بلوچستان کے شورش زدہ ضلع خاران میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں چھ مزدور ہلاک جبکہ ایک مزدور زخمی ہوا ہے۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد کا تعلق صوبہ پنجاب سے بتایا گیا ہے۔
لیویز حکام نے بتایا ہے کہ خاران کے نواحی علاقے لیجی میں عسکریت پسندوں نے پاکستان کی ایک نجی موبائل کمپنی کے لیے ٹاور لگانے والے مزدورں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ وہاں کام میں مصروف تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری علیحدگی پسند بلوچ تنظیم نے قبول کی ہے۔ یونائٹڈ بلوچ آرمی نامی کالعدم تنظیم کے ترجمان مرید بلوچ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاران میں آبادکاروں پر حملہ، عسکریت پسند تنظیم یونائٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) اور بلوچ ریپبلکن آرمی (بی ار اے) کے مزاحمت کاروں نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔ میڈیا کو جاری کیے گئے بیان میں کالعدم تنظیم کے ترجمان نے کہا ہے کہ آبادکاروں پر حملہ اس لیے کیا گیا کیونکہ ان افراد کو منع کیا گیا تھا کہ یہاں کام نہ کریں۔
بلوچ مزاحمتی تنظیموں نے بلوچستان کے دیگر شورش زدہ علاقوں تربت،گوادر، مشکے اوران، خضدار، بولان اور ڈیرہ بگٹی وغیرہ میں بھی تعمیراتی کاموں اورقومی شاہراہوں کی مرمت کے لیے کام کرنے والے مزدوروں پر گزشتہ کچھ عرصے کے دوران بڑے پیمانے پر حملے کیے ہیں۔
علیحدگی پسند بلوچ عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ صوبے کے بلوچ اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف تحریک مزید تیز کر دی گئی ہے۔ عسکریت پسندوں کے زیر اثر بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بلوچ مزاحمت کاروں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
ایک بلوچ مزاحمتی تنظیم کے رہنماء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت کے خلاف ان کی جنگ حالیہ دنوں میں غیر معمولی کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہی ہے: ’’پاکستان میں ہمیں دیوار سے لگایا گیا ہے ہمارے حقوق پر باہر کے لوگ آکر قابض ہو چکے ہیں بلوچوں کواپنا حق یوں دیا جا رہا ہے جیسے وہ بھیک مانگ ر ہے ہوں۔ بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے پروپیگنڈا کا سہارا لیاجا رہا ہے۔ میڈیا کو ہم سے دور رکھا گیا ہے۔ ہم وہ نا انصافیاں کس طرح بیان کریں جو ہمارے لوگوں کے ساتھ یہاں کی جا رہی ہیں؟ اس تمام تر صورتحال کے باوجود بلوچ مزاحمت کار بھر پور جذبے سے حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں اور اس وقت صوبے بھر میں سکیورٹی ادارے اور ان کے مبینہ ڈیتھ اسکواڈزکو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔‘‘
مزاحتمی تنظیم کے رہنماء نے دعویٰ کیا کہ سکیورٹی ادارے بلوچستان بھر میں بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور ہلاکتوں میں براہ راست ملوث ہیں اور ایسے لوگوں کو بھی بڑے پیمانے پر گرفتار کر کے لاپتہ کیا گیا ہے جن کا مزاحمتی تنظیموں سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں: ’’حقوق کے لیے ہماری جنگ اس وقت نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اسی لیے یہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کر کے بلوچوں کے حقوق کے لیے بلند کی گئی آواز کو بزور طاقت دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم اپنے استحصال اور حقوق پر کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی‘‘۔
بلوچستان کی علیحدگی پسند تنطیموں کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر بھی شدید تحفظات ہیں۔ اگرچہ چین یہاں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کر رہا ہے مگر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کا کہنا ہے کہ سی پیک بلوچ قوم کو مزید تاریکی میں دھکیلنے اور انہیں اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے جسے وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
بلوچ حقوق کے لیے سرگرم بعض مزاحمتی تنظیموں نے اپنے اہداف کے لیے الائنس بھی تشکیل دیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق بعض علاقوں میں اس وقت کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی اور بلوچ لبریشن فرنٹ نامی تنظیمیں مشترکہ طور پر کام کر رہی ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی نئی ابھرتی ہوئی تنظیم بھی بی ایل اے اور بی ایل ایف کے اتحاد کا حصہ بن چکی ہے۔
عسکریت پسندوں کے دعوے ایک طرف لیکن زمینی حقائق کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا درست ہو گا کہ ریاست نے بلوچستان کی محرومی دور کرنے کے لیے سنجیدگی سے کام نہیں کیا۔ آج بھی بلوچ اکثریتی علاقوں میں مقامی لوگ انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچ علاقوں میں سرکاری ریکارڈ میں ترقیاتی منصوبوں پر تو اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں مگر زمینی حقائق اس سے بالکل برعکس ہیں۔
بلوچستان کے سیاسی امور کے ماہر زاہد بلوچ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں بلوچ عوام کی محرومیوں پر توجہ دے کر صوبے میں جاری شورش میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’بلوچستان اس وقت جس جنگی کیفیت سے دوچار ہے اسے کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں بدلتے ہوئے حالات اس صوبے اور ملکی سلامتی کو دن بدن خطرات سے دوچار کرتے جا رہے ہیں۔ میرے خیال میں اب فرضی دعووں کے بجائے حکومت کو عملی طور پر بلوچ عوام کے تحفظات پر توجہ دینا ہوگی۔ ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات تو کیے جا رہے ہیں لیکن اس پہلو پر کوئی کام نہیں کیا جا رہا کہ یہاں مزاحمت کار انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب جو توجہ مرکوز کروا رہے ہیں انہیں کیوں نظرانداز کیا گیاہے ؟‘‘۔
زاہد بلوچ کے بقول بلوچستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں بلوچ عوام کو یہ یقین دلانے کی بہت ضرورت ہے کہ ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے عملی اقدمات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’موجودہ حکومت ایسے لوگوں کو بلوچ عوام کے نمائندوں کے طور پر پیش کر رہی ہے جن کا حقیقت میں بلوچ تحریک میں کوئی کردار نہیں ہے۔ میرے خیال میں حکومت اگر واقعی سنجیدگی سے بلوچستان کا دیرینہ مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے تو ان حقیقی بلوچ قائدین کو مفاہمتی عمل کا حصہ بنائے جو صحیح معنوں میں اپنی قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں‘‘۔
DW