بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔حصہ دوم


مہرجان

بابا مری انسانی اقدار کی کُلیت سے واقف تھے اور تمام جُزئیات کی اہمیت کو جانتے ہوئےقومی آزادی سے پوری انسانیت کی آزادی کی بات کرتے تھے ، اسی طرح وہ اپنی قدر و قیمت سے بھی آشنا تھے ، وہ سقراط کے قول کی طرح اپنے آپ کو جانتے تھے ، تب ہی تو وہ کسی بھی جُز وقتی لہر ، سستی شہرت ، مصنوعیت کے نہ دام فریب میں آئے اور نہ ہی نظریاتی ملاوٹ کا شکار رہے، کہ سرد و گرم بیک وقت ایک منہ میں سمالے ،وہ فکری حد بندی کے سخت قاہل تھے، وہ بے صبر نہیں تھے ۔بقول بابا مری جیسا کہ ان کے بیٹے کسی زمانے میں سمجھتے تھے کہ وہ اڑنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اڑنے کا شوق نہ تھا ، وہ ایک سیاسی فلاسفر کی طرح لمحوں کی وسعت کے بجائے تاریخ کی جدلیات میں سیاسی واقعات کو تسلسل اور ان کی اثر انگیزی کے تناظر میں دیکھتے تھے ۔

وہ سیاسی و جنگی محاذ پہ واقعات کو نہ سطحی انداز سے دیکھتے تھے اور نہ ہی واقعات کو اس قدر گلوریفائی کرنے کے حق میں تھے کہ جہاں سچ اور جھوٹ ، سیاسی پروپیگنڈا و شور و غل میں فرق ہی نظر نہ آئے، اس لیے اس کی فکری بالیدگی اس قدر عروج پر تھی کہ سیاسی گروہ بندی، سیاسی ایڈہاک ازم ، سیاسی مہم جوئی اسے چھو کر بھی نہیں گذری۔ وہ اس بات پہ یقین رکھتے تھے سیاست میں میں مہم جوئی کی کوئی منزل نہیں ہوتینہ ہی آزادی کے اس سفر میں انفرادیت ، گروہ بندی ،قباہلیت ،انا ، لالچ ساتھ ساتھ چل سکتی ہیں۔وہ کسی بھی سماج میں اسے ایک المیہ سے کم قرار نہیں دیتا تھا کہ جس سماج میں ناموری بھی ملے اور شو بازی بھی ہوبقول مختار حسین وہ نمود اور بپلسٹی سے دور بھاگتے ہیں، بڑے سے بڑا مجمع اسے متاثر نہ کر سکا ،۔

آہنسکو کے الفاظ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو وہ ایک ایسا فلسفی دانشور تھے جس کا اخلاقی کردار اس قدر بلند تھا کہ اسے کبھی بھی اسٹیج کی ضرورت نہیں پڑی ، جس کو ہائیڈگر کی زبان میںمعتبر/مستند وجود کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے وجود و آزادی کے احترام میں بڑے بڑے عہدوں کو خاطر میں نہیں لایا۔

بے نظیر بھٹو کو بغیر پیشگی اطلاع کے آنا پڑا، کیونکہ وہ جانتی تھی ملاقات کے لیے بابامری شاید مانیں گے نہیں اور بلوچی روایات کے مطابق گھر آئے ہوئے مہمان کو دروازے سے واپس نہیں کریں گے ۔امریکن قونصلیٹ جو پاکستان جیسے ممالک میں طاقت کا محور سمجھا جاتا ہے، جب وہ بابا مری سے ملنے آئے ، ملاقات کے بعد یہ کہنے پہ مجبور ہوا ، یہ تو کھل کر بولتا بھی نہیں ہے۔ مکران کے کسی علاقے میں ایک بہت بڑا سیاسی جلسہ تھا جس پہ بابا مری کو کہا گیا کراچی سے ٹیلیفونک خطاب کریں وہ معصومیت سے انکار کرکے گویا ہوئے کہ آخر میرے پاس کونسی باتیں ہیں جو میں اجتماع سے کہوں؟ اسی طرح انٹرویوز کے دوران فلسفیانہ انداز میں کہتے تھے کہ میں نہیں سمجھتا کہ اس (میری باتوں) سے لوگوں کو کچھ فائدہ ہوگاہوسکتا ہے۔

