آصف جاوید
برِّ صغیر ہندوستان کی تقسیم اور تشکیلِ پاکستان نے برِّ صغیر کی پولیٹیکل جیوگرافی کی شکل بدل کر رکھ دی ہے۔ تقسیم نے برِّ صغیر کے سماجی ڈھانچے کو جھنجوڑ ڈالا ہے۔ صرف 70 سال کے قلیل عرصے میں پورے خطّے کی ڈیموگرافی بدل گئی ہے۔ تقسیم کے نتیجے میں دونوں طرف سے آبادی کا تبادلہ ہوا تھا، ہندو اور سکھ یہاں سے وہاں گئے تھے، اور مسلمان وہاں سے یہاں آئے تھے۔
مہاجر برّصغیر کی تقسیم اور مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کی جدوجہد کے نتیجے میں برّصغیر کے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے۔ سب سے زیادہ مہاجر سندھ کے شہری علاقوں کراچی ، حیدرباد اور سکھر میں آباد ہوئے تھے۔ مہاجر وہ بدقسمت طبقہ ہے جو آج 70 سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی شناخت اور صوبہ سندھ میں مساوی شہری حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے۔
مہاجرین پاکستان میں مہاجر شناخت کے ساتھ رہنے اور امتیازی سلوک کا نشانہ بننے کے لئے نہیں آئے تھے۔مہاجر پاکستان میں پاکستانی بن کر رہنے کے لئے آئے تھے۔ مگر بدقسمتی سے شروع دن سے ہی مہاجرین کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ مہاجروں کوپناہ گیر، مہاجر، تلیر، ننگے بھوکے، کالے کلوٹے کے طعنے بھی سننا پڑے۔
سندھی قوم پرست، مہاجروں سے بہت نالاں ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مہاجروں نے ان کے وسائل اور شہروں پر قبضہ کرلیا ہے۔سندھی قوم پرست سندھ کی سرکاری نوکریوں پر مہاجروں کا وجود برداشت کرنے کو تیّار نہیں ہیں۔ سندھیوں کو شکایت ہے کہ سندھ کے شہروں پر غیر سندھیوں کا قبضہ ہے۔
مہاجر کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہیں، اور نہ ہی مہاجر تھائی لینڈ سے آکر سندھ میں بسے تھے۔ مہاجر تقسیم کے نتیجے میں تبادلہ آبادی کے تحت سندھ میں آکر آباد ہوئے تھے۔ پاکستان مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کے نظرئیے کے تحت وجود میں آیا تھا، تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تبادلہ آبادی ہوا تھا۔ ہندو اور سکھ یہاں سے وہاں گئے تھے، اور مسلمان وہاں سے یہاں آئے تھے۔ مہاجر تحریکِ پاکستان کی جدوجہد کے ہراول دستے میں شامل تھے، اور اپنے ہی بنائے ہوئے ملک پاکستان میں آباد ہونے کے لئے آئے تھے۔
سندھی قوم پرست مہاجروں کو ننگے بھوکے ،پناہ گیر اور بھکاری ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ جب کہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ مہاجر جب سندھ میں آئے تو اپنی تہذیب، اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنا ہنر ، اپنی تعلیم، اپنا روپیہ پیسہ ساتھ لائے تھے۔ مہاجروں نے ہی سندھ کو اپنی محنت، قابلیت، ہنر، تعلیم اور پیسے سے آباد کیا تھا اور اسے توسیع دی تھی۔ مہاجروں نے ہی سندھ کے میں صنعتیں لگائی تھیں، ، تجارتی ادارے ، اور تعلیمی ادارے قائم کئے تھے۔ روزگار کے ذرائع پیدا کئے تھے، سندھ کو ترقّی دی تھی۔
مہاجر پیراسائیٹس نہیں تھے، مہاجروں نے اپنے وسائل خود پیدا کئے، کسی کے وسائل پر قبضہ نہیں کیا۔ اگر طعنہ زنی کرنے والے قوم پرست سندھی اتنے ہی توَنگر تھے ، تو کیوں اپنے آپ کو ترقّی نہیں دی؟۔ کیوں اپنی زراعت، زمینداری ، دیہات اور قصبات سے باہر نکل کر اپنے شہر آباد نہیں کئے؟ کیوں اپنی صنعتیں اور تجارت قائم نہیں کیں؟ کیوں اپنی معیشت کو مضبوط نہیں کیا؟ کیوں اپنے شہر آباد نہیں کئے؟ کس نے روکا تھا؟
سندھی قوم پرست مہاجروں پر خواہ مخواہ کا احسانات نہ دکھائیں، مہاجروں نے سندھیوں کو نہ تو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا نہ ان کی زمینوں پر قبضہ کیا، ہندوستان میں اپنی ہی چھوڑی ہوئی زمینوں کے بدلے ہندوؤں کی متروکہ زمین حاصل کی۔ (لیاقت– نہرو پیکٹ 1952) اس بات کا تاریخی ثبوت ہے۔
سندھ کے شہر آباد ہونے کے بعد ، صنعت و تجارت کا جال بچھ جانے کے بعد روزگار کے وسیع تر مواقع دستیاب ہوئے تھے۔ صوبہ سرحد سے پٹھان، پنجاب سے پنجابی اور سرائیکی، بلوچستان سے بلوچ، کراچی اور سندھ کےدیگر شہروں میں آتے رہے ہیں، روزگار حاصل کرتے رہے، آباد ہوتے رہے ہیں، مگر سندھیوں نے شہروں کا رخ نہیں کیا۔ تو اس میں مہاجروں کا