بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔چوتھا حصہ


مہرجان

نوآبادیاتی ریاست پاکستان کو پاکستانیت کی آکسیجن جہاں بیرونی طور پہ سامراجی طاقتوں سے مل رہی ہے اسی طرح اندرونی طور پہ پنجاب پاکستانیت کو قائم دائم رکھنے لیے اس ریاستی مشینری کو نہ صرف سب سے زیادہ ایندھن فراہم کررہا ہے بلکہ اس کی جڑیں بھی پنجاب میں پیوست ہیں ،جنہیں سارتر کی زبان میں جھوٹی آزادی کا چربہ نصیب ہوگیا ہے بابا مری ایک دوراندیش سیاسی مفکر کی طرح یہ جانتے تھے کہپنجابی یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ افغانستان ، کشمیر اور بلوچستان سے اپنا ہاتھ کھینچ لےاس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں ، پنجاب کے سپاہی ( پیشہ ور قاتل) سے لے کر دانشور ( پیشہ ور لکھاری) تک پاکستان کی سالمیت بشمول بلوچستان کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے دانشورسپاہی کی تنخواہ سے بڑھ کر کام کرتا ہے۔

پہلے بھی کہا تھا یہاں پھر سے دہرا دیتا ہوں کہ پرویز ہود بھائی جو لبرل دانشوروں کے امام مانے جاتے ہیں، حالیہ دنوں گوادر سے واپسی پر بلوچستان کے حوالے سے اک کالم معروف انگریزی اخبار کے لیے لکھ کر پاکستانیت کی امامت اور لفظی و کھوکھلی وکالت کر کے قابض ملٹری آفیسر کو کاکول کا ذہین گریجویٹجبکہ زمین زادوں کو دہشت گردکابڑے طمطراق انداز میں خطاب عطا کیا ۔اسی طرح عاصمہ جہانگیر جو انسانی حقوق کے حوالے جانی پہچانی آواز مانی جاتی تھی وہ زمین زادوں کے لیے ایک قابض ریاست کی طرف سے ملٹری آپریشنز کے حق میں تھی۔ بقول عاصمہ جہانگیر جہاں تک بی ایل اے کے ہار ڈلائنرز کا تعلق ہے ہم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ فوج ان پہ آپریشن نہ کریںاور لندن کے ایک کانفرنس میں جب ان سے مسنگ پرسنز کے حوالے سے سوال کیا گیا تو اسے پاکستان کا اندورنی مسئلہ قرار دے دیا۔

، بائیں بازو کے لکھاری جنہیں فلسطین پہ مارکسزم کی راہ نہیں سوجھتی وہ بھی اکثر و بیشتر زمین زادوں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرکے چین جیسےسامراج کے لیے آہیں بھرتے ہیں ،اس لیے ان سب کی تنخواہیں انکی مزدوری سے بڑھ کر ہوتی ہیں ۔ دراصل اس قسم کے دانشور نو آبادیاتی نظام و ریاستی جبر کو نوآبادیاتی ریاست ہی کے آئین ، قانون ،عدالت کے قالین میں لپیٹ کر محکوم کے ذہن کو یرغمال بناکر بنیادی تضادکو محو کرنے کے لیے دن بھر قلم کی مزدوری کرتے رہتے ہیں۔ اس پورے تناظر میں اسی سرزمین سے کبھی کبھار موسمی کھمبیاں پیشہ ور لکھاری کی صورت میں بھی اگتی ہیں جن کا نظریات سے کوئی خاص تعلق یا واقفیت نہیں ہوتی بلکہ بقول سارتر ان کے منہ میں بلند آہنگ فقرے ٹھونسے جاتے ہیں یا شاندار چہچہاتے الفاظ بھردیے جاتے ہیں جو دانتوں میں چپک کر رہ جاتے ہیں۔انہیں رٹے رٹائے جملوں سے نظریات کی آڑ میں ریاست کے لیے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری نبھا کر اس طرح کی مزدوری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ قومی شعور بنیادی تضادسے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے تفاوات میں الجھ کر رہ جائے۔