یہ باتیں جدید دور کے لکھاریوں ،تعلیم زدہ دانشوروں اور پروفیسرز کے لیے رجعت پسندی ہو لیکن بابا مری چند گنے چُنے افراد کے ساتھ حق توار اسٹڈی سرکل میں بلوچ گلزمین کے لیے مزاحمت کا بیج بوتا رہا ، اور ذہن کے لہو سے زیر زمین رہ کر اپنے فکرو عمل سے اسے سیراب کرتا رہا ، نطشے کے الفاظ میں آخر کار ان کی تنہائی (جو بلوچ گلزمین ، قوم ، تاریخ اور روایات اور آزادی تک کا احاطہ کیے ہوئے تھا) ان کی طاقت بنی ،وہ طاقت کے اس راز سے واقف تھا جو رابرٹ گرین نے طاقت کے چوتھے اصول کے طور پہ متعارف کرایاضرورت سے کم بولنا آپ کی طاقت ہے۔

بلوچ قومی مزاحمت کا یہ پانچواں مرحلہ اسی بیج کی مرہون منت ہے ، کیونکہ حق توار اسٹڈی سرکل سے بقول ان کے میری کوشش تھی کہ چار بلوچ بیٹھیں، بحث مباحثے کے ذریعے بلوچ قومی مسئلے کو سمجھ سکیں، اس طرح میں بلوچوں کے ذہنوں میں ان کے واک و اختیار کے سوال اور عملی جدوجہد کی فکر کو ڈال سکوں اور چار بلوچ میری بات کو سمجھ کر بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد کے لیے کمر ہمت باندھ لیںانہوں نے بلوچ قوم کی آزادی کو عقلی تقاضا سمجھ کر جہد سے جوڑا، پونم (بلوچستان میں پارلیمانی جماعتوں کا اتحاد)کے شور غل کے بجائے اپنی صلاحیتوں کا اظہار ہی ریشنل انداز سے کیا، یوں اس کا ہر عمل شعور سے ہوکر گذرتا تھا۔ جب وہ بول رہے ہوتے تھے، توایسا لگتا تھا کہ وہ سوچ رہے ہوں ، گویا وہ ذہن میں زبان رکھتے تھے ، اسے اپنے الفاظ کے انتخاب پہ اس قدر عبور تھا کہ ہاروکی مورکامی کے ایک کردار کی طرح بعض اوقات وہ ایسی بات کرتے تھے جیسے اپنے خیالات کو بیان کرنے کے لیے موزوں الفاظ تلاش کررہے ہوںاور بعض اوقات انکی خاموشی بھی کسی جنگ سے کم نہ تھی . انکی شخصیت میں ایک خاص قسم کا ٹھہراؤ تھا۔

بابا مری نے نام نہاد ہیومنسٹ یا انسانی حقوق کی چیمپیئن بننے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی وہ اس حوالے سے خیالی گھوڑے دوڑاتے تھے، بلکہ وہ ایک حقیقی سیاسی فلاسفر کی طرح سامراج کی پالیسیوں میں موجود انسانیت سوز عناصر اور اس کی داخلی تضادات کا ادراک رکھتے تھے، وہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ یورپ نے انسان کو مرکز تو بنایا لیکن بقول سارتر انہیں جہاں کہیں بھی انسان نظر آیا اسے قتل کیا۔آج کے دور میں بھی انسانی آزادیوں کے حوالے سے فرانس کی صورتحال پہ بابا مری غیر مطمئن تھے، ریاست پاکستان کو سامراج کا پٹھو قرار دے کر اس بات پہ قوی یقین رکھتے تھے کہ سامراج کی سرپرستی کے بغیر بلوچ کو زیردست نہیں رکھا جا سکتا۔

