جب سے ہمارے محترم چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب حیران کن طورپر متحرک ہوئے ہیں (لکھنا تو ’عوامی‘ چیف جسٹس تھا لیکن مبینہ طور پرموصوف وضاحت فرماچکے ہیں کہ وہ عوامی نہیں بلکہ قومی چیف جسٹس ہیں)،سابق وزیراعظم نوزشریف صاحب بھی بہت ہی متحرک ہو چکے ہیں۔اگر اول الذکرکو عمال حکومت اور اداروں کی خبر لینے کا خیال اڑھائی تین برس بعدآیا تو مؤخرالذکر کو بھی اتنے عرصہ بعدعدلیہ(خصوصاً عدلیہ کے ’’پانچ افراد‘‘ )کاسڑکوں پہ احتساب کرنے کی سوجھی ہے۔
نواز شریف نے نہ صرف ایک سے زائد بارچیف جسٹس کودودھ اور پانی کے سیمپل اکھٹے کرنے کی بجائے برسوں اور نسلوں سے چلتے چلے آرہے ہزاروں لاکھوں مقدمات ہنوزنہ نبٹانے کا طعنہ دیابلکہ یہاں تک فرما دیا کہ ذرا یہ بھی پتہ کروائیں کہ ثاقب نثار چیف جسٹس کے عہدہ تک پہنچ کیسے گئے ہیں۔ معلوم نہیں ہردو میں سے کون دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرکے دکھانے میں سبقت حاصل کرپائے گا۔یہ ضرور ہے کہ یہ زمانہ لوہے کے چنے چبوانے یا چھٹی کادودھ یادکروانے کی دھمکیاں دینے کا زمانہ نہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے اس ساری تنقید کو کمال حوصلہ سے سننے کے بعد کھلے عام تسلیم کیا کہ مقدمات کی طوالت واقعی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس سے پاکستانی قوم دوچار ہے۔چارسدہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ حال ہی میں انہوں نے چند ایسے مقدمات نمٹائے جو ان کی اپنی پیدائش کے دوسال بعدیعنی 1956 میں شروع ہوئے تھے۔
سنہ 1956 میں شروع ہونے والے مقدمات تو پھر بھی جناب چیف جسٹس صاحب کی ہمت ،امنگوں اور ارادوں کی طرح ابھی جوان ہیں ،یہ اعزاز بھی پاکستانی نظامِ عدل کو حال ہی میں عطا ہوا کہ ایک ایسا مقدمہ جو1918 میں دائرکیاگیاتھا اس کا فیصلہ پورے ایک سو سال بعد 2018 میں سنایاگیا!۔اس مقدمہ کے فیصلہ کو سننے کے لئے مدعیہ (روشنائی بیگم آف خیرپور ٹامے والی)کے پڑپوتوں،دھوتوں پڑنواسوں وغیرھم کو عدالت عظمی میں بلایا گیا تھا۔مبینہ طور پرمدعیہ اور مدعاعلیہ کے وارثان کی تعدادپانچ سو تک پہنچ چکی ہے جو اس تاریخی فیصلہ سے مستفیدیا متاثرہوئے۔
ہمارے عدالتی نظام اور اس سے منسلک پیشہ ور افرادمیں سے مثل نویسوں اور وکلاء کرام کے قلم کی روشنائی ہی واحد روشنائی ہے جوکبھی نہیں خشک ہوتی،مدعی اور مدعاعلیہ ہی نہیں بلکہ ان کی تین تین چار چار نسلوں کی آنکھیں اور ان میں بسی امید کی روشنائی تو ایک دو پیشیوں میں سوکھ ہی نہیں ہمیشہ ہمیش کے لئے اڑ بھی جاتی ہے۔اس کی وجہ کیا ہے؟۔جناب چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ’’ ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا،سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا،وہ کیوں نہیں ملتا اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پارہا،کتنی دہائیوں کے باوجود ان کو انصاف نہیں ملا،انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے،یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے‘‘۔
https://www.nawaiwaqt.com.pk/20-Apr-2018/809081
