خوف کی مملکت مصنف: ھنٹر سٹاکٹن تھامپسن

Weave a circle round him thrice, And close your eyes with holy dread, For he on honey-dew hath fed, And drunk the milk of Paradise.

Samuel Taylor Coleridge Kubla Khan


ترجمہ: خالد محمود

ھنٹر تھامپسن کی آج سے بیس سال پہلے چھپی کتاب ”خوف کی مملکت“ کی پہلی ریڈنگ مکمل ہوئی۔ کتاب پر کچھ کہنے کی کوشش میں سب سے پہلے دھیان، بالزاک کے ایک قول کی طرف چلا گیا۔ خیر! بالزاک کے قول پر بعد میں بات کرتے

ہیں۔ ھنٹر تھامپسن کو ”گانزو صحافت“ کا باپ سمجھا جاتا ہے۔ یہ صحافت کا وہ انداز ہے جسے معروضیت کے دعووں کے بغیر لکھا جاتا ہے۔ اِس میں صحافی، بیانیے کو فرسٹ پرسن میں بیان کرتے ہوئے،خود کہانی کا حصہ ہوتا ہے“۔

ھنٹر کی یہ کتاب، اُس کی یادوں، سفاکانہ طنز، عارفانہ لاپرواہی، متضاد آراء پر زور دار اور مدلل تنقید اور طاقت کے غلط استعمال پر، طاقت ور کی بے باک توہین کا زبردست امتزاج ہے۔ ھنٹر اپنے قاری کو ہر مروجہ کہانی کا دوسرا رُخ دکھاتا ہے۔ آپ تک پہنچی ہر سچائی کو، پٹخنے کے لئے ایک نئی دیوار دکھاتا ہے۔ یہ کتاب بیسویں صدی میں امریکی جمہوریت کی ناکامیوں کا مفصل روزنامچہ ہے۔ بیسویں صدی جسے ھنٹر امریکی صدی قرار دیتے ہیں عالمی سیاست کی بساط پر سازشوں، جنگوں اور بے گناہ انسانوں کے قتلِ عام کی کئی دلخراش داستانیں ہیں۔

اِس ریویو میں تمام ادوار کا احا طہ کرنا ناممکن ہے مگر میں اُن چیدہ واقعات کے ذکر پر اکتفا کروں گا، جن کا براہِ راست یا بالواسطہ، ہمارے اپنے خطے سے دُور یا نزدیک کا، کوئی تلازمہ بنتا ہے۔ آئیے پہلے چلتے ہیں ھنٹر تھامپسن کے بچپن کے شہر، دریائے اوھائیو کے کنارے آباد قدامت پسند ریاست کینٹکی کے نسبتاً لبرل شہر ”لوئی وِل“ میں جہاں ھنٹر سٹاکٹن تھامپسن 18 جولائی 1937 میں ایک مڈل کلاس خاندان میں پیدا ہوا تھا۔ ھنٹر کی والدہ ورجینیا، پیشے کے لحاظ سے ایک لائبریرین اور والد جیک رابرٹ تھامپسن پبلک انشورنس ایڈجسٹر اور جنگِ عظیم اول کے سابقہ فوجی تھے۔

سنہ 1946 میں جب ھنٹر صرف 9 سال کا تھا تو اسے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ سکول بس کا ایک نیا ڈرائیور ٓشہر میں آیا تھا جو کوئی سنگدل اور سنکی شخص تھا۔ اِس سے پہلا ڈرائیور شریف آدمی تھا اور بس کی طرف لپکتے بچوں کا اُس وقت تک انتظار کر لیتا تھاجب تک وہ بس میں نہ بیٹھ جائیں۔ مگر یہ نیا بس ڈرائیور بچوں کا انتظار کرنے کی بجائے دروازے بند کر کے تیزی سے آگے بڑھ جاتا تھا۔ ھنٹر اور اس کے دوستوں نے اِس سنگدل بس ڈرائیور کو سبق سکھانے کے لئے ایک منصوبہ بنایا۔ انہوں نے بھاری بھر کم میل باکس کو، رسیوں کی مدد سے ایسے ترچھا متوازن کر رکھا تھا کہ رسی کو ہلکا سا کھینچنے سے سڑک پر گر پڑے۔ جیسے ہی بس میل باکس کے قریب پہنچی تو لڑکوں نے رسی کھینچ کر بھاری بھر کم میل باکس بس کے عین سامنے گرا دیا تھا۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور ڈرائیور نے باہر نکل کر گھاس پر چھلانگ لگادی۔ مگر اِس دوران اُس نے لڑکوں کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔

چنا نچہ دو ”ایف بی ٓئی“ ایجنٹس پہنچتے ہیں ھنٹر کے گھر، اور اس کے باپ سے کہتے ہیں کہ وہ ھنٹر کو وفاقی املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں تفتیش کرنے آئے ہیں، کیونکہ پوسٹل سروس کے میل باکسز وفاقی محکمے کی پراپرٹی ہیں۔ وہ آتے ہی کہتے ہیں کہ ھنٹر بہتر ہے کہ تم اعترافِ جُرم کر لو۔ ہم تمہارے دوستوں سے مل چکے ہیں اور انہوں نے ہی تمہاری مخبری کی ہے۔ چند سیکنڈ کے لئے ھنٹر نے سوچا کہ جرم تومُجھ سے سرزد ہوا ہے اور اگر ان کے سامنے اعتراف کر لیا تو اس کا مطلب ہے کہ خود کو اِن کے رحم و کرم پر چھوڑ دوں۔ اور 9 سال کی عمر میں جیل یاترا کے لئے تیار ہو جاؤں۔ میں ایک متجسس لڑکا تھا۔ میں نے چند سیکنڈ میں اُن سے سوال کرنے کی ٹھان لی۔ اگر میں اعتراف نہ کروں تو؟ تمہارے پاس کون گواہ ہے؟ اِس کے بعد خاموشی چھا گئی۔

میرے والد نے کہا کہ میرے بیٹے نے صحیح نکتہ اٹھایا ہے۔ تم اپنے گواہوں کے نام بتاؤ؟ اور اِس کے بعد وہ ایف بی آئی ایجینٹس دوبارہ کبھی ہمارے گھر نہیں آئے تھے۔ مجھے معصوم قرار دیا گیا۔ اور اِس سے ایک سبق یہ ملا کہ کبھی بھی کسی ایف بی آئی ایجنٹ کی، کسی بھی معاملے میں پہلی کہی بات پر اعتبار نہیں کرنا۔ ھنٹر کی طبیعت جب موزوں اور اپنی روانی پر ہوتی ہے تو پھر اپنے میدان میں کوئی اُس کا ثانی نہیں۔ یہ اہم نہیں کہ زمانہ ھنٹر پر کیسے گذرتا ہے؟ بلکہ یہ اہم ہے کہ ھنٹر بطور فاعل، زمانے کی بھیڑ چال سے کیسے جھوجھتا ہے اور کیسے گذرتا ہے؟ ھنٹر لکھتا ہے:۔

“I have seen thousands of priests and bishops and even the pope himself transmogrified in front of our eyes into a worldwide network of thieves and perverts and sodomites who relentlessly penetrate children of all genders and call it holy penance for being born guilty in the eyes of the church. Whoops! I have wandered off on some kind of vengeful tangent here.”

ھنٹر اپنے عالمِ شباب میں سان فرانسسکو کے بدنامِ زمانہ نائٹ کلب ” او فیرل تھیئٹر“ میں نائیٹ مینیجر رہے ہیں۔ یہ نائیٹ کلب دو مشہور آئریش امریکن بھائیوں ِجِم مِچل اور آرٹی مِچل کی ملکیت تھا۔ یہ بیسویں صدی کی ساٹھ اور ستر کی دہائی کا زمانہ ہے جو جِنسی آزادی اور جِنسی انقلاب کا زمانہ تھا۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد، قابلِ تولید جوڑوں نے 1950 میں برتھ کنٹرول کے لئے ”کنڈوم“ کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ سال 1955 سے سال 1965 کے دوران تقریباً 42 فیصد لوگ کنڈوم پر انحصار کرتے تھے۔

سنہ 1960 میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے پہلی برتھ کنٹرول گولی کی اجازت دی تھی جسے عرفِ عام میں پل یعنی ٹیبلیٹ” کہا جاتاتھا۔ 1950 سے جون 1981 تک ایڈز کی تشخیص تک کا زمانہ، جنسی انقلاب کا زمانہ تھا جس میں متمول لوگوں اور غریبوں نے بھی خاطر خواہ لطف اٹھایاتھا۔ ” برتھ کنٹرول پِل“ اور ایڈز کی دریافت کا درمیانی عرصہ جِنسی جنون یا انقلاب کا دور تھا جو حیرت انگیز تھا۔ البتہ ایڈز کے مرض اور اسباب سامنے آنے پر اِس دور کا خاتمہ ہوا تھا۔ ہمارے دوست ڈاکٹر آفتاب انجم کے بقول انسانی سماج میں سب سے بڑا انقلاب ” ضبطِ تو لید‘‘ ہی ہے جس کی وجہ سے سماج میں خواتین کو محض بچے پیدا کرنے کی مشین بننے سے فرصت ملی اور خواتین کو سماج میں ورک فورس کا حصہ بننے کے مواقع ملے۔

