بیرسٹر حمید باشانی
عام تاثر یہ ہے کہ نئی پیڑی کے لوگ جدید علوم میں ہم سے آگے ہیں۔یہ جدید دور کے لوگ ہیں۔ ان کوجدید ٹیکنالوجی تک رسائی ہے۔ ان کواس ٹیکنالوجی کے جدید شہکار” سوشل میڈیا ” کا فائدہ حاصل ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی برکات اور جوان نسل کی اس تک رسائی ایک ایسی حقیقت ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن کیا صرف ٹیکنالوجی تک رسائی اور اس کی سمجھ کافی ہے ؟ اور کیا جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت کا مطلب زیادہ علم و دانش ہے ؟ اس کا دا رمدار اس بات پر ہے کہ آپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں کس چیز کو فوکس کرتے ہیں۔ اور سائنس و ٹیکنالوجی کی کوئی خاص شکل آپ کی کس سمت میں رہنمائی کرتی ہے۔ اور آپ عملی زندگی میں سائنس و ٹیکنالوجی کو کس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ اس کے استعمال کا سکوپ بہت ہی وسیع ہے۔ زندگی کی مادی ضروریات کے علاوہ آپ سائنس و ٹیکنالوجی کو علم و ادب کے فروغ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔یا ایسے سماجی اور فلسفیانہ علوم کے حصول کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جو علم و دانش میں اضافے کا باعث بن سکتے ہوں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا عام ہونے کے بعد سماج میں شعر و ادب سے دلچسبی بڑھی ہے۔ شعر و شاعری کے قواعد و ضوابط اور کافیہ و ردیف سےمتعلق عام آدمی کے علم میں اضافہ ہوا ہے۔ افسانوی ادب متعارف ہوا ہے۔ جوان نسل کو سعادت حسین منٹو اور کرشن چندر کے افسانے پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ نئے شاعر و افسانہ نگار پیدا ہوئے ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں ایسے شعر و ادب کی بھر مار ہے، جو کسی بھی اعتبار سے شعر و ادب کے بنیادی میعار اور قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتا۔ جو چیز شعر و شاعری یا افسانہ نہیں بھی ہے، مصنف یا شاعر اس کو افسانہ یا شاعری منوانے پر بضد ہے۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا کی براہ راست عوام تک رسائی یا لکھاری اور عوام کے درمیان میں کسی مدیر کی عدم موجودگی ہے۔ عوام کو اس طرح کے شعر و ادب سے بھی روشناس کروایا جا رہا ہے، اور سوشل میڈیا کے اعجاز سے وہ اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے سوشل میڈیا جیسے حاصلات کی اہمیت اپنی جگہ ، مگرجدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے سائے میں زندہ رہنے کے باوجود ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے ہاں علم کے میعار میں حیرت انگیز کمی ہوئی ہے۔سوشل میڈیا پر کچھ وقت گزارنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار پستی اور گراوٹ کی کن حدود کو چھو رہا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ کو ایسی کوئی تحریر خال خال ہی نظر آئے گی، جس میں زبان و بیان کی بے شمار غلطیاں نہ ہوں۔ بات اگر ٹائپو کی ہو تو شاید اس کا کوئی جواز بھی ڈھونڈا جا سکتا ہو۔ لیکن یہاں بات ٹائپو سے بہت آ گے کی ہے۔ یہ غلطیاں اس بات کا خود ثبوت ہوتی ہیں کہ لکھنے والے کو زبان کی بہت بنیادی چیزوں سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ ح اور ھ کا فرق مٹ گیا ہے۔ مزاحمت اور مزمت ایک ہی چیز بن گئی ہیں۔
یہ صرف اردو زبان کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا، ہمارے ہاں کی دیسی انگریزی میں تو غلطیوں کا شمار ہی ممکن نہیں ہوتا۔ اگر آپ ایک مکمل پیراگراف یا مضمون لکھیں اور اس میں ایک آدھ غلطی نکل بھی آئے تو شاید اس کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہو۔ لیکن اپ اگر آپ صرف بیس تیس الفاط پر مشتمل ایک یا دو سطری تحریر لکھیں اور اس میں سے آدھے سے زیادہ الفاظ غلط ہوں تو اس سے آپ معیار تعلیم پر انگلی اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ عام تحریر تو ایک طرف ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کےپرو فائل تک میں بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں۔ ۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے اس موقف کا از سر نو جائزہ لیں کہ نئی نسل چونکہ ٹیکنالوجی سے جڑی ہے اس لیے وہ علم و تعلیم کے معیار میں اگلی پیڑی سے بہتر ہے تو یہ ایک مغالطہ ہے، جو جتنی جلدی دور ہو سکے اتنا بہتر ہے۔ جدید ٹیکنالوجی پوری دنیا میں متعارف ہوئی، مگر علم و دانش کے میدان میں اس کا غلط استعمال یا نا جائز استفادہ صرف ہمارا المیہ ہے۔
اس کے بر عکس مغرب میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے معیار تعلیم بہتر ہوا ہے، اور دن بدن بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے معیار تعلیم کا تقابل اگر ٹیکنالوجی کے استعمال سے پہلے دور سے کیا جائے تو لگتا ہے کہ وہ معیار تعلیم آج کے دور سے بہتر تھا۔ حالاں کہ اس زمانے کے اعتبار سے باقی دنیا کے مقابلے میں ہمارا میعار تعلیم نسبتا انتہائی پست تھا۔ ہمارے دور میں جسے آپ ٹیکنالوجی کہتے ہیں، انتہائی سادہ تھی اور ہمارے پاس اس کی بہت ابتدائی اشکال تھیں۔
بہرحال یہ تو بات ہو رہی ہے صرف علم و دانش یا معیار تعلیم پر سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے، لیکن سوشل میڈیا کے زندگی کے دوسرے شعبہ جات پر اثرات اتنے غالب ہیں کہ ان سے انکار ممکن نہیں۔۔ کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سماج میں پراگندگی، خلفشار یا اضطراب پھیل رہا ہے۔ یہ کہنے والے لوگ شاید خود ضرورت سے زیادہ اضطراب کا شکار ہیں، لیکن اگر ان لوگوں سے اتفاق نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی کم ازکم یہ ماننا پڑے گا کہ سوشل میڈیاعلم و تعلیم سے طالب علموں کی توجہ ہٹانے کا باعث ضرور بنتا ہے، جس کا اثر مجموعی طور پر معیار تعلیم پر پڑنا نا گزیر ہے۔ عام سماج میں اسے توجہ ہٹانے سے بھی آگے جاکر پیداواری سرگرمی میں کمی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ یہ غلط معلومات اور اطلاعات کا پھیلانے کا باعث ہے۔ لیکن یہ الزام زیادہ تر حکمران اشرافیہ کی طرف سےہی لگایا جاتا ہے، جو صرف سوشل میڈیا ہی نہیں روایتی میڈیا پر بھی اس طرح کے الزامات لگاتی رہی ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ تیسرا الزام یہ ہے کہ سوشل میڈیا میں مسئلہ صرف” فیک نیوز” ہی کا نہیں بلکہ کم علمی اور جہالت پر مبنی معلومات و خیالات کا پھیلاو عام ہے۔ میڈیا پر گردش کرتے مواد کو بغیر کسی تحقیق و تصدیق شئیر کیا جاتا ہے۔ اس لیے بغیر کسی ریفرنس کے مواد عام ملتا ہے، جس میں بے بنیاد اور گمراہ کن کہانیاں زیادہ ہوتی ہیں۔ ۔ کچھ لوگوں کے نزدیک سوشل میڈیا کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سماج میں ایک طرح کا سپر فیشل کنکشن پیدا کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر چوتھا الزام یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایڈ کشن پیدا کرتا ہے۔ یہ ڈیپریشن اور اینگزائٹی پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگوں کو سیلف پروموشن کی عادت میں مبتلا کرتا ہے، جس کا اظہار سوشل میڈیا پر عام ہے۔ سوشل میڈیا اس وقت فراڈ اور دھوکہ دہی کے لیے بھی ایک عام ہتھیار بن گیا ہے، دوسرے کی تحریر کو اس طرح شئیر کیا جاتا ہے کہ اس سے اپنی تحریر ہونے کا تاثر ابھرتا ہے۔ مصنف کا نام یا تو لکھا ہی نہیں جاتا یا آخر میں لکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح کئی اقوال اور بے بنیاد باتیں بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ منسوب کی جاتی ہیں۔ گویا یہ میڈیا جعلساز اور جھوٹی شہرت کے پیاسے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ان تمام قباحتوں کے باوجود سوشل میڈیا کی برکات اور فوائد اس کےنقصانات سے ہزارں گنا زیادہ ہیں۔مسئلہ سوشل میڈیا نہیں، اصل مسئلہ اس ٹیکنالوجی کے درست استعمال کا ہے۔
♠