اگر ملک کا چیف جسٹس اکیلا اس اتنے اہم سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پارہا تو پھر طبعی طوریہ سوال پیداہوتا ہے کہ کون ہے جواس سلسلہ میں ان کی مدد کو آگے بڑھے گا اور کب؟۔کون ہے جو قانون کا اپ ڈیٹ کرے گا اور کب؟۔اس کا ایک جواب تو خود چیف جسٹس صاحب نے دیا ہے کہ ’’ہمارے قوانین بہت پرانے ہیں،ان قوانین کو اپ ڈیٹ کرنا مقننہ کا کام ہے،ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا‘‘۔
قانون کو اپ ڈیٹ کرنے کامطالبہ کوئی نیا نہیں۔قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ایشوپر بحث وتمحیص شروع ہو گئی تھی۔یہی بتا یا گیا کہ فی الحال عبوری طور پر برطانوی سامراج کا نافذکردہ قانون ہی جاری رکھاجائے گا اور بعد میں وقت اور حالات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کی جائیں گی لیکن اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوسکی۔
ساٹھ کی دہائی میں یہ بحث پھر زورپکڑگئی تو حکومت کی طرف سے جسٹس حمود الرحمٰن صاحب کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا جس کا مقصد قانونی اصلاحات کے لئے رہنمائی کرنااورکوئی واضح لائحہ عمل طے کرنا تھا۔حمودالرحمٰن کمشن نے اپنی رپورٹ (1967 تا1970) میں تجویز دی کہ قانونی اصلاحات کے لئے ایک لاء اینڈ جسٹس کمیشن (آف پاکستان) کا وجود عمل میں لایا جائے جس کا کام مستقل طور پر قوانین کو ’’اپ ڈیٹ ‘‘کرتے رہناہوگا۔اس تجویز پر حکومت نے مزید تین سال غوروغوص کرنے میں لگادیئے اور بالآخراچھی طرح سے سوچ بچار کرنے کے بعد سنہ1979 میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ لاء کمیشن کا وجود عمل میں آگیا۔یہ ادارہ لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان بھی کہلاتا ہے ۔
اس کمیشن کا کام آرڈینینس کے اپنے الفاظ میں مندرجہ ذیل بتایا گیا:۔
The functions of the Commission include reformation and modernisation of laws together with their unification and codification. The Commission may also suggest reforms in the areas of legal education and system of administration of justice.
اعلامیہ کے مطابق اس کمیشن کا (ایکس آفیشیو) چئیرمین چیف جسٹس آف پاکستان ہوگا جبکہ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس ڈویژن کمشن کا ممبرہوگا۔ان کے علاوہ ہر تین برس کے لئے دس مزید ممبران بھی منتخب ہوا کریں گے۔ان کے علاوہ چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ،صوبائی ہائی کورٹس کے چار چیف جسٹس صاحبان اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی اس کمیشن کے ممبر ہونگے۔
یہ بھی بتا یا گیا کہ اس کمیشن کی مدد کے لئے ایک سیکٹریٹ قائم کیا جائے گا جس کا اپنا ایک کل وقتی سیکرٹری ہوگا۔اس سیکرٹری کی مدد کے لئے دو عدد جوائنٹ سیکرٹری صاحبان،دو عدد ڈپٹی سیکرٹریان،دو عدد ریسرچ آفیسرز اور دیگر منسٹریل سٹاف بھی بھرتی کیا جائے گا۔
سنہ 1994 میں ایک حکم نامہ کے ذریعہ کمیشن کے ممبران میں مزید اضافہ کیا گیا جس میں وفاقی محتسب اعلیٰ،اور لاء ریفارم کمیٹی آف پاکستان بار کونسل کے چیئرمین شامل ہیں۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کا بطور وائس چیئرمین تقرر بھی عمل میں لایاگیا۔نیز یہ بھی ضروری قرار دیا گیا کہ یہ کمیشن اپنی کارکردگی کی سالانہ رپورٹ حکومت کو پیش کیا کرے گا۔
http://www.commonlii.org/pk/other/PKLJC/reports/21.html
