آمنہ اختر
تقریباً 7.6ملین پاکستانی بیرون ملک رہتے ہیں پہلے پہل لوگ روزگار کے لئے بیرون ملک جاتے تھے جن میں عرب امارات کی ریاستیں شامل تھیں ۔جہاں پاکستانیوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا رہا ہے جمہوری نظام وہ بھی عربی عجمی کو دیں یہ ہو ہی نہیں سکتا ۔یہ کسی سے چھپا ہوا بھی نہیں۔ آہستہ آہستہ لوگ وہاں سے جمہوری ملکوں میں بسنے لگے ۔
ناروے جرمنی اور دیگر ملکوں کو بھی سستی افرادی قوت چاہیے تھی اس لئے ایک بڑی تعداد پاکستان سے اپنے خاندانوں کے ساتھ ان ملکوں میں بھرتی ہوئی۔1980 کی دہائی میں پاکستانی سوشلسٹ کارکن ملک کے غیر جمہوری نظام اور ڈکٹیٹر شپ کے ڈر سے بھی نکلے اور یہاں ان جمہوری ملکوں میں آباد ہوئے ۔اب چونکہ ملکی حالات اور زیادہ خراب ہو گئے ہیں سارے نوجوان خواہ لڑکا ہو یا لڑکی پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہتے ۔پڑھے لکھے نوجوانوں کو تعلیم کے مطابق کام اور تنخواہ نہیں ملتی اور جو کم پڑھے لکھے اور چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ انتہائی ذلت زدہ زندگی اور روزگار تک نہ پہنچ پانے کی وجہ سے غیرملک نکل رہے ہیں اور جہاں تک لڑکیوں کی بات ہے وہ زیادہ تر پاکستانی غیر ملکی ویزہ ہولڈر حضرات کے ساتھ بیاہ کر آتی ہیں ۔
سویڈن ہو یا کوئی اور ترقی یافتہ ملک وہاں چھوٹے چھوٹے پاکستان بن گئے ہیں۔جیسے پاکستان میں لوگ ذات ،نسل ،گورا رنگ مذہبی فرقے اور پیسہ ،ضروریات سے زیادہ دکھاوے کےلئے کمانے کے شوقین اور سیاسی دھڑے بنانے میں مصروف ہیں ۔ ویسے ہی ان ملکوں میں یہ پاکستانی نژاد کر رہے ہیں۔
مگر اب پاکستان کی نیشنلسٹ ،جاگیردارانہ اور مذہبی سیاسی پارٹیز اپنے بو سیدہ منشور کو یہاں یورپ بیٹھے لوگوں کے ذریعے مضبوط کر رہی ہیں۔ فنڈز اکٹھا کرنے والی تنظیمیں وجود میں آ رہی ہیں۔مختلف چندہ اکٹھا کرنے والی جو تنظیمیں جنم لے رہی ہیں ۔ان کا براہ راست فائدہ ان کے منتظمین کو ہی ہو رہا ہے ۔یوں کہیے غریب پاکستانی کے نام پر ترقی یافتہ ملکوں کے فنڈز ان نیشنلسٹ پاکستانیوں کی یورپ کے اندر اجارہ داری کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
پاکستان کی پیدائش رکھنے والے بالغ افراد نہ ہی پاکستان میں مسائل کی نوعیت کو جانتے ہیں اور نہ ہی ہم یہاں سویڈن اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی کمیونٹی میں یہ شوق پیدا کر سکیں ہیں ۔لوگ اپنے ملک پاکستان سے ہی زبان پر کم عبور رکھتے ہیں ۔ چونکہ ہمارے کلچر میں عام علم یا اپنے مسائل پر گفتگو کرنے کا رحجان نہیں اور ہم بچپن سے سیکھتے بھی نہیں جو سیکھایا جاتا بھی نہیں ہے۔