درحقئقت نوآبادیات میں نو آبادکار کے خلاف جنگ بنیادی تضادکو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے ، بابا مری بلند آہنگ فقروں یا پاکستانی طرز سیاست سے نہیں بلکہ اپنے وسیع تر مشاہدات و قومی تحاریک کے تجربات کی روشنی میں چھوٹی چھوٹی جنگوں (طبقاتی /نسلی) کے بجائے بلوچ قوم کو ایک بڑی جنگ یعنی نوآبادیاتی ریاست( ایکسٹرنل کالوناہزیشن) سے جنگ کی تیاری کی طرف لے کر گئے جس جنگ کی فتح یابی میں طبقاتی اور نسلی امتیازات (انٹرنل کالونائزیشن) کا حل موجود ہے، وہ اس بات کو شد ومد سے دھراتے رہے کہ بادشاہوں کی گود میں بیٹھ کر سرداروں کی مخالفت کرنا دراصل چوھدری کو بچانے کا ایک حربہ ہے۔ جس وطن میں ایک ہی قوم کے نواب کو بغیر کفن کے ریاستی بندوق کے سائے تلے دفنایاجائے اورکسی مڈل کلاس کا نعرہ لگانے والوں کو ان کی وفاداری کے صلے میں وردی کے زور پہ مسندوں پہ بٹھایا جائے تو وہاں بنیادی تضاد ہمیشہ قومی ہوا کرتا ہے۔

جہاں تک بنیادی تضاد کے حوالے سے پیشہ ور قاتلوں اور پیشہ ور لکھاریوں کے فکر و کردار کی بات ہے ،اس کو اگر آسان لفظوں میں سمجھا جائے تو ہمیں بطور مثال ایسے ریاستی ٹارچر سیلز کو ذہن میں رکھنا ہوگا جو بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں، جس میں بلوچوں کو بلوچیت کے نام پر بھی جنگی قیدی بنا کر رکھا جاتا ہے،ان اذیت گاہوں میں ریاست کے کچھ کارندے ان کو جسمانی و ذہنی اذیت دینے کا کا باعث بنتے پیں جبکہ انہی میں سے کچھ ریاستی کارندے ان کے پاس جاکر ایک دو سگریٹ انہیں سلگا کر دیتے ہوئے ان کی دلجوئی و ہمدردی کرتے ہیں اور انہیں بڑی دانشوری کے انداز میں سمجھاتے رہتے ہیں کہ آپ ان ریاستی اداروں کی بات مان لیں یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں ان سے کسی نہ کسی حوالے سے سمجھوتا کرلیں۔ مزاحمت کا اکیسویں صدی میں کوئی فائدہ نہیں ، تاریخ پلٹ کر واپس نہیں آتی ،ریاست ایک ایسی دیوار ہے جہاں سر ٹکرانے سے سر ٹوٹ جائےگا، علیحدگی آزادی جیسا فضول تصور ذہن سے نکال لیں ، اس دور میں تعلیم شعور و ترقی ہی سب کچھ ہے جس پر سرداروں نے قدغن لگایا ہوا ہے،اگر اپنا نہیں تو اپنے ماں باپ ، بہن بھائی یا بچوں کا ہی سوچ لیں ، ہم سب ایک ہیں ، ایک ہی مذہب سے ہمارا تعلق ہے ،ان دہشت گرد سرمچاروں کے ہاتھوں صرف اپنا نہیں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کی تباہی کررہے ہو۔

اذیت خانوں میں اب یہ دونوں کردار ایک جو جسمانی و ذہنی اذیت کا باعث بن رہا ہے دوسرا کردار جو دلجوئی اور دانشوری بکھیر رہا ہوتا ہے ،اپنے جوہر یعنی پاکستان کی سالمیت اور نوآبادیاتی حوالے سے ایک ہی ذہنیت کے مالک ہیں فرق صرف طریق کار کا ہے ایک کے پاس بندوق ہے جو ایک پیشہ ور قاتل کی طرح بندوق کی نلی سے قبضہ کو برقرار رکھے ہوئے ہے تو دوسرا ایک پیشہ ور لکھاری کی طرح جس کے پاس قلم ہے ،ریاستی بیانیہ سے تعلیم و شعور کے نام پہ فنکاری کے ذریعے اذہان کو یرغمال بنا کر محکوم قوم کو اس قید خانہ میں یہ یقین دلارہے ہوتے ہیں کہ بنیادی مسئلہ نوآبادیات (قیدخانہ ) کی نہیں بلکہ آپ کی جہالت ، انتہاپسندی و دہشت گردی ہے ۔

