کوئین وکٹوریہ اور منشی عبد الکریم کی سچی کہانی 

زکریاورک ، ٹورنٹو

ستمبر2017ء میں برطانیہ کینیڈا اور امریکہ میں ایک ڈاکو منٹری وکٹوریہ اینڈ عبدل کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔ اس ڈاکو منٹری کو ہندوستانی قلم کار مس شرابانی باسو کی کتاب وکٹوریہ اینڈ عبدل کی بنیاد پر بنا یا گیا تھا۔ یہ کتاب2010میں پہلی بار منصہ شہود پر آئی اب اگست 2017 میںیہ تیسر ی بار زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ مستند حوالوں سے لکھی کتاب ، دلچسپ اور حقائق سے بھرپور داستان ہے جس کو قلم بند کر نے کیلئے مصنفہ نے تین ملکوں کا سفر کیا تھا۔ کہیں بھی فکشن نہیں ہے۔ کہیں کہیں محلاتی سازشوں اور رنگ و نسل ،زبان کے تعصبات کو ظاہر کیا گیا ہے۔ 

قیصر ہند ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو ہندوستانی کھانے مرغوب تھے خاص طور پر چکن کری (مرغی کا شوربے دار سالن)بریانی اور دال۔ یہ مصالحے دار ہندوستانی کھانے لنچ کے وقت ہندوستان سے آئے ملازم ملکہ وکٹوریہ کیلئے ہرروزتیار کرتے تھے۔ ان میں سے ایک24 سال کاہندوستانی آگرہ کی جیل کاکلرک عبد الکریم تھاجو ملکہ کی گولڈن جوبلی (1887)کے موقعہ پر گھریلو ملازم کے طور پر لندن لا یا گیا تھا۔گولڈن جوبلی میں پچاس بادشاہوں اور شہزادوں نے شرکت کی تھی۔ جلد ہی وہ ملکہ کا قابل اعتمادمصا حب اور صائب الرائے مشیر بن گیا۔اعتماد کی یہ حالت تھی کہ ملکہ کے صیغہ راز میں لکھے گئے ، امور مملکت سے متعلق تمام خطوط منشی پڑھ سکتے تھے اور ہندوستانی امور میں ملکہ کو مشورے دیا کرتے تھے۔ ملکہ کے اردوجرنلز میں وہ بلاٹنگ پیپر ابھی تک تھے جو سو سال قبل منشی نے ملکہ کی تحریر پر استعمال کئے تھے۔ عبد الکریم کو منشی (ٹیوٹر)کا خطاب ملکہ نے خود دیا تھا، جبکہ انگلش میں سرکاری خط و کتابت میں اس کو انڈین سکرٹری لکھا جاتا تھا۔ 

منشی عبد الکریم اور ایمپر یس آف انڈیا ملکہ وکٹوریہ کے درمیان جن خطوط کا تبادلہ ہؤا تھا وہ ما سوا چند ایک کے تمام نذر آتش کر دئے گئے تھے۔ نیز ملکہ نے روزنا مچے ( ڈائری) میں جہاں جہاں منشی کاذکر کیا تھاملکہ کی وفات کے بعد اس کی بیٹی شہزادی بیٹرائس نے وہ فقرے بلیک آؤٹ کر دئے تھے۔ برطانوی تاریخ نو یسوں نے عبد الکریم کی تصویر برے آدمی کے طورپر رقم کی جس نے سوشل مقام حاصل کر نے کیلئے ملکہ کو بے جا استعمال کیا تھا۔مگر اس تعلق میں ملکہ بھی اتنی ہی ذمہ دار تھیں۔ 

ملکہ قیصر ہند جس کے ہاتھوں میں عنان حکومت چونسٹھ سال1837-1901تک رہی، اور عبد الکریم کا تعلق13 سال تک قائم رہا۔ اس کی صحیح صورت معلوم کر نے کیلئے لندن میں رہنے والی جرنلسٹ قصرونڈ سر گئی ، اس نے ملکہ کے گیارہ ہندوستانی جرنلز (مشق کی کاپیاں)کو دیکھنے کی درخواست کی جن میں عبد الکریم ملکہ کو اردو بولنے ،لکھنے اور پڑھنے کے سبق دیا کرتے تھے۔ باسو نے انڈین دربارروم (بینکویٹ ہال) میں منشی عبد الکریم کی پورٹریٹ دیکھیں جن میں وہ ملازم کے بجائے نوبل مین نظر آتے تھے۔ ان کے سینے پر طرح طرح کے تمغے آویزاں تھے۔ 

