ارشد بٹ
کپتان کی ٹیم نے کس مہارت سے کیا خوب انتخابی منشور تیار کیا۔ نہ عوام سے کوئی واضح وعدہ اور نہ طاقتورحلقوں کی ناراضی کا خطرہ مول لیا۔ کپتان خود ستائشی اور سیاسی مخالفین پر حملہ کرنے میں بڑے بلیغ مگرعوام اور ملک کودرپیش مسائل پر مبہم، غیر واضع اور نا مکمل پالیسی پیش کی۔ عمران خان کا گیارہ نکاتی انتخابی منشورامریکہ پلٹ اجارہ دار کارپوریٹ سرمایہ داری کے نمایئندہ ماہرین کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کپتان نے بلا جھجھک اورابہام طاقتور حلقوں کو کھلا پیغام دیا ہے کہ اگرانہیں وزارت اعظمیٰ کے منصب پر فائز کر دیا جائے تو ان کی حکومت قومی سلامتی، دفاعی اور خارجہ امور سے دور دور کا واسطہ نہ رکھے گی۔ وہ ان امور پر حکومت اور پارلیمنٹ کو حاصل آئینی اور قانونی اختیارات سے رضاکارانہ دستبردار ہو جائیں گے۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے احترام کو مد نظر رکھتے ہوئے پارلیمنٹ کو قومی سلامتی، خارجہ اور دفاعی امور پر پالیسی مرتب کرنے کی تکلیف نہیں دینا چاہتے۔
عوامی ووٹ کی طاقت سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کا خواب دیکھنے والا کپتان، منتخب جمہوری اداروں کے آئینی اختیارات کو طاقتور ریاستی اداروں کو سونپنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ ھمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی عدم مداخلت، امن، دوستی اورتجارت کے رشتے استوار کئے بغیرملکی ترقی اورعوامی خوشحالی ممکن نہیں۔ مگر کپتان اس پر لب کشائی کرنا مناسب نہیں سمجھتے کیونکہ ان معاملات پر واضع موقف اختیار کرنے سے “اوپر والے” ناراض ہوجائیں گے۔
اجارہ دارسرمایہ داروں، بڑے بڑے جاگیرداروں اور رئیل اسٹیٹ ٹائیکونوں کو دائیں بائیں کھڑے کر کے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے اور استحصالی طبقوں سے ٹیکس وصولی کا ٹھوس منصوبہ کیسے پیش کرتے۔ کپتان تو عوام سے چندہ اکٹھا کرکے ملکی معیشت کو سدھارنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، رئیل اسٹیٹ ٹائیکونوں اور اجارہ دارتاجروں کے عوامی استحصال کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنا نہیں کرنا چاہتے۔ کاش کپتان یہ بتانے کی جرات کرتے کہ صوبہ پختون خواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت اپنے پانچ سالہ دوراقتدار میں کتنا ریونیو بڑھانے میں کامیاب ہوئی۔
وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے کے بعد تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو عام کرنے اور معیاری بنانے کی خوب کہی۔انہیں دو ٹوک اعلان کرنا چاہے تھا کہ وہ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں کتنے فیصد اضافہ کریں گے۔ دوسری صورت میں وہ یہ وعدہ کر سکتے تھے کہ وفاقی حکومت یکساں نظام تعلیم، تعلیم اور صحت کی سہولیات عام کرنے کے لئے صوبائی حکومتوں کو وفاقی بجٹ کا ایک مخصوص فیصد فراہم کرے گی۔ کیونکہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن میں تعلیم اور صحت ریاستی ترجیحات میں سب سے پیچھے رکھے جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی پختون خواہ حکومت نے شعبہ تعلیم اور صحت میں کیا کارنامے سرانجام دئے اس سے اخبارات کی صفحات بھرے پڑے ہیں جسے یہاں دھرانا ضروری نہیں۔
کرپشن کا خاتمہ اوراحتساب ایسے پرکشش مگر مبہم نعرے ہیں جن کے شور میں عوام کی توجہ حقیقی ملکی اورعوامی مسائل سے ہٹانا بہت آسان ہے۔ کپتان کی صوبائی حکومت تو پانچ سالہ دور اقتدار میں مستقل احتساب کمشنر مقرر نہ کرسکی، صوبائی اسمبلی کے کئی ممران بکاو مال نکلے، وزرا ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ پی ٹی آئی کے پارٹی انتخابات میں کرپشن سے الیکشن جیتنے کے الزامات کی دھوم رہی۔ مگر کپتان کچھ نہ کر پائے۔ صوبہ میں کرپشن کے خاتمے کے لئے کیا ٹھوس اور عملی اقدامات اٹھائے گئے اسکا بھی کپتان کے پاس کوئی جواب کپتان نہیں ہے۔
غریب اور امیر کے درمیان ایک وسیع خلیج کی موجودگی سے ایک پاکستان کیسے بنے گا۔ اس فرق کو مٹانا تو دور کی بات، اس ظالمانہ خلیج کو کم کرنے کی طرف کوئی اشارہ بھی کپتان کے گیارہ نکات میں نظر نہیں آتا۔ روزانہ اجرت پر مزدوری کرنے والے محنت کشوں، بے زمین کسانوں، دیہی مزدوروں، سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں کم آمدنی والے کڑوڑوں انسانوں کی آمدنی بڑھانے اور معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے کپتان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں۔
کپتان کی دانست میں مذہبی شدت پسندی، فرقہ پرستی، دہشت گردی، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی اتنے زیادہ اہم مسائل نیہں کہ انکے خاتمے کے لئے کوئی موقف اختیار کیا جائے۔
کپتان اور اسکی ٹیم نے تقریبا پانچ سال دھرنوں، احتجاجوں، جلسوں اورنعرہ بازی میں صرف کر دئے۔ سٹیٹس کو، کے نمائیندہ اور تبدیلی سے دور سطحی الیکشن منشور کے بعد دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کپتان اور اسکی ٹیم کس قدر الیکشن لڑنے اور جیتنے کی مہارت سے مسلح ھو چکی ہے۔
♥