اگر حقیقی طور پہ دیلھاجائے تو یہ دونوں کردار نو آبادیاتی ریاست پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ،جو محکوم قوم کی ذہن سازی بندوق و قلم کے ذریعے کررہے ہوتے ہیں ،گرامشی کے الفاظ میں ان میں سے ایک کردار نوآبادیاتی ریاست کے پولٹیکل سوسائٹی کا حصہ ہوتا ہے اور دوسرا کردار ریاست کی سول سوسائٹی کو آکسیجن فراہم کرتا رہتا ہے۔ نو آبادیاتی ریاست پاکستان کو جسے محکوم اقوام کا قید خانہ کا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ،اس ریاست میں بنیادی تضاد حاکم و محکوم اقوامکی صورت بہر حال موجود ہے ۔

درحقیقت محکوم کی نظر نوآبادیاتی اسٹرکچر میں ہمیشہ سے پرنسپل اینیمی پہ ہوتی ہے ،جو اسے ہر حوالے سے یرغمال بناچکا ہے محکوم نہ صرف حاکم کے براہ راست تشدد کا شکار ہوتا ہے بلکہ اسٹرکچرڈ و علمی تشدد کا بھی نشانہ بنا ہوا ہوتا ہے، جو محکوم کی سادگی ومعصومیت (جو نوآبادیاتی چالاکیوں سے متضاد ہے) کو روند دیتا ہے ، جسے بہت سے فلاسفر سائیکالوجیکل تھریٹ کا نام دیتے ہیں ۔محکوم اسی تضاد کو لے کر آگے بڑھتا ہے آج گر بلوچ ، پنجابی تضاد زمینی حقیقت کی صورت موجود ہے یا اس پورے تناظر میں بلوچ پنچابی کو پرنسپل اینیمی ڈکلئیر کرچکا ہے ،تو اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں ہے کہ بلوچ پنجابی سے تفاوت اس بنیاد پہ کرتا ہے کہ بلوچ ، پنجابی کے مقابل اپنے آپ کو نسلی حوالے سے اعلی و برتر سمجھتا ہے اور نہ ہی بلوچ تاریخی طور پہ ایک نسل سے تعلق رکھتی ہے جس کی بنا وہ اس نسلی احساس برتری و نرگسیت ، نسل پرستی جیسے امراض کا شکار ہے۔ بلکہ بلوچ و پنجابی تضاد پنجاب کی تاریخی کردار اور بد عہدی کا ایک ایسا تسلسل ہے جس سے بلوچ بیزار ہیں۔

جن احباب ، کو اس حقیقی تضاد سے اتفاق نہیں ہیں ،انہیں اس نوآبادیاتی ریاست کے تاریخی جبر ، پنجاب کے تاریخی کردار جو بھرپور تضادات اور بد عہدیوں کے تسلسل کا ایک نام ہے اس کا ٹھنڈے دل و دماغ سے اسکی کلیت سے جوڑ کر مطالعہ کرنا ہوگا کہ آخر وہ کیا وجوہات ہوسکتی ہیں جن کی بناء پر ایک سوشلسٹ رجحانات کے حامل بلوچ نیشنلسٹ مفکر خیر بخش مری اس نتیجے پہ پہنچ گیا کہ میرے ذہن میں پنجابیوں سے اتحاد کا کوئی تصور نہیں ۔ا گرچہ بابا مری ایک سیاسی دوراندیش فلاسفر کی طرح پنجاب کی اس تاریخی کردار پہ افسوس کا اظہار بھی کرتے ہیں کیونکہ وہ قوموں اور انسانوں کی برابری پہ یقین رکھتے ہیں وہ فینن کی طرح یہ چاہتا ہے کہ تاریخی حقاہق کی روشنی میں معروضی طور پہ اپنا محاسبہ کرکے کہ انہیں آسودگی کی بجائے اپنے آقاؤں سے مزاحمت کی راہ اپنانی چاہیے تھی۔