عبد الکریم کی پیدائش جھانسی میں1863میں ہو ئی تھی جہاں ان کے والدوزیر الدین دوا ساز یاڈاکٹر کے معاون تھے ۔ عبد الکریم اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پڑھتا ہؤا، نیز قرآن پاک حفظ کر تا ہؤا ہندوستان سے لندن آیا تھا ۔ ملکہ اور اس کے مابین جلد ہی دوستی کاتعلق قائم ہو گیا ۔ کیونکہ ملکہ معظمہ کے شوہر البرٹ وفات (1861)پا چکے تھے اور اس کے بعد ان خادم خاص ، قابل اعتماد سکاٹش جان براؤن بھی لمبی خدمت کے بعد دارلبقاء کو روانہ ہوچکا تھا۔

ملکہ حد درجے تک محل کے اندر تنہائی محسوس کرتی تھیں۔ ملکہ نے منشی کو اردو بولنے کا کہا ، وہی لفظ ملکہ نے دہرائے اور خود اپنی آواز سن کر اتنی خوش ہو ئیں کہ اگلے ہی لمحے عبد الکریم ، منشی عبد الکریم بنا دئے گئے۔ دونوں میں ماں بیٹے جیسا پیار بھرا رشتہ اتنی جلد استوار ہوگیا کہ ملکہ نے اپنے محل کے در و دیوار ہند و ستان سے آئے ہوئے تحائف، سوغاتوں اور اپنا تن بدن راجوں مہاراجوں کے بھیجے ہوئے قیمتی زیوارت سے سجا لیا۔شاہی محل کے دیگر مکین عبد الکریم کو ایک نو کر کی حیثیت سے دیکھتے تھے مگر وہ ملکہ کی آنکھ کا تارا تھے ۔ ملکہ ہر سفر میں ان کو اپنے ہمراہ رکھتی تھیں۔ محل میں ملکہ کے رشتہ دار، وزراء، شہزادے ، شہزادیاں،مصاحب، ملازم تو تین تین روز تک انتظار کرتے کہ ملکہ سے ملاقات کی سعادت نصیب ہو ، جبکہ عبد الکریم ملکہ کے خلوت خانے میں راز و نیاز کیا کرتے بلکہ مذہب، سیاست، فلسفہ، گھریلو سیاست پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ کبھی وہ کسی کیلئے سفارش کرتے اور کبھی اپنا منصب بڑھانے کیلئے فرمائشیں کرتے۔ 

اپنے چہیتے منشی عبد الکریم کی خاطر ملکہ وکٹوریہ خدا جانے کس کس سے لڑی ، کس کس سے پنجہ آزمائی کی، کتنی بار آٹھ آٹھ آنسو روئی اور جب عبد الکریم کو بخار ہو گیا تو کتنی بار اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ رکھ کر دیکھا کہ اس کا بخار کم ہؤا یاکہ نہیں۔ ایک دفعہ منشی کی گردن پر کار بنکل نمودار ہؤا، ملکہ نے بغیر سوئے رات گزار دی۔

دیگر ہندوستانی ملازم 
منشی عبد الکریم کے علاوہ شاہی محل میں اور ہندوستانی بھی برسر روزگار تھے جیسے منشی کے دوست جرنلسٹ اور بیر سٹررفیع الدین احمد، احمد حسین،غلام مصطفی، خدا بخش، شیخ چڈا ، عبد اللہ ،دلیپ سنگھ ابن مہاراجہ رنجیت سنگھ، مرزا یوسف بیگ، منشی کے اقرباء جیسے:والد ڈاکٹر وزیر الدین، منشی کی اہلیہ، منشی کی ساس، حرمت علی منشی کے برادر نسبتی، منشی کے بھتیجے عبد الرشید۔ عبد الکریم اور محمد بخش ہندوستان سے ملکہ کی جوبلی تقریبات میں امداد کیلئے بطور خدمت گارایک ہی بحری جہاز میں لندن لائے گئے تھے ۔ ڈاکٹر وزیر الدین پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے ونڈسر محل میں حقہ پیا تھا ۔ (بعض تاریخ نویسوں کاکہنا ہے کہ وزیر الدین آگرہ جیل میں دواساز تھے