سنہ 1979 میں اتنی دھوم دھام اور سیکرٹری در سیکرٹری در سیکرٹری در سیکرٹری وغیرہ کی بھرتیاں کرکے جو لاء کمیشن آف پاکستان قائم کیا گیا تھا، اس کی کارکردگی کا خلاصہ اور نچوڑ سنہ 2018 میں آج کے چیف جسٹس صاحب کے الفاظ میں یہ ہے کہ :۔
’’ ہم نے قانون کو اپ ڈیٹ نہیں کیا،سب سے بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو جلد انصاف نہیں ملتا،وہ کیوں نہیں ملتا اکیلا اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈ پارہا،کتنی دہائیوں کے باوجود ان کو انصاف نہیں ملا،انصاف کا تاخیر سے ملنا انصاف کی موت ہے،یہ نظام کا قصور ہے اور یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے‘‘۔
بتایا جا رہا ہے کہ ملک میں لگ بھگ اٹھارہ لاکھ مقدمات کا فیصلہ زیر التواہے !۔
پتہ نہیں ’’ہم سب‘‘سے مراد کون ہیں؟۔سب سے پہلے تو جسٹس اینڈ لاء کمیشن کے ’’ہم سب‘‘سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ ایک چیف جسٹس اکیلا ہی کیوں اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہا ہے اورمبینہ طور پر اب تک نہیں ڈھونڈپایا؟۔
راقم کے علم میں نہیں کہ مذکورہ لاء کمیشن ابھی تک قائم ہے یا تحلیل ہو چکا ہے اور یہ بھی نہیں معلوم کہ اس کمیشن کا ایکس آفیشیو چیئرمین ابھی بھی چیف جسٹس آف پاکستان ہوتا ہے یا نہیں لیکن اگر یہ کمشن ابھی بھی قائم ہے توکیا اب اس کمشن کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ایک اور کمشن قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
راقم کوئی قانون دان نہیں ،ایک عام واجبی تعلیم یافتہ شہری کی حیثیت سے اپنی تحریر کے اس حصہ کا اختتام کرتے ہوئے یہی کہنے پہ اکتفا کرنا مناسب سمجھتا ہے کہ واقعی قانون کو(اورپولیس اور عدلیہ کے طریق کار بھی)کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔مقننہ کا کام قانون سازی ہے لیکن وہ اس مقدس فریضہ سے تب ہی بطور احسن عہدہ برآء ہو سکتی ہے جب لاء اینڈ جسٹس کمشن خواب گراں سے جاگ کر اور متحرک ہوکراپنی قابل عمل تجاویز اور سفارشات مقننہ کے سامنے رکھے جس کی روشنی میں جدید تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترامیم کی جائیں تاکہ عوام کو اس اذیت سے نجات ملے۔
ملکی قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر اخلاقیات کا معیاربھی ’’اپ ڈیٹ ‘‘کرنے کی اشد ضرورت ہے۔خواہ کتنا ہی جدید ترین ’’ماڈرن‘‘ قانونی و عدالتی نظام کیوں نہ نافذ ہو اورخواہ کتنا ہی صاف شفاف اور سریع انصاف مہیا کیوں نہ ہو،جب تک بشمول راقم اس ملک کے عوام(اورخواص) عدالتوں میں جھوٹے حلف نامے اٹھاتے رہیں گے،قرآن ہاتھ میں لے جھوٹی قسمیں کھاتے رہیں گے،سچی گواہی کو چھپاتے،اور سچے گواہوں،مخالف کے وکیل اور ججز کو ڈراتے دھمکاتے،اغوااور قتل کرتے رہیں گے،رشوتیں دیتے اور لیتے رہیں گے، کرائے کے گواہ پیش کرتے اور بیان دے کر بعد میں مکر جاتے رہیں گے تب تک ملک میں انصاف اور عدل کا قائم ہونا ناممکن ہے۔
جو فصل ہم بوئیں گے وہی کاٹیں گے،زمین کا اس میں کوئی قصور نہیں۔یہ اذیت،یہ عذاب خود ہمارا لایا ہوا ہے۔خود اپنے آپ اور اپنے گھر سے انصاف اور عدل کی ابتدا نہیں کریں گے تو مکافات عمل کی لاٹھی تو سر پہ پڑنی ہی ہے۔انگریزی کا مقولہ ہے کہ:۔
There are neither rewards nor punishments;There are consequences.
♥