لیکن بد قسمتی سے بقول بابا مریپنجابی نے اپنے مزاحمت سے عاری نفسیات اور تابعداری اورفرمانبردار غلامانہ مزاج کی بناء پر مہا بھارت سے لے کر پانی پت کی لڑائیوں تک شمال سے جنوب کی جانب آنے والے حملہ آوروں کی نہ صرف خدمت گذاری اور دلجوئی کرکے اپنی تاریخ بنائی ہے اور ان کے لیے سامان تعیش کا اہتمام کرکے اپنی سماجی حقیقت کو آشکار کیا ہے بلکہ اپنی سرزمین کو ان حملہ آوروں کی گزرگاہ کے طور پہ استعمال کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ یعنی پنجابی نے خدمتگاری و تابعداری اور غلامی میں آسودگی کو ترجیح دی، آج ستم ظریفی یہ ہے بقول بابا مری کہ تاریخ نے ہمیں ایک غلام کے ساتھ جوڑا ہےایسا غلام جو مزاحمت پہ یقین نہیں رکھتا اور جو غلام مزاحمت پہ یقین نہیں رکھتا ہو وہ کسی اقدار کا پابند نہیں ہوتا اور نہ بقول بابا مری اس کا کوئی دین ایمان ہوتا ہے کیونکہ کل کا روس کا مجاہد آج ان کے لیے آج کا دہشت گرد ہوتا ہے ۔

یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ میں جب بھی کسی قوم کو یا کسی طبقے کو اجتماعی طور پرنسپل اینمی ڈکلئیر کیا جاتا ہے اس کے پیچھے ایک فلسفے کی پوری دنیا ہوتی ہے افلاطون جب ریاست کی بات کرتے ہیں تو تین کلاسز بناتے ہیں جس پہ کارل پوپر نے افلاطون کو ہدف تنقید بنایا، ہیگل نے آقا اور غلام کی جدلیات پہ لکھا جس کو بنیاد بناکر فریرے سے لے کر فینن تک نے مضامین باندھے ۔ مارکس نے پوری تاریخ کو دو کلاسز کی جدوجہد کی تاریخ کہا ، فینن نے نوآبادیادتی تناظرسے طبقات کو کالے چہرے پہ سفید ماسک پہننے کی شدت کو زیر بحث لایا ، حتی کہ وجودیت کے علمبردار سارتر نے یورپ کو مجرم ٹھہرایا۔

اسی طرح بہت سے مفکرین مارکسسٹ اور مارکسسی رجحانات کے حامل دانشوروں نے حاکم و محکوم اقوام کی بات نوآبادیاتی تناظر میں رکھی ،اور اپنے اپنے میدان میں ان پہ مضامین اور کتابیں لکھیں،الغرض یہ سلسلہ افلاطون سے لے کر آج تک چلی ہے جس پہ تنقید و تمحیض ہوتا آرہاہے ۔ فلسفے کا طالب علم اس بات سے آشنا ہے کہ جب کبھی ایک طبقہ یا کسی قوم کی بات ہوتی ہے تو وہ بات من حیث الطبقہ یا من حیث القوم کی جاتی ہے یعنی اس کی کلیت کو سامنے رکھا جاتا ہے ۔ کلیت صرف اجزا کا مجموعہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ہوتا ہے، اور اجزاء کو کلیت سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔

اسی طرح بابا مری پنجاب کے تضاد کو جب سامنے لاتا ہے تو اس سے مراد پنچاب من حیث القوم یعنی پنجاب کی کلیت (تاریخئ کردار) جو سامراج کی جی حضوری سے لے کر بلوچ قوم کے ساتھ بدعہدی کا ایسا تسلسل ہے جو نوآبادیاتی ریاست کی مشینری کا ایندھن بنا ہواہے اور ان کےایماء پہ جو قتل و غارت گری ہورہا ہے کیا واقعی اس سے وہ بے خبرہے؟ , سارتر کے الفاظ میں تم جو اتنے آزاد خیال ہو اور نرم دل ہو ، تم جو تصنع کی حد تک تہذیب کا احترام کرتے ہو تم اب بڑی آسانی سے یہ بھول جاتے ہو کہ تماری بہت سی نوآبادیاں ہیں جن میں تمہارے نام پر انسانوں کا قتل عام ہوتا ہے۔

جاری ہے۔

پہلا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

دوسرا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ۔حصہ دوم

تیسرا حصہ

بابا مری بطور سیاسی فلاسفر اور بلوچ قومی مقدمہ

Comments are closed.