دو سال بعد جب عبد الکریم کو قیصر ہند ملکہ معظمہ کا مکمل اعتماد حاصل ہوگیا تو انہوں نے شکایت کی کہ آگرہ میں وہ جیل کلرک تھے جب کہ یہاں شاہی محل میں ان کا درجہ کم ہے اور ان کو خدمتگار کے فرائض دئے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی ناخوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ ہندوستان واپس چلا جانا چاہتے ہیں۔ ادھر جرمنی میں جب ملکہ معظمہ کی بیٹی’’وکی ‘‘کا خاوند جو جرمنی کا بادشاہ تھا وفات پا گیا تو ملکہ نے کئی روز اپنے غم اور افسوس کا اظہار عبد الکریم سے کیاجنہوں نے پوری دلجمعی کے ساتھ ملکہ معظمہ سے دلجوئی کی۔ ملکہ اب کوئی بھی بات عبد الکریم سے کسی جھجک کے بغیر کر لیتی تھیں۔ چنانچہ1888میں عبد الکریم کو اردلی سے منشی کا عہدہ دے دیا گیا یعنی وہ ملکہ برطانیہ کے استاد تھے۔

ملکہ کا اردو پڑھنا سیکھنا 

ملکہ معظمہ کو عبد الکریم سے اردو سننا بہت بھاتا تھا۔ پھر ان کے مصالحے دار چکن کری، دال اور بریانی نے تو قیصر ہند کے دل کو موہ لیا تھا۔ ملکہ نے عبد الکریم سے اردو سیکھنے کا کہا تو ان کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اس ضمن میں عبد الکریم سنجیدہ استادثابت ہوئے۔ عبد الکریم نے شاہی سٹیشنری مہیا کرنے والوں سے لائینوں والی کاپیاں لانے کا مطالبہ کیا۔ ہر شام وہ ملکہ معظمہ کو سبق دیتے تھے۔شروع میں روزانہ استعمال ہونے والے الفاظ سکھانے شروع کئے(مثلاََ۔ کوئی، جانور، پھر، صلاح، خفا ) ۔ ایک پا کٹ بک میں ہندوستانی محاورے لکھے جاتے تھے جو رومن اردو میں ہوتے اور ان کے معنی انگلش میں دئے جاتے تھے۔جیسے تم گھر جا سکتے ہو، تم منشی کو بہت یاد کرو گے، چائے اوسبورن میں ہمیشہ خراب ہے۔ یہ سرخ رنگ والی پاکٹ بک ملکہ معظمہ کے پاس ہر وقت ہوتی تھی۔ ملکہ کی مہارت جب زیادہ ہو گئی تو عبد الکریم ایک لائن اردو میں لکھتے ، اس کے نیچے انگلش میں اور اس کے نیچے یہی لائن رومن اردو میں ہوتی تھی۔ ملکہ ان لائنوں کو نقل کیا کرتی تھیں۔ 

کچھ ہفتوں بعد ملکہ نے اپنی روزانہ کی ڈائری میں لکھا: “میں ہندوستانی زبان کے کچھ الفاظ سیکھ رہی ہوں تا کہ اپنے خدمتگاروں سے گفتگو کر سکوں۔ زبان اور عوام دونوں میں مجھے بہت دلچسپی ہے۔ اس سے پہلے میرا کبھی ان سے ٹھیک رابطہ نہیں ہوا تھا۔ ملکہ کو اردو سننا اور بولنا بہت اچھا لگتا تھا، اور عبد الکریم کے بولے الفاظ کو وہ دہراتی تھیں۔ عبد الکریم اردو سکھانے کے دوران امپر یس آف انڈیا کو ہندوستان کی باتیں اور خاص طور پر آگرہ اور تاج محل کی کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے اور ملکہ کو یوں لگتا گویا وہ ہندوستان پہنچ گئی ہیں۔

عبد الکریم ملکہ معظمہ سے گفتگو انگلش میں کرتے تھے جو انہوں نے محل میں انگریزی کے اساتذہ سے سیکھی تھی۔ ملکہ اپنی اردو کی مشق ہندوستان سے آنے والے راجوں، مہاراجوں اور رانیوں سے کیا کرتی تھیں۔ عبد الکریم نے ملکہ معظمہ سے سیاسی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ آگرہ میں محرم کے موقعہ پر مسلمانوں اور ہندؤوں میں فسادات ہوتے ہیں اس کا تدارک ہونا چاہئے۔ اس کے بعد ہندوستانی سیاست کے ضمن میں ملکہ معظمہ کی رائے پر منشی کا اثر نمایاں نظر آتا تھا۔ 

