بیرسٹرحمید باشانی
ہمارے ہاں تاریخ پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار تو ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ تاریخ کے ایک خاص دور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تاریخ سے سبق سیکھ کر اپنی سمتیں درست کرنے کے بجائے ہم تاریخ کے سحر میں گرفتار ہیں، اورتاریخ کے سنہری ادوار کے واپس لوٹ آنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہراتی، اور ہوبہو شکل میں تو بالکل بھی نہیں۔ اس لیے تاریخ کے کسی خاص دور کو اپنی اصل شکل میں واپس نہیں لایا جا سکتا۔ عظیم ایمپائرز، سلطنتیں اور ریاستیں اسی شکل میں دوبارہ نہیں قائم کی جا سکتیں۔
میں بھی تاریخ سے خصوصی دلچسبی رکھتا ہوں۔ اس لیے میں اکثر تاریخ پڑھتا رہتا ہوں، اور اس کے چھوٹے بڑے واقعات پر غور کرتا رہتا ہوں۔ لیکن تاریخ میں میری دلچسپی ان ماہ و سال سے زیادہ ہے، جن کا تعلق میری پیدائش سے فورا پہلے کے دور سے ہے۔ اس دور کے واقعات پر میں اکثر غور کرتا رہتا ہوں۔ حالاں کہ میں جانتا ہوں ان واقعات پر غور و فکر کرنا ان بزرگوں اور دانشوروں کا کام تھا، جو اس دور میں زندہ تھے۔ جو کسی نہ کسی شکل میں تاریخ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ خواہ وہ اس دور کے دانشور ہوں، حکمران ہوں یا پھر سیاسی رہنما ہوں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان لوگوں نے ان واقعات پر غور نہیں کیا ہوگا۔ لیکن اس دور کے حالات و واقعات یہی بتاتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ تاریخ کے دھارے میں بہتے چلے گئے۔ یا پھرانہوں نے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے وہ اس وقت کے ہیرو یا نمایاں لوگ تو بن گئے، لیکن آئندہ آنے والی نسلوں پر اس کے کوئی خوشگوار اثرات نہیں مرتب ہوئے۔ اور آنے والی نسلوں نے اس کی وجہ سے بہت مصائب برداشت کیے، جن میں ہماری نسل سر فہرست ہے۔ مین ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں، جن کا تعلق چالیس اور پچاس کی دہائی سے تھا، یعنی اس وقت یہ لوگ اپنی اپنی حیثیت میں کسی نہ کسی طرح تاریخ پر اثر انداز ہونے حتیٰ کہ اس کے راستے بدلنے کی طاقت رکھتے تھے۔
میری پیدا ئش چونکہ ستر کی دہائی کی ابتدائی سالوں کی ہے، اس لیے میں اس سے فوری پہلے کے دور کو وہ پس منظر سمجھتا ہوں، جو میری پوری زندگی پر اثر انداز ہوا ہے۔ لیکن اس پس منظر کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مجھے اس سے بھی بیس پچیس سال پیچھے جانا پڑتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جوانی کے ابتدائی دور میں مجھے جس کسی بھی بزرگ یا بڑے سے واسطہ پڑتا تھا،وہ اپنی ہر بات کے دوران ماضی کی بات کرتا تھا، اور ایسا لگتا تھا کہ ہمارے ہاں ہر شخص ماضی میں پھنس چکا ہے، وہ وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود وہ ان دیکھی زنجیریں توڑنے کے لیے تیار نہیں، جن میں جکڑا ہوا ہے۔ اکثرلوگ انگریزوں اور ڈوگروں کا زمانہ یاد کرتے نظر آتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان زمانوں میں رشوت، سفارش اور لوٹ گھسوٹ ہمارے دور کی نسبت کم تھی۔ اس طرح ان کی سیاسی و سماجی گفتگو سنہ 47 کے پہلے کے حالات پر ہوتی تھی۔ لہذا ہم نے زندگی کے زیادہ تر قصے کہانیاں 1947کے حالات، تقسیم بر صغیر، تقسیم کے دوران ہونے والے واقعات اور پاکستان و بھارت کے درمیان لڑی جانے والی پہلی لڑائی کے بارے میں ہی سنے۔
گفتگوکی ابتدا اس بات سے ہوتی تھی کہ تقسیم سے پہلے ریاست جموں کشمیر میں کیا حالات تھے۔ ریاست جموںو کشمیر انگریزوں کی عملداری میں ایک نیم خود مختار ریاست تھی۔ اس لیے کچھ لوگ انگریزوں کی حکمرانی کی بات کرتے تھے، کچھ لوگ ڈوگروں کی جنہوں نے تقریبا ایک سو سال تک ریاست پر حکومت کی تھی۔ کچھ لوگ انگریز کے نظام انصاف کے معترف تھے، کچھ ڈوگروں کے انتظام و انصرام کے قائل تھے۔ اگرچہ اکثر لوگ انگریزوں اور ریاست جموں کشمیر کے درمیان جو قانونی و آئینی بندو بست تھا، اس کی گہرایوں سے واقف نہیں تھے، لیکن حکمرانی کے باب میں وہ دونوں کو ان کی خوبیوں اور خامیوں کی روشنی میں پیش کرتے تھے۔