امریکہ کے حوالے سے وہ ایک قول دہراتے ہیں کہ امریکہ کو سب سے زیادہ ڈر جمہوریت سے ہےاور ان کے بقول ایسا کبھی دنیا نےنہیں دیکھا کہ امریکہ کسی محکوم قوم کی آزادی کے لیے موثر کردار ادا کیا ہو، اقوام متحدہ کو وہ اس حوالے سے امریکہ کا تنخواہ دار سمجھتے تھے ،اور اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ آج امریکہ اور اسکی ملٹی نیشنل کمپنیاں ، اقوام کی تہذیب ، کلچر و روایات میں رکاوٹیں ڈال کر ان کی تجارت پہ قابض ہورہی ہیں ۔ وہ میلان کندیرا کی اس بات کو درست سمجھتے تھے کہ جدید دنیا کے ادارے انسانی مفادات کے بجائے طاقت کے مفادات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس حوالے جب ان سے پوچھاگیا کہ بلوچستان میں جاری ریاست کے جنگی جرائم کو اگراقوام متحدہ میں پیش کیا جائے تو کیا یہ زیادہ درست فیصلہ نہیں ہوگا ؟ تو انہوں نے برملا کہا کہ اقوام متحدہ پہ انہیں یقین نہیں ہے ہاں البتہ وہاں بلوچ قوم کے مقدمے کی تبلیغ ضرور ہوگی ۔

وہ اس حوالے سے نطشین فلسفے کے زیادہ قریب تھے اور چاہتے تھے کہ بلوچ کو اپنی قوت بازو پہ بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی اگر دیکھا جائے آج حقیقی دنیا میں طاقت کو معنویت پر فوقیت حاصل ہوچکی ہے ،عراق سے لےکر فلسطین تک کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مظاہرے و احتجاج ہوئے لیکن امریکہ سمیت یورپ کے لیے اپنے جانوروں کے حقوق کالونائزڈ اقوام کے انسانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل ہے اور انکی اپنی پوری تاریخ کالونائزیشن کی تاریخ ہے۔ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ کالونائز ڈ کے لیے بے شک انسانی حقوق کی تبلیغ سے ایک بنیادی مقدمہ سامنے آتا ہے، لیکن آزادی کی جنگ کا بنیادی کردار بیانیے کے ساتھ ساتھ میدان جنگ میں بھی اترنا ایک عقلی اور ضروری فعل ہوتا ہے، تاکہ طاقت اور معنویت (سچائی)میں طاقت کو فوقیت ملنے کی بجائے طاقت و معنویت کی قربت بڑھ سکے۔،

اس قربت کو بڑھانے میں بقول ایلن بدایو کے فلاسفر کا کردار زیادہ اہم ہوتا ہے ، جہاں تک بنیادی مقدمے کی تبلیغ کی بات ہے تو کالونائزر کے ساتھ ہم آہنگیکے بجائے اس کے لیے عالمی سطح پر موثر سفارتکاری کے ساتھ ساتھ کالونائزر و کالونائز ڈ کے بنیادی تضاد کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بقول ماؤ حقیقی دوست اور حقیقی دشمن کا تعین ہوسکے ۔

آج ریاست پاکستان میں انسانی حقوق کے دعویدار جو اپنے اپنے طور پہ پاکستان جیسی سامراجی ریاست کی سالمیت پہ یقین رکھتے ہیں وہ کبھی بھی بقول بابا مری انسانی حقوق کا علمبردار نہیں ہوسکتےاس حوالے سے بابا مری کبرال کا وہ واقعہ یاد کرتے ہیں کہ جب ان سے کچھ نوآبادیاتی صحافی حضرات احسان جتلاتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ ہم بھی آپ لوگوں کے لئے کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہوتے ہیں جس پہ کبرال کہتا ہے جب ہمیں آزادی ملی تو آپ کے چار آرٹیکل کے بدلے میں ہم آپ لوگوں کے لئے آٹھ آرٹیکل لکھیں گے۔ اس لیے یہ سمجھنا اشد لازمی ہے کہ آج پاکستانی نوآبادیاتی ریاستی دانشور چاہے انکا تعلق بائیں بازو سے ہو یا دائیں بازو سے ہو ، یا پھر انسانی حقوق کے علمبردار ہو ، یا آئین ،قانون کا دعویدار ہو ، وہ کبھی بھی بلوچ کے ساتھ ہمدردی انسانیت کے نام پہ نہیں بلکہ اس خدشہ کے بنا پہ کرتا ہے کہ کہیں دوسرا بنگلہ دیش نہ بن جائے ، وہ اپنی نسلوں کا سوچتا ہے جن کا مستقبل پاکستان ، پاکستانیت میں محفوظ ہے۔

(جاری ہے )

پہلا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

Comments are closed.