنونِ لطیفہ وغیرہ کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور ان کے عوامل وموءثرات ایک دوسرے میں نفوذ کئیے ہوئے ہیں۔ جدلی مادیت پسند

کہتے ہیں کہ بورژوا اہلِ علم،  ادب وعلم کے مختلف شعبوں کو ایک دوسرے سے الگ الگ کرکے ان کا مطالعہ کرتے ہیں اس لئیے انتشارِ فکر کا شکار ہوجاتے ہیں۔
۔(۳)۔: تیسرا قانونِ اضداد وہی ہے جو ہیگل کی جدلیات کا بھی اصل اُصول ہے یعنی ہر شئے کے بطون میں اسکی ضد موجود ہے جو بالآخر اس کی نفی کا باعث ہوتی ہے۔ یہی تضاد نیچر اور معاشرے میں عملِ ارتقاء کا محرک ہے۔ اشیاء ہر کہیں

اپنی اضداد میں بدلتی جارہی ہیں۔مثبت اور منفی میں ہر وقت کشمکش جاری رہتی ہے۔ تمام تغیر وتبدل اسی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اشیاء متغیر ہوتی ہیں کیونکہ ان میں مثبت اور منفی کا تضاد موجود ہے۔
۔(۴)۔:چوتھا قانون یہ ہے کہ ہر اثبات میں اس کی نفی موجود ہوتی ہے اور ہر نفی کی نفی ہوجاتی ہے جس سے دوبارہ اثبات کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

جدلی مادیت پسندوں نے  اس عمل کی  معاشرتی ترجمانی یوں کی ہے کہ زرعی انقلاب کے بعد جاگیردارانہ  نظامِ معاشرہ قائم ہوا۔ جاگیرداروں کو اپنا کام چلانے کے لئے روپے کی ضرورت تھی جو تاجر فراہم کرتے تھے۔ محنت و مشقت کا کام مزارعوں اور غلاموں کے سپرد تھا۔ یہ اس معاشرے کا اثباتی پہلو ہے لیکن اسی میں اس کی نفی بھی مضمر تھی۔ مرورِ زمانہ سے تجارت پیشہ طبقے نے اتنی قوت حاصل کرلی کہ اُنہوں نے جاگیرداروں کو کُچل دیا۔ اب طاقت تاجروں یا بورژوا کے ہاتھوں میں آگئی۔ صنعتی انقلاب کے بعد جا بجا کارخانے کُھل گئے جن میں کام کرنے کے لیئے مزدوروں کی ضرورت تھی مزدور اپنی وجہِ معاش کیلئے سرمایہ دار کا محتاج تھا کیونکہ جب تک وہ اپنی قوتِ بازو اس کے ہاتھ نہ بیچتا اُسے فاقے کرنے پڑتے تھے چنانچہ مزدور کا مقام سرمایہ دارانہ نظام میں وہی ہے جو جاگیردارانہ نظام میں مزارعوں یا غلاموں کا تھا۔ جاگیرداروں کی نفی بورژوا نے کی۔ بورژوا کی نفی مزدور کریں گے۔ اس طرح نفی کی نفی ہو جائیگی اور معاشرہِ انسانی ترقی کے راستے پر ایک قدم اور آگے بڑھائے گا“(۱)۔

تاریخی عمل کو سمجھنے کیلئے اگر جدلیاتی مادیت کا تاریخ پر اطلاق کیا جائے تو اسے تاریخی مادیت کہتے ہیں۔

جس طرح  دماغ کے بغیر خیالات کا وجود ممکن نہیں ہوتا اسی طرح  پیداواری قوتوں( ، عوام، آلات محنت ،زمین، کارخانے، صنعتیں، کمپنیاں، بینک، ) اور پیداواری تعلقات ( پیداواری عمل کے دوران انسانوں کے درمیان تعلق) کی بنیاد کے بغیر ہم عصر تاریخی شعور کا ظہور بھی ناممکن ہوتا ہے۔ پیداواری قوتوں اور پیداواری تعلقات  میں حرکت اور ارتقا، جوکہ ہم عصر تاریخی شعور کو بھی متعین کرتا ہے جب ایک دوسرے سے تضاد میں آجاتے ہیں یعنی جب پیداواری تعلقات اور پیداواری قوتیں ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہوپاتے تو اُس وقت تاریخی طبقاتی شعور اور کشمکش جنم لے لیتا ہے جو کہ بالاآخر سماج اور نظام کی تبدیلی پر منتج ہوتا ہے۔ اس طور دیکھا جائے تو تاریخ انسانی اب تک پانچ قسم کے سماجوں کو دیکھ چکی ہے۔ پہلا اشتراکی سماج،  غلام دارانہ سماج،  جاگیردارانہ سماج،  سرمایہ دارانہ سماج، سوشلٹ سماج۔

جدلیات کے انہیں تاریخی نقوش پہ چلتے ہوئے ہم مستقبل کے نظاموں کا، سائنسی ترقی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، حتی الِامکان پیشن گوئی کر سکتے ہیں جو کہ ایک سائنسی فلسفے کی خاصیت ہے۔

مارکس سے قبل فکرِ انسانی کم وبیش غیر منظم حالت میں تھی۔ مارکس اور اینگلز کی نابغائی صلاحیتوں کی بدولت انسانی فکر مرتب ہو کر جدلیاتی مادیت کی شکل میں سامنے آئی۔ جو نہ صرف فطرت کی اپنی حرکت سے اخذ شدہ ہے بلکہ مسلسل تبدیل ہوتی ہوئی فطرت اور اس کے مظاہر پر  جس کا درست اطلاق کرتے ہوئے  مستقبل کی پیشنگوئی بھی ممکن ہے۔

_کتابیات
۔1:-روایات فلسفہ، جلالپوری، علی عباس
۔2:- مارکسی فلسفہ، افاناسیف
۔3:- تاریخ کا نیا موڑ،جلالپوری، علی عباس
۔4:-
وٹ از ڈایالیکٹکس، اے بی سی سیریز۔ 

Comments are closed.