ہندوستان پر حکمرانی کے لیے انگریزوں نے برصغیر کو انتظامی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک حصہ برٹش انڈیا تھا، جس کو برطانوی ہند کہا جاتاتھا۔ دوسرا حصہ بر صغیر کے طول و عرض پر پھیلی ہوئی پانچ سو باسٹھ ریاستیں تھی، جن میں سے ایک ریاست جموں کشمیر بھی تھی۔ اس ریاست کے پہلے اور بانی مہاراجہ گلاب سنگھ تھے، اور آخری حکمران مہاراجہ ہری سنگھ تھے۔ ہمیں جو زیادہ قصے کہانیاں سنائی جاتی تھیں وہ مہارجہ ہری سنگھ کے متعلق ہی ہوتی تھیں۔ زیادہ تر لوگوں کے پسندیدہ موضوعات گاّ و کشی، اور ریاستی عوام پر لگائے گئے ٹیکس، مالیہ وغیرہ تھے۔
میری دادی کی پسندیدہ کہانیاں گاو کشی کے واقعات پر مشتمل ہوتی تھی۔ وہ بتاتی تھیں کہ گاّو کشی پر بظاہر پابندی تھی، لیکن ریاست پونچھ کے اس علاقے کے لوگ خفیہ طریقے سے بڑی باقاعدگی سے گائے کا گوشت بناتے تھے۔ اس طرح گاوں کشی ایک طرح کی ایک خفیہ پارٹی یا دعوت ہوتی تھی، جس میں قابل اعتماد لوگ شامل ہوتے تھے، ان قابل اعتماد لوگوں میں ان کے ایک پڑوسی سولو برہمن بھی تھے، جو ان دعوتوں میں بلا ناغہ شریک ہوتے رہتےتھے، جس رات گائے ذبح ہونی ہوتی ان لوگوں کو رازداری سے خبر دے دی جاتی تھی۔ عام طور پراس قسم کی دعوتیں بغیر کسی مسئلے کے تسلسل سے ہوتی رہتی تھیں، مگر کبھی کبھار کوئی اس طرح کے واقعات کی مخبری بھی کر لیتا۔ ایسے واقعات بہت ہی کم ہوتے لیکن اگر ایسا ہوتا تو ذمہ داران کو سخت سزائیں دی جاتی۔
گاو کشی کی دعوتوں میں براہمنوں کی شرکت اس علاقے مین ہندو مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثالیں تھیں۔ گاّو کشی کی بات ہو یا عوا م پر لگائے جانے والے ٹیکس ان پر ہندو اور مسلمان دونوں نا خوش ہوتے تھے، اور کئی جگہوں پر دونوں مل کر مقابلہ کرتے تھے، چونکہ یہاں کے براہمنوں کی ایک بڑی تعداد ماس خور، یعنی گوشت خور تھی۔ یہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی یا بھائی چارہ اس وقت ختم ہو گیا جب برصغیر کی تقسیم کا عمل شروع ہوا ۔
ہندوستان میں جہاں کئی ہندو مسلم فسادات ہوئے ان کی خبریں ریاست جموں کشمیر میں پہچنا شروع ہوئیں۔ قتل و غارت گری اور خون خرابے کے کئی واقعات ہوئے ، لیکن کئی جگہوں پر ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ ان واقعات کا عام آدمی کے ذہن پر بہت گہرا اثر ہوا۔ ظا ہر ہے بر صغیر کی تاریخ صرف 1947 یا اس کے قریب ترین ادوار کی تاریخ ہی نہیں ہے۔ اس پہلے اور بعد بھی بڑے بڑے واقعات ہوتے رہے، لیکن 1947 اور اور اس سے جڑے واقعات لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہوگئے، اور ان کے اثرات سے آج تک باہر نہیں نکل سکے۔ ریاست جموں کشمیر کے لوگ تو پوری طرح تاریخ کے اس دور میں پھنس کر رہ گئے۔ یہاں ہر گفتگو کا آغاز اور اختتام ہی تاریخ کے اس دور پر بات کرنے سے ہوتا ہے۔ یہاں تک یہ رحجان پورے طریقے سے نئی نسل میں منتقل ہو گیا ہے۔ نوجوان لوگ بھی ہر بات کا آغاز تاریخ سے کرتے ہیں۔
یہ ایک پیچیدہ صورت حال ہے، تاریخ کے بارے میں جاننا، تاریخ پڑھنا اور تاریخ سے سبق سیکھنا ہر قوم و ملک کے لیے لازم ہے۔ لیکن تاریخی واقعات کو اپنے نظریات و خیالات کی روشنی میں دیکھنا اور ان سے اپنے نظریات کے مطابق نتائج اخذ کرنا اور پھر ان نتائج کو دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرنا دوسری بات ہے۔ یہ طرز عمل تاریخی شعور نہ ہونے اور تاریخ کے ایک خاص دور میں زہنی و نفسیاتی طور پر پھنسے ہونے کی دلیل ہے۔ آگے بڑھنے کے لیے اس کیفیت سے باہر نکلنا لازم ہے۔
♣