پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے افراد نے ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کے خلاف غیر معینہ مدت تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔
کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں احتجاجی دھرنوں پر بیٹھے ہوئے ہزارہ برادری کے افراد کا کہنا ہے کہ جب تک فوجی سربراہ کوئٹہ آکر انہیں جان و مال کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیتے، ان کا احتجاج جاری رہے گا۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کے حملوں میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک جبکہ متعدد دیگر افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت کے دیگر علاقوں کی طرح نواحی علاقے مغربی بائی پاس پر بھی دس ہزار سے زائد افراد نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے ۔ اس دھرنے میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
مغربی بائی پاس پر جاری اس دھرنے کی قیادت کرنے والے ہزارہ قبیلے کی سرکردہ شخصیت مصطفیٰ تیموری کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت ہزارہ قبیلے کے افراد کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں جن کے ذریعے میں حکومتی بے حسی کا احاطہ کروں ۔ ہمارےبے گناہ لوگوں کو بلاوجہ چن چن کر مارا جا رہا ہے ۔ آئے روز ہزارہ قبیلے کے افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن حکومت اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ ہم نے ہمیشہ پر امن رہ کر احتجاج کیا ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں، گزشتہ تین یوم سے ہم مسلسل کوئٹہ میں دھرنوں پر بیٹھے ہیں لیکن حکومت ہمارے مطالبات پر کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی ہے‘‘ ۔
انہوں نے مزید کہا ، ’’ہمارے دو ہزار سے زائد افراد اب تک شدت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہوئے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں ہمارے بےگناہ لوگوں کو مختلف حملوں میں زخمی کیا گیا ہے۔ جو لوگ ہماری نسل کشی میں ملوث ہیں انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے ۔ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ سکیورٹی ادارے شدت پسند تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی عمل میں نہیں لا رہے ہیں، کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنائے؟ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت ہمارے صبر کا امتحان نہ لے‘‘۔
مصفطفیٰ تیموری کا کہنا تھا کہ ہم پر امن احتجاج کر رہے ہیں اور ہمارے مظاہرین نے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے، جسے حکومت پورا نہیں کر سکتی ۔ انہوں نے کہا، ’’بلوچستان کی حکومت فرضی دعووں کے ذریعے ہما رے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب صرف دعووں سے یہ معاملہ حل نہیں ہوگا ۔ ہم اس وقت تک احتجاج جاری رکھیں گے جب تک آرمی چیف خود کوئٹہ آکر شدت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ہمارے مطالبات پر کارروائی کے احکامات جاری نہیں کرتے۔‘‘
ہزارہ برادری کے افراد کوئٹہ علمدار روڈ پر بھی احتجاج کر رہے ہیں جبکہ کوئٹہ پریس کلب کے باہر ہزارہ خواتین احتجاج بھوک ہڑتال پر بھیبیٹھی ہیں ۔احتجاجی دھرنے میں شریک ایک خاتون صابرہ بتول کا کہنا ہے کہ ہزارہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ احتجاج میں شریک ہیں اور مطالبات کی منظوری تک کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ’’گزشتہ تین یوم سے ہم سب یہاں احتجاج پر بیٹھے ہیں ۔ ہماری دار رسی کے لیے کوئی حکومت شخصیت اب تک یہاں نہیں آئی۔ صوبائی حکومت بیانات کی حد تک فعال ہے عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ ہمارے قبیلے میں شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جس کے افراد کو شدت پسندوں نے نشانہ نہ بنایا ہوا ہو ۔ ہمارے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہو گیا ہے اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘۔
صابرہ بتول کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ہوتا تو حالات اس نہج پر نہیں پہنچتے۔ انہوں نے کہا،’’حکومت سے ہمارا اعتبار ہی اٹھ گیا ہے اب ہم کسی دعوے پر کان نہیں دھریں گے۔ شدت پسندوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی ہونا چاہیے ۔ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قومی سلامتی کے خلاف بات کرنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چند ٹولوں پر مشتمل گروہ آج کل قومی سالمیت کے خلاف سرگرم ہے جن کے پاس کوئی افرادی قوت بھی نہیں ہے اس لیے ان کے دعووں پر کان نہ دھریں جائیں۔‘‘۔
بلوچستان کے صوبائی وزیر اورمجلس وحدت المسلمین کے رہنما سید آغا رضا کے بقول ہزارہ برادری کا احتجاج سیاست اور تعصب سے پاک ہے اور انہیں یہ گارنٹی ملنی چاہئے کہ ہزارہ کمیونٹی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے باہر ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارا مطالبہ صرف اپنے لوگوں کو انصاف دلانا ہے ۔ مسلک سے ہماری شناخت کو کسی دوسرے قوم سے مت جوڑا جائے ۔ ہم نے کبھی ملکی سالمیت کے خلاف کوئی بات نہیں کی ہے ۔ پاکستان ہمارا وطن ہے جس کے لیے ہم کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔‘‘
آغا رضا نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف ٹھوس بنیادوں پر اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ۔ اسی لئے آج ہر شہری عدم تحفظ کا شکار ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ’’کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کارروائی بلوچستان کے ہر شہری کا مطالبہ ہے ۔ ہم امن چاہتے ہیں اپنے تحفظ اور حق کے لئے اواز بلند کرنا ہمارا ائینی حق ہے ۔ اگر مرکزی حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو قیام امن کے لئے بلوچستان کے دیرینہ مسائل پر کیوں کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے ؟ ہم وفاقی سیاست پر یقین رکھتے ہیں ہماری حب الوطنی پر شک نہ کیا جائے۔ اس وطن کیلئے ہم کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
علمدار روڈ پر مطالبات کی منظوری کے لئے زیر احتجاج ہزارہ قبیلے کے اور سینئر رہنماء لیاقت ہزارہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر حکومت کی ناکام پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ” اس وقت کوئٹہ میں ہمارے پر امن قبیلے کے افراد کے خلاف جو منظم سازش کی جا رہی ہے اس سے ہم بخوبی آگاہ ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ دشمن کس طرح فرقہ واریت کی اڑ میں ہماری نسل کشی کر رہا ہے ۔ ہم پر امن احتجاج کریں گے اور یہ احتجاج مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔ ہمارے مظلوم عوام کا اب وزیراعظم سمیت کسی وزیر یا مشیر پر کوئی اعتماد نہیں ہے”۔
لیاقت ہزارہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سالمیت کے ضامن 6 کروڑ شیعہ برادری کے افراد ہیں انہیں پاکستانی ہونے کے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے بقول، ” ہماری یہ تحریک ہر قوم ہر قبیلے کے مظلوم عوام کی اواز ہے ۔ صرف ہزارہ نہیں ہر فرقہ اور قبیلے کے لوگ ہمارے دھرنوں میں آ کر ہمارے احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں ۔ ہم نے تشدد کا جواب کبھی تشدد سے نہیں دیا امید ہے حکومت ہمارے صبر کا مذید امتحان نہیں لے گی“۔
وزیر داخلہ سمیت مختلف حکومتی عہدیداروں نے احتجاجی مظاہرین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ حکومتی ارکان بھی تسلی کے علاو ہ کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ عسکری ادارے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ آرمی چیف آ کر ان کے مطالبات سنیں اور ان کے حل کرنے کا اعلان کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آرمی چیف اپنے سٹریٹجک اثاثوں کے خلاف کاروائی کریں گے؟
DW/News Desk