اب ان کا پورا نام منشی حافظ عبد الکریم تھا اور ان کو تمام ہندوستانی ملازمین کا انچارج بنا دیا گیا ۔ ایمپریس آف انڈیاِ ِ ِ ِ ، ملکہ برطانیہ دیگر ملازمین کیلئے ہدایات منشی کی وساطت سے دینے لگیں ۔ منشی کے ذمہ ان تمام ملازمین کی دیکھ بھال میں یہ کام شامل تھے : ان کی تنخواہ، اخراجات کا حساب کتاب، تعطیلات ،یونیفارم کس موقعہ پر کون سا پہننا ہے ۔ خود ان کی سال کی تنخواہ اب 144 پاؤنڈ ہو گئی اور ہر سال یکم جولائی کو اس میں بارہ پاؤنڈ کا اضافہ ہونا تھا۔ تمام ایسی تصاویرجن میں وہ ٹیبلز پر انتظا رکرتے نظر آتے تھے وہ خاکستر کردیں گئیں۔ سکاٹ لینڈ کے محل میں وہ کمرہ جو ملکہ کے سکاٹش خدمت گار کا مسکن ہوتا تھا وہ اب منشی کو دے دیا گیا۔ جب ایک بار ایک شہزادی اپنے بچوں کے ساتھ بال مورال پیلس آئی تو ملکہ نے بچوں کی حفاظت کے بارے میں اس کو لکھا
My good and excellent Abdul Karim , I am so very fond of him. He is so good 
& gentle & understanding all I want & is a real comfort to me’ ( Basu, page 102) 

لندن آنے کے سال بعدنومبر1888کو منشی عبد الکریم چارماہ کی رخصت پر ہندوستان روانہ ہو گئے ، جس دوران ملکہ معظمہ اس کوبرابر خطوط لکھتی رہیں۔1893میں جب ملکہ معظمہ منشی کو خط لکھتیں تو اختتام پرتمہاری والدہ کے ساتھ دستخط اردو میں کرتی تھیں۔ خودمنشی کا یہ حال تھا کہ وہ ملکہ کے ہاتھ سے لکھے انگلش خطوط پڑھ لیتے اور انگلش میں بہ آسانی بہ قلم خود دستخط کر لیتے تھے۔ملکہ کے نام ان کے انگلش میں لکھے جو خطوط موجود ہیں وہ نہایت شستہ زبان میں گرائمر کی کسی غلطی کے بغیر زیب قرطاس کئے ہوئے ہیں۔ 

منشی کی اداکاری Tableau 

محل میں کبھی کبھی ملازمائیں گاتیں تو ملکہ مسکر ا دیتیں، اوسبورن ہاؤس میں ہونے والے خاموش نظاروں والے ڈراموں ( کوئن آف سبا) کے دوران جہاں کہیں رنگ دار اور ڈاڑھی والے ادا کاروں کی ضرورت ہوتی تو ہندوستانی ملازم یہ فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے۔ محمد بخش اورمنشی عبد الکریم بھی ڈراموں میں حصہ لیتے اور ملکہ سے داد وصول کیا کرتے تھے۔ منشی نہ صرف ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے بلکہ ان کو آرگنائز بھی کرتے ، میوزک، لباس اور ایکٹروں کا انتخاب بھی کرتے تھے۔’’دی انڈین بازار‘‘ آرگنائز کرنے پر ملکہ نے ان پر تعریف کے ڈونگرے برسائے تھے جس میں منشی کے علاوہ مرزا یوسف بیگ، غلام مصطفی، احمد خاں، خدا بخش نے حصہ لیا تھا۔ 

شکایات کا دفتر
عبد الکریم کے قیصر ہند کے ساتھ قریبی اور گہرے مراسم پر محل میں لوگ برہم ، خفا اور حسد کرتے تھے ۔ ملکہ تین محلوں ونڈسر، بالمورال اور بکنگھم پیلس میں جو کوئی منسٹریا سرکاری افسریا افراد خانہ میں سے اس کے چہیتے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا تو ملکہ فوراَاس کے منہ پر قفل چڑھا دیتی تھیں۔ ایسے لگتا تھا گویا جادو گر منشی نے ملکہ معظمہ کو شیشے میں اتار لیا ہو۔ محلاتی دشمنوں نے عبدا لکریم پر الزام عائد کیا کہ وہ ہندوستان کے شورش پسندوں کے ساتھ مل کر مسلم لیگ بنا رہا ہے ، اس کے قریبی دوست سلطنت برطانیہ کے راز کابل کے بادشاہ کو ارسال کر رہے ہیں نیز یہ کہ وہ سوزاک اور جریان جیسے موذی امراض میں مبتلا ہے؟۔

ملکہ معظمہ کے طبیب سر جیمز ریڈ منشی عبد الکریم کے پکے دشمن تھے۔ منشی اس کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ ڈاکٹر ریڈ نے شکایات کا رجسٹر خفیہ طور پرتیار کیا ہؤا تھا جس میں وہ تمام باتیں ضبط تحریر میں لائی گئیں تھیں جو لوگوں کو یااس کو ناگوار گزرتی تھیں۔

۔ (1) فرانس سے جب ملکہ واپس آئیں تو منشی نے ملکہ سے شکایت کی کہ ریل گاڑی میں ان کا ڈبا ان کی حیثیت سے مناسبت سے ٹھیک جگہ پر نہیں لگا یا گیا تھا۔
۔ (2) ایک موقعہ پر ملکہ نے اپنے سکرٹری سے کہا کہ اہم موقعوں پر منشی کو ان گاڑیوں میں بٹھایا جائے جن میں شاہی خاندان کے افراد بیٹھتے ہیں۔
۔ (3) منشی ایک دفعہ روم (اٹلی) گئے اور صرف ایک رات کے سفر پر22پاؤنڈ خرچ اٹھا۔
۔ (4) ایک مرتبہ منشی نے حکم دیا کہ ریل گاڑی کے جس ڈبے وہ بیٹھے اس میں کسی اور ہندوستانی کو بیٹھنے نہ دیا جائے۔
۔ (5) ملکہ کی خادمائیں شکایت کرتی ہیں کہ منشی کی اہلیہ اور ساس برطانیہ کے غریب ترین مزدوروں سے بھی گھٹیا ہیں ، یہ قالینوں پر تھوکتی ہیں،اور نشست گاہ میں حوائج ضروریہ سے بلا تکلف فارغ ہو لیتی ہیں۔ ۔(6) منشی نے اٹلی میں ایک دکان کی بڑی کھڑکی میں فریم لگوایا جس میں ملکہ معظمہ کی نو تصاویر دائرے کی شکل میں لگوائیں اور عین درمیان اپنی تصویر لگوائی تھی۔ اٹلی کے لوگ اس کو ہندوستان کا شہزادہ کہتے جس کی محبت میں ملکہ گرفتار ہیں اور اسی وجہ سے اس کا فوٹو سینٹرمیں لگا تھا۔
۔ (7) منشی نے ملکہ سے گلہ کیا تھا کہ لندن کے اخبارات اس کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ، چنانچہ ملکہ معظمہ نے اخبارات کو پیغام بھجوایا کہ وہ اپنے کالموں سے کثرت سے ان کا ذکر خیر کیا کریں۔

(منشی عبد الکریم کے بارے میں ڈاکٹر ریڈ نے اپنی سبز کی رنگ کی ڈائری میں نا گفتہ بہ باتیں، شکایات، اورافواہیں درج کی تھیں لیکن ان کی وصیت کے مطابق ان کے انتقال کے بعد یہ نذر آتش کر دی گئی۔ مثلاََ منشی جب ہندوستان گئے ہوئے تھے تو انہوں نے وہاں سے ملکہ سے درخواست کی کہ مجھے نواب کا خطاب دیا جائے۔ اسی طرح انہوں نے جوبلی کی خوشی میں ایم وی او( ممبر آف رائل وکٹورین آرڈر) دئے جانے کی بھی خواہش کی۔1895میں ملکہ معظمہ نے منشی کا تقرر نئے عہدے پر کیا یعنی 
Companion of the Order of the Indian Empire ( CIE)
۔

اب منشی نے سرکا خطاب دئے جانے کی خواہش کی مگر اس کے بجائے کمانڈر آف وکٹوریہ آرڈر کے عہدے پر تقررکر دیا گیا ۔ منشی کے والد کو خان بہادر کا خطاب دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ منشی اپنے سینے پر جو میڈل لگاتے تھے ان میں سٹار آف انڈیا اورآرڈر آف ریڈ ایگل ہوتے تھے جن میں سے آرڈر آف ریڈ ایگل قیصر جرمنی نے 1890میں دیا تھا۔ تقدیر بھی بعض اوقات عجب عجب رنگ دکھاتی ہے کہاں آگرہ کا کلرک اور کہاں یہ تمغے اور عہدے اس کے سینے پرسجے ہوئے۔ 

ایک دلچسپ واقعہ 

ڈاکٹر ریڈ نے ایک واقعہ زیب قرطاس کیا۔ جرمنی میں ملکہ برطا نیہ کے خاندان کے دو بچوں کی شادی تھی جس میں شرکت کیلئے ملکہ وکٹوریہ پورے شان و شوکت کے ساتھ پہنچیں۔ دولہا کے باپ نے ماں کے نام پیغام بھیجا کہ شادی کی تقریب میں منشی گرجا گھر میں اہل دربار کے ساتھ نہیں آئیگا۔ بلکہ اس کو ملازموں کے ساتھ بٹھا یا جائیگا۔ ملکہ کو یہ بات اچھی نہ لگی اور طے پایا کہ منشی کو گرجے کی گیلری میں بٹھا یا جائیگا جہاں کوئی اور نوکر نہیں بیٹھے گا۔ وہاں پہنچ کر منشی نے دیکھا کہ ان کے آس پاس گھوڑوں کی رکھوالی کر نے والے بیٹھے ہیں۔ مشتعل ہو کر وہ وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ گھر جا کر منشی نے ملکہ کے نام خط لکھا جس کو پڑھ کر وہ سخت پریشان ہوئیں اور روتی رہیں۔ اس کے بعد منشی ہر روز شاہی گھوڑا گاڑی میں بیٹھ کر جاتے جس کے پیچھے ایک گارڈ کھڑا ہوتا تھا۔ ان کو تزک و احتشام والی سرکاری دعوتوں اور شاہی تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا۔ 

منشی کی خود نوشت سوانح 

ڈاکٹر ریڈ کو اطلاع دی گئی کہ منشی حافظ عبد الکریم اپنی سوانح قلم بند کر رہے ہیں اور اگلے سال یہ دوجلدوں میں شائع کرنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسودہ لکھا جا چکا تھا اور اتنا ضخیم تھا کہ دو جلدوں میں شائع ہونا تھا۔ مگر اس مزعومہ مسودے کا بھی وہی حشر ہؤا جو ان کے دیگر کاغذات، دستاویزات کا ہؤا ، نذر آتش کر دیا گیا۔ 
اخبار ڈیلی گراف کی16 ستمبر1897کی اشاعت میں ایک تصویر چھپی جس میں ملکہ اپنی میز پر بیٹھیں ہیں ، ان کا کتا ان کے ان کے قدموں میں اور کاغذات پر دستخط کر ر ہی ہیں۔ چہرے پر خفیف مسکراہٹ ، سامنے منشی عبد الکریم کاغذات پکڑے کھڑے ہیں۔ نظر آتا کہ منشی کا بانکپن جا چکا اور مٹا پا چہرے پر چھایا ہؤا ہے جس پر لکھا نظر آتا کہ وہ قیصر ہند ملکہ برطانیہ کے منظور نظر ہیں۔ تصویر کے نیچے لکھا تھا ہائی لینڈز میں ملکہ کے شب و روز، ہر مجسٹی منشی حافظ عبد الکریم سی آئی اے سے ہندوستانی زبان کا سبق لے رہی ہیں۔ ڈاکٹر ریڈ کو یہ عبارت توہین آمیز لگی تو فوٹو گرافر کے پاس پہنچے جس نے کہا کہ منشی نے اس کو اسطرح تصویر اتارنے کا حکم دیا تھا۔

ملکہ معظمہ کی آخری اردو تحریر 

منشی حافظ عبد الکریم کے والدخان بہادروزیر الدین علیل تھے اسلئے وہ نو مبر1899کو آگرہ ان کی عیادت کیلئے لوٹ آئے۔ اگلے سال جون میں ان کی وفات ہوگئی۔ منشی کے برطانیہ واپس آنے پر ملکہ نے اردو سیکھنے کے سبق دوبارہ شروع کردئے۔ 7 نومبر1900کواس نے آخری تیرھویں جرنل میں لکھا: “آج بالمورال سے بہ خیریت واپسی ہوئی۔ موسم اچھا نہیں تھا۔ افسوس کہ ہم سبق اچھا نہیں لکھتے کیونکہ سال بھر کے بعدلکھا ہے ۔ منشی پرسوں واپس آئے۔ سارا سال ہم نے صدمات و تشویش میں گزارا۔ بڑے بڑے نامورلوگ لڑائی میں ضائع ہوئے ۔ ہمارے بیٹے ڈیوک آف کوبرگ نے انتقال کیا۔ پرنس گریسش وکٹر دس روز ہوئے فوت ہوئے۔ 

ملکہ کے آخری ایام 

ملکہ کی زندگی کے آخری دنوں میں اس کے رائیل فزیشن کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ سانس اور نبض پر نظر رکھے۔ 17 جنوری 1901کو اس نے دیکھا کہ ملکہ معظمہ کے چہرے پر فالج کا اثر ہے۔ اس پر غشی کا عالم طاری تھا ۔ اس کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے منشی عبد الکریم کو اس کے کمرے میں لایا گیاجنہوں نے اچکن اور پگڑی زیب تن کی ہوئی تھی۔ منشی نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا اور آنسوؤں کے سیلاب کو روکتے ہوئے دعائیں زیر لب پڑھتے ہوئے باہر چلے گئے۔ ملکہ زندگی کے ٹمٹماتے دئے سے لڑے جارہی تھی۔ آخر22 جنوری شام ساڑھے چھ بجے آرک بشپ نے دیکھا کہ ملکہ کے چہرے پر اچانک سکو ن پھیل گیا اور سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ ملکہ اس دنیا سے رخصت ہو چکی تھیں۔ منشی عبد الکریم سے کہا گیا کہ وہ ملکہ کو الوداع کہہ لیں۔ وہ اسی اوسبورن کے کمرے میں گئے جہاں سے ملکہ نے ان کو خط میں لکھا تھا کہ میں نے اپنی آخری وصیت میں تمہارا خاص خیال رکھا ہے۔ پھر جب قیصر ہند، ملکہ معظمہ وکٹوریا کا جنازہ اٹھا اور دنیا بھر کے فرماں رواں، بادشاہ، وزیر اور سفیر اس کے ساتھ چلے وہاں ان معززین میں منشی عبد الکریم کو بھی جگہ دی گئی۔ منشی ملکہ کا دیدار کرنے والا آخری شخص تھا۔

منشی اب اس اعلیٰ عہدے ،مرتبے مقام پر پہنچ چکے تھے کہ خلعت فاخرہ زیب تن کر کے شہزادوں کی طرح چلتے تھے۔ ان کی آنکھوں سے ذہانت ٹپکتی تھی۔ جب وہ ہندوستان رخصت پرجاتے تو وائسرائے سے ملاقات کرتے اور ان کے والد کو خان بہادر کا خطاب ملنے کے بعد دربار میں بلایا جاتا اور راجوں مہاراجوں اور شرفاء سے میل ملاقات کرتے تھے۔ بالمورال محل میں ان کے گھر کا نام کریم کاٹج تھا۔ منشی کی گیسٹ بک میں یورپ کے شاہی خاندان کے افراد، بادشاہوں، شہزادوں، شہزادیوں ، سفیروں ، لارڈ اور لیڈیز کے نام لکھے ہوتے تھے۔ ان کی کاٹج بادشاہوں سے ملنے والے تحائف سے لد ی ہوتی تھی۔

جیسے شہنشاہ روس نے اس کو سونے کا مینا کاری والا ٹی سیٹ تحفے میں دیا تھا۔ شہنشاہ روساور اس کی ایمپریس ، ملکہ برطانیہ اور پرنسیس بیٹریس کے ہمراہ کریم کاٹج بہ نفس نفیس گئے ، جہاں منشی نے روس کی ایمپریس کو انڈین امبر ائڈری کا لباس تحفے میں دیاتو اس نے وزیٹر بک میں اپنے نام درج کیا۔ جب امیر افغانستان کے فرزندسردار ہز ہائی نس نصر اللہ خاں نے ونڈسر محل میں منشی سے ملاقات کی تو اس کو والکنگ سٹک جس پر اس کا موتی ہیرے میں جڑا مونوگرام(طغریٰ) تھا تحفے میں دی۔ پرتگال کے بادشاہ ڈان کارلوس کو جب بالمورال میں دعوت د ی گئی تو منشی کا نام اہل خانہ کے اسماء کی فہرست میں شامل تھا۔ ملکہ قیصر ہند نے منشی کوکچھ زمین1890میں تحفے میں دی تھی ۔ آٹھ سال بعد اس نے 147ایکڑ اس سے ملحقہ زمین آگرہ کے عین وسط میں علاقہ موضع سرائے میں خریدلی ۔ 

جب برطانیہ کے ترکی کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی تھی تو ملکہ معظمہ نے سلطان عبد الحمید کے پاس منشی عبد الکریم کو سفیر کے طور پر بھیجا تھا۔ بلکہ قیصر ہند نے تو فارن آفس کوسفارش کی تھی کہ منشی حافظ عبد الکریم کواستنبول کی برٹش ایمبسی میں متعین کیا جائے۔ 

جون1897 میں جب ملکہ معظمہ کی ڈائی منڈ جوبلی کی تقریبات منعقد ہوئیں تو منشی اس میں ایک اہم شخصیت تھے۔ دس سال پہلے وہ ملازم کے طور پر لندن آئے تھے اور اب وہ انڈین راجوں اور شہزادوں کے ہمراہ سوار ی کرتے تھے۔ جب ملکہ برطانیہ نے امپر ئیل سروس ٹرپس اور انڈین کیوالری کارپس کا ونڈسر محل کے ایسٹ لان پر معائنہ کیا تو کورٹ سرکلر میں منشی عبد الکریم کا نام مہمانوں میں درج تھا۔ منشی اب انڈین رائیلٹی کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر خراماں خراماں چلتے تھے۔ ایمپائر کی خواتین نے ملکہ معظمہ کو اس کے شوہر پرنس البرٹ کا مجسمہ پیش کیا جس پر سنسکرت میں عبارت تھی۔ ملکہ نے اپنے جرنل میں اردو میں لکھا: “ہم کو بہت خوشی ہوئی کہ آج ساٹھ سال بخریت ختم ہوئے۔ سب بچوں اور عالی جاہ بہت اخلاق سے پیش آئے۔ اگلے روز پھر دوبارہ جرنل میں لکھا: “آج ہماری سواری کا جلسہ بہت خوشی اور عمدگی سے ختم ہؤا۔ موسم بہت اچھا تھا۔ 

ایمپر یس آف انڈیا،قیصر ہند کی رحلت 1901

عالی دماغ، عالی ظرف ملکہ معظمہ منشی کو ہرروزخط لکھا کر تی تھیں۔ خط میں وہ اس سے’ ڈئیر عبدل ‘سے مخاطب ہوتیں اور آخر پر مختلف الفاظ ہوتے تھے جیسے
your dearest friend, your true friend, your dearest mother
۔
ملکہ کی وفات پر اعلیٰ حکام نے فیصلہ کیا کہ منشی کے پاس ملکہ برطانیہ کے جو خطوط ہیں یہ ضبط کر لئے جائیں۔ ملکہ نے یہ خطوط ان کو ونڈسر کیسل، بال مورال، یورپ کے مختلف عالی شان ہوٹلوں سے روانہ کئے تھے۔ نئے با دشاہ ایڈورڈ ہفتم کے حکم پر منشی کے تین میں سے ایک مکان کے باہر آلاؤ روشن کیا گیا اور تمام کاغذات اس میں جھونک دئے گئے۔ اس وقت منشی اور ان کا بھتیجا سر جھائے کھڑے تھے۔ دوسری دفعہ آگ آگرہ میں جلائی گئی منشی کی وفات کے بعد ۔ بادشاہ ایڈورڈ ہفتم نے اس کو حکم دیا کہ وہ فوراََ ہندوستان واپس چلاجائے۔ ہندوستان کے وائسرائے لا رڈ منٹو کی درخواست پر منشی کی بیوہ کو ملکہ وکٹوریا کے ہاتھ سے لکھے ہو ئے کچھ خطوط اپنے پاس رکھنے کی اجازت دے دی گئی ۔ ہندوستان لوٹ آنے کے بعد ان کو بارہ روپے ماہوار کی پنشن ملتی رہی تھی۔ کثیر العیال تھے اسلئے گروسری سٹور خرید لیا۔ 

ملکہ کی وفات کے بعد منشی حافظ عبد الکریم آگرے واپس چلے گئے جہاں ان کی وفات46سال کی عمر میں حرکت قلب بند ہونے سے1909میں ہوئی تھی۔ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ آگرہ میں پنچ کوئن قبرستان میں ان کا مزار ہے جہاں ان کی قبر کے دائیں طرف والد کی قبر اور بائیں طرف اہلیہ کی قبرہے جن پر سنگ مر مر کی لوح نصب ہیں۔ ۔ تقسیم ہند کے بعد ان کے رشتہ دار کراچی منتقل ہو گئے۔برطانیہ میں ان کی رہائش گاہ کریم کاٹیج کہلاتی تھی آگرہ میں ان کا ذاتی مکان کریم لاج اور بڑی جائیداد حکومت ہندوستان نے ضبط کر لی ۔ منشی کی ذاتی ڈائری اور کچھ خط و کتابت اخفائے راز میں رہی ،جو ایک سو سال بعد2010 میں پبلک کو دکھائی گئی تھی۔

6 Comments