دوسرا معاشرہ عورت اور مرد کو علیحدہ علیحدہ رکھنا چاہتا ہے جس سے عورتوں کا علم مردوں تک اور مردوں کے تجربات ایک جنس سے دوسری تک زیر بحث میں نہیں آتے ۔ صرف مذہب اور کلچر جو کہ کپڑوں ،کھانوں اور دونوں جنسوں کو علیحدہ رکھنے کا باعث بنتا ہےاسی کو زیربحث رکھا جاتا ہے اس لیے گروپ تعداد میں ضرور بڑے ہو رہے ہیں مگر ذہنی طور پر سمٹنے لگ گئے ہیں۔
بجائے یہ اس جدید سسٹم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لوگوں کے لیے آواز اٹھائیں یہ کلچر کے نام پر گروپ بندی میں لگے ہوئے ہیں یہ سرمایہ دار کلچر کے نام پر اپنا پیسہ ضائع تو کر ہی رہا ہے ساتھ ہی نسل پرستی کے بیج بھی کم پڑھے لکھے پاکستانی لوگوں میں خوب چالاکی سے بڑھا رہا ہے ۔جس کے نتیجے میں دوسرے کلچر کے عام فرد سےبھی میل ملاپ میں احتیاط برتنے لگتےہیں۔ جو آگے چل کر نسل پرستی کی صورت اختیار کر رہا ہے ۔
خیر ظاہری تبدیلی تو دیکھنے میں نظر آتی ہے مگر شعور وہ بھی کہ ہم سب کےلئے بہتری کا سوچیں یہ کم ہی ان کے ذہنوں میں پھوٹتا ہے۔ ایسےگروہوں کی پہلی نسل پاکستانی سویڈش بچے کافی ذہنی پریشانی اٹھا رہے ہیں ۔ ان کو اپنی شخصیت نامکمل اور ادھوری لگتی ہے جس کے نتیجے میں یہ جلد segregation کا شکار ہو رہے ہیں۔اور غلط صحبت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
انسان سفر اور مہذب معاشروں سے بہت کچھ سیکھتا ہے ۔یہاں سویڈن اور باقی جمہوری ملکوں میں سماجی مسائل پر گفتگو ،سیاسی پارٹیوں کے منشور، عوامی سہولتوں کی صورت حال وغیرہ پر گفتگو کرنا ہر شہری اپنا حق رکھتا ہے ۔ غرض ہر اس پہلو پر گفتگو کرنے کی اجازت بھی ہے ۔جو کہ وہ تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ سے سیکھتے ہیں ۔
ہم عرصہ دراز سے مقیم پاکستانیوں نےابھی یہ بھی نہیں سیکھا ۔کہ جن ملکوں میں ہم موجود ہیں وہاں کے حالات کے پیش نظر درپیش مسائل پر ہی بات کی جائے ۔مرد تو مرد مگر عورتیں دوسری عورتوں کی جو حوصلہ شکنی کرتی ہیں ۔وہ اب مجھ جیسے انسان سے برداشت نہیں ہوتیں ۔ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف شکایات بھی کریں تو کس سے کریں ۔
عورتوں اور مردوں کے لیے مذہب کی آزادی انسانی آزادی سے زیادہ اہم ہو چکی ہے حالانکہ وہ مذہب کی پریکٹس سے بھی اکتا گئے ہیں۔مگر ہم زبان گروہ سے سماجی باییکاٹ کے خوف سے جرات بھی نہیں کرتے کہ اپنی یا اپنے بچوں کی خواہشات کا احترام کر سکیں۔ان کے ذہنوں سے پاکستان کے تعلیمی نظام اور خاندانی نظام کی قدامت پسندی کی چھاپ اترتے بہت سی نئی نسلیں بھی آزاد ی اظہار سے نفرت کرنا سیکھ رہی ہیں۔اس لیے سوچ اب پاکستان کی طرف ہی جاتی ہے کہ وہاں تبدیلی ہو تو کچھ حالات دیار غیر میں بھی بہتر ہوں۔
♦
2 Comments