اِس کلب میں سٹرپ ٹیز اور لیپ ڈانسنگ جیسی تفریح میسر تھیں۔ ھنٹرنے اِس کلب میں عریاں رقص کرنے والی لڑکیوں، اداکاروں اور سیکس ورکرز کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ ھنٹر او فیرل تھیئٹر کو پبلک سیکس کا ”کارنیگی ھال“ قرار دیتے ہیں۔

لِسل اومین کیس لاء:۔

لِسل اومین کا تعلق ایک مڈل کلاس خاندان سے تھا۔ وہ ایک کالج کی طالبہ تھی جو بدقسمتی سے غلط لوگوں میں گھر گئی تھی۔ لِسل اومین ایک گمنام لڑکی تھی اور شاید عمر بھر گمنام ہی رہتی لیکن اُس کے جرم اور معصومیت کے سوال نے قانون کی تشریح پر انمٹ نقوش چھوڑے تھے۔ ھنٹر تھامپسن نے اِس کیس میں جاندار متحرک کردار ادا کیاتھا جس کی وجہ سے اِس مقدمے کا دوبارہ ٹرائل ہوا اور آخرِ کار، ھنٹر کے وکلاء دوستوں کی تحریک رنگ لے آئی تھی۔

لِسل اومین پر نقب زنی اور ایک پولیس افسر کے قتل کا الزام تھا جو اُس نے نہیں کیا تھا۔ چونکہ ایک پولیس والے کا قتل اُس کے ساتھی کے ہاتھوں سر زد ہو گیا تھا اور وہ خود قتل کے دوران قاتل کے ساتھ نہیں بلکہ پولیس کی حراست میں تھی۔ اور قتل کے موقع پر، لِسل کو پولیس نے گرفتار کر کے اپنی گاڑی میں ہتھکڑی لگا کر بٹھا رکھا تھا۔ تصور کریں سو سے زیادہ مسلح پولیس آفیسر ایک کرائم سین پر چڑھ دوڑتے ہیں جہاں ایک مفرور بھی پولیس کی گولی سے قتل ہو جاتا ہے اور ایک پولیس آفیسر بھی۔ لیکن ڈینور پولیس پہلے سے گرفتار لِلسل اومین پر قتل اور نقب زنی کی فرد جرم عائد کر ڈالتی ہے جو اُس نے نہیں کیا تھا۔

ھنٹر نے اس معصوم لڑکی کے لئے ایک باقاعدہ قانونی جنگ کی جس کی وجہ سے کیس کا ری ٹرائل ہوا اور لِسل مقدمے سے بری ہو گئی ورنہ وہ عمر جیل میں گل سڑجاتی۔

(https://www.vanityfair.com/news/2004/06/innocent-murderer-200406)

گرینیڈا پر حملہ: وینزویلا کے ساحل سے سو میل کی دوری پر، واقع چھوٹے سے ملک گرینیڈ ا پر 25 اکتوبر 1983 کو امریکہ نے دوسرے 6 کیریبئین اتحادیوں سے مل کر حملہ کر دیا تھا جسے 1974 میں برطانیہ سے آزادی ملی تھی۔ ھنٹر نے اس مہم کے دوران فوری طور پر گرینیڈا کا دورہ کیا تھا۔ نیویارک میں،اقوامِ متحدہ کے پلازا ہوٹل کے لاؤنج میں ایک شامی سفارت کار نے مجھے کئی ہفتے بعد بتایا: یہ ایک اور کاؤ بوائے فلم تھی جس نے ثابت کیا کہ امریکی سوچنے کی بجائے گولی مارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گرینیڈا پر حملے کے متعلق متضاد آراء کی کوئی کمی نہ تھی۔ کاسترو نے،گرینیڈا میں ”نیو جیول موومنٹ“ کے روحِ رواں مورس رُوپرٹ بشپ کو، نو ملین ڈالر کی امداد دی تھی تا کہ جزیرے پر دس ہزار فٹ لمبے رن وے کے ساتھ ایک نئے ایرپورٹ کی تعمیر ہوسکے۔ اِسے ”جنونی گن بوٹ سفارت کاری“ سے لے کر، مَنر و ڈاکٹرائن کی ایک التوا کے بعد تجدید تک سب کچھ کہا جاتا تھا۔ میامی ایرپورٹ پر ایک امریکی تاجر نے کہا کہ ہم نے ان حرامزادوں کو سبق سکھا دیا ہے۔ اب فیڈل کاسترو، دوبارہ اِس طرح کی چال چلنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔ امریکی نصف کرّہ زمین پر، جو کوئی بھی نام نہاد انقلابی قبضے کی کوشش کر سکتے ہیں یہ اُن کے لئے ایک تیز اور طاقت ور انتباہ تھا۔ ھنٹر لکھتا ہے کہ،”گرینیڈا پر حملہ کم خطرات اور کم قیمت پر زیادہ بڑی کامیابی والا آپریشن تھا جس کا ہر ویسٹ پوائینٹ گریجوایٹ خواب دیکھتا ہے۔ جزائر غرب الہند کے ایک چھوٹے جزیرے پر،امریکی اسلحے کی ساری فائر پاور جھونک دیں اور اِسے ایک عظیم فتح قرار دے ڈالیں:۔

پلے بوائے میگزین بھی سان فرانسسکو کی اِس ہر دلعزیز اور مرغوب جگہ کی تعریف کرتا رہا ہے۔ 1969 میں مِچل برادرز نے یہاں ہارڈ کور سیکس فلموں کی نمائش کا آغاز کیا تھا۔ شروع میں اِن فلموں کا دورانیہ 15 منٹ کا ہوتا تھا جنہیں ”لُوپس“ کہا جاتا تھا۔ اپنے وقت کی مشہورِ زمانہ سیکس فلموں کے اداکار عورتوں اور مردوں کا جھرمٹ یہاں دیکھنے کو ملتا تھا۔ ھنٹر لکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر خوبصورت لڑکیاں غریب اور مڈل کلاس خاندانوں سے قسمت آزمائی کرنے یہاں آتی تھیں۔ چندہی کامیاب ہو پاتی تھیں اور خوب دولت اور شہرت سمیٹ لیتی تھیں۔ جبکہ اکثر راستہ بھٹکنے پر سیکس ورکر بننے پر مجبور ہو جاتی تھیں۔

ھنٹر لکھتے ہیں: ”کہ ان لڑکیوں میں وہ شہوانی اور فحش چمک ہوتی ہے جو صرف دو ہزار راتوں میں سرِعام عریاں ناچنے کے بعد آتی ہے۔ جِنسی کاروبار کرنے والے ایک دوسرے کو فوراً پہچان لیتے ہیں۔ انہوں نے ٹرپل ایکس برانڈز پر سواری کی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں برانڈ بھی ان پر سوار ہو چکا ہوتا ہے۔“ ھنٹر ایک عریاں رقاصہ اور سیکس فلم سٹار بامبی کا ذکر کرتے ہیں: بامبی سیکرامینٹو کے ایک متوسط گھرانے کی نہایت خوبصورت لڑکی تھی۔ اُس کا پیکر ایک شاندار جسم اور بیمار حِس مزاح کا امتزاج تھا۔ مجھے بامبی پسند تھی اور میں نے اُسے او فیرل میں سٹار بننے میں مدد کی تھی، جہاں وہ ایک رات میں ہزار ڈالر کما لیتی تھی۔

خود بامبی اپنے بارے میں کہتی ہے کہ مرد میری وجائنا دیکھنا چاہتے ہیں اور مجھے کسی خوفناک شے سے جنسی فعل کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اِسی وجہ سے وہ مجھے پیسہ دیتے ہیں اور اِسی وجہ سے میں یہ سب کرتی ہوں۔ او فیرل کے مالکان مِچل برادرز بارے لکھتے ہیں: ” جِم اور آرٹی مِچل بھائیوں کی جوڑ ی کا دنیا میں ظہور ایک عجیب و غریب بھائیوں کی جوڑی کے طور پر ہوا تھا۔ مجھے اُن دونوں سے محبت تھی مگر سیکس بزنس نے انہیں پاگل بنا دیا تھا۔ انہوں نے سیکس بزنس سے لاکھوں ڈالر کمائے۔ جب انہیں ننگی لڑکیوں پر ہاتھ پھیرنے اور بدعنوان سیاست دانوں اور پولیس والوں کی خدمت سے فرصت ملتی تو آئی آر اے کو اسلحہ سمگل کرتے تھے۔ لیکن وہ دلکش اور نفیس نہیں تھے۔“ ۔

ھنٹر تھامپسن او فیرل میں بظاہر نائیٹ مینیجر تھے مگر اُن کا اصل کام ” مِچل برادرز“ کو جیل یاترا سے بچائے رکھنا تھا جو ہر گز آسان نہ تھا۔ سان فرانسسکو کی درپردہ سیاست غداری، رشوت ستانی سے چلنے والا بازنطینی سانپوں کا وہ گڑھا تھا جو کسی بھی نسل کے دماغوں کو حیران کر سکتا تھا۔ سیاسی طاقت کے ارتکاز پر نہایت چلبلا جملہ کستے ہیں جو اردو میں ناقابلِ بیان ہے۔

All political power comes from the barrel of either guns, pussy, or opium pipes, and people seem to like it that way. The charm of the city is legendary to the point of worship all over the world, with the possible exception of Kabul, New Orleans, and Bangkok.

Comments are closed.