بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان میں نظام انصاف کو لے کر آئے دن بحث و مباحثہ ہوتا رہتا ہے۔ اس میں عام دلچسبی اس وقت بڑھ جاتی ہے ، جب نظام انصاف کے حوالے سے پاکستان کی عالمی رینکنگ پر کوئی تازہ ترین رپورٹ آتی ہے۔ عموماً اس طرح کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کے نطام انصاف کا نمبر بہت نیچے ہوتا ہے۔ اس باب میں کئی عالمی اداروں کی طرف سے اعدا دو شمار پیش کیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کو دیکھ کر پاکستان کے اندر عدالتی نطام کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور عموما عدالتی نظام کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے نطام انصاف کی حالت زار اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والی عالمی رینکنگ میں عدالتوں کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ بات پاکستان پر بھی صادق آتی ہے ۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان جیسے ملکوں میں قانون نافذکرنے والے اداروں کا رول بھی بہت بنیادی ہوتا ہے۔ مگر منطقی اعتبار سے یہ تمام ادارے آئین و قانون کی روشنی میں عدالتوں کے تابع ہی ہوتے ہیں، یا کم از کم آئین و قانون اور اصول کی روشنی میں یہ مانا جاتا ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ نظام انصاف کی بات کرتے ہوئے عموماً عدالتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور جب کبھی قانون کی حکمرانی یا انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی بات ہوتی ہے تو عدالتوں کی طرف ہی دیکھا جاتا ہے، اور عدالتوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں گی ۔
جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بات ہوتی ہے تو آئین و قانون کی رو سے ان اداروں میں پولیس سر فہرست ہوتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا میں شاید ہی تیسری دنیا کا کوئی ترقی پذیر ملک ہو، جس میں پولیس کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے سلوک پر عوام اور اداروں کو شکوہ نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کو قانونی فرائض کی انجام دہی کے لیے براہ راست عوام کے ساتھ ڈیل کرنا پڑتا ہے۔ قانون کی حکمرانی، جرائم کی روک تھام، اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لیے پولیس کو عوام کے ساتھ براہ راست معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ملک کی اچھی یا بری کارکردگی کو اکثر اوقات عوام کے تاثرات کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ رائے عامہ پولیس کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ان کے سلوک کی عکاسی کرتی ہے، جس کااظہار آگے چل کر عالمی رینکنگ میں بھی ہوتا ہے۔
دنیا میں پولیس کی رینکنگ اوراس ادارے کی اچھی یا بری کارکردگی کے حوالے سے مختلف عالمی ادارے، تنظیمیں، اور ریسرچ کرنے والے گروپ اپنے اپنے اعداد وشمار دیتے رہتے ہیں۔ ان اعدادو شمار کی روشنی میں کسی ملک کے لیے عالمی رائے عامہ تشکیل پاتی رہتی ہے۔ اس رائے عامہ کی روشنی میں بڑے بڑے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ان میں کسی ملک میں سکونت اختیار کرنے، سرمایہ کاری کرنے یا سیر و سیاحت کے بارے میں فیصلے کیے جاتے ہیں۔ ان سب فیصلوں کا دارمدار کسی ملک کی امن و امان کی صورت حال اور قانون کی حکمرانی کی حالت پر ہوتا ہے۔
اس طرح کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق آج کل سب سے زیادہ بد عنوان، نااہل قانون کی حکمرانی کے فقدان کے حوالے سے پہلے دس ملکوں کی فہرست میں پہلا نام کینیا کا آتا ہے۔ ان اعداد وشمار میں خود کینیا کی مقامی آبادی کے سروے کا نتائج بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس سروے کے مطابق اس ملک کے بانوے فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ کینیا میں پولیس قانون کی حکمرانی کو نظرانداز کرتی ہے، شہریوں سے رشوت لیتی ہے، اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران قانون کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔بد ترین صورت حال والے ممالک کی اس فہرست میں پہلے پانچ نمبروں میں کینیا کے علاوہ برما، عراق، صومالیہ اور افغانستان کا نمبر آتا ہے۔ ان ممالک میں مشترک چیز جمہوری کلچر کی عدم موجودگی، قانون کی حکمرانی کا فقدان، رشوت ، سفارش اور آمریت پسندی کے رحجانات کا غالب ہونا شامل ہے۔ اس فہرست کو مزید آگے بڑھاکر دیکھا جائے تو ان پانچ ملکوں کے بعد اس فہرست میں سوڈان، روس، پاکستان، ہیٹی اور میکسیکو جیسے ممالک شامل ہو جاتے ہیں۔ اس طرح اس باب میں پاکستان آٹھویں نمبر پر آتا ہے۔
اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو دنیا کی بہترین پولیس کی رینکنگ بھی مختلف اداروں اور تنظیموں کی طرف سامنے آتی رہتی ہے۔ اس رینکنگ کے مطابق اس وقت سکاٹ لینڈ یارڈ پولیس کو دنیا میں نمبر ون قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس پولیس فورس کے اندرونی ڈسپلن کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ دوسری وجہ اس کی شفافیت ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ اس پولیس کے پاس ایک لچکدار نظام ہے، جس میں ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ کینیڈین پولیس کو اس رینکنگ میں دوسرے نمبر پر رکھاجاتا ہے۔ اس پولیس کو رائل مونٹ کینیڈین پولیس کہا جاتا ہے، جس کے پاس غیر معمولی کارکردگی کا سو سالہ تجربہ ہے۔ لیکن اس کو دنیا کی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر آنے کی وجہ اس کا پولیس کالج ہے، جہاں پولیس کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس کالج میں پولیس کو قانون کے نفاذ اور عوام کی خدمت پر علمی اور عملی تربیت دی جاتی ہے۔ اس ریکنگ میں نیدرلینڈ کو تیسرے، فرانس کو چوتھے، جاپان کو پانچویں، امریکہ، اسٹریلیا، جرمنی، چین اور سویڈن کو بالترتیب چھٹے، ساتویں ، آٹھویں، نویں اور دسویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔
ان سب ممالک کے پولیس ماڈل تھوڑے بہت ایک دوسرے سےمختلف ہیں۔ ان کےکام کرنے کے طریقہ کار، ڈسپلین، اور تعلیم و تربیت میں تھوڑا بہت فرق بھی ہوتا ہے، لیکن سب کا مشترکہ فوکس اورنقطہ ماسکہ قانون کی حکمرانی ہے، جس کا مقصد عوام کی خدمت کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ہے۔
اس طرح اگر دیکھا جائے تو بظاہر پوری دنیا میں عوام کی خدمت اور ان کی حفاظت پولیس کا بنیادی فرض قرار دیا جاتا ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہے، جس کا مظاہرہ روز مرہ کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاںرشوت،سفارش اور قانون کی حکمرانی کو نظر اندز کرنا تو عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ سر عام ایسے واقعات ہوتے ہیں، جن میں پولیس کو عام آدمی کے ساتھ اتنا ہی غیر انسانی اور بسا اوقات وحشیانہ سلوک کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں ملک میں مختلف حصوں میں اس طرح کے واقعات ہوئے ہیں، جن کا اگرچہ اعلی سطح پر نوٹس لیا گیا اور ان واقعات میں ملوث اہل کاروں کو سزا ئیں بھی دی گئی ہیں، لیکن اس طرح کے ” کاسمیٹک ” اقدامات سے اس پولیس کلچر میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے، جس میں عوام کے ساتھ بد تمیزی ، غیر قانونی حرکات اور تشدد جیسےواقعات عام ہیں۔
اس طرح کے کلچر کو لوگ انگریز سرکار یا نو آبادیاتی نظام کی دین قرار دے کر نظر انداز کر دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکلے ہوئے پون صدی گزر چکی ہے، اور اس عرصے میں پولیس میں بھی بے شمار تبدیلیاں آئیں ہیں، قواعد و ضوابط بدلے ہیں، مگر پولیس کے ساتھ ظلم ، تشدد، رشوت ستانی، بد عنوانی، بد تمیزی کے جو تصورات جڑے ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، بلکہ ان چیزوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی درست ہے کہ نو آبادیاتی نظام کی بہت ساری باقیات ہیں، جن کا سامنا ہے، مگر سب سے بڑے بات پولیس کے مروجہ کلچر اور اخلاقیات میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے، جس کے بغیر بہتری کی توقع عبث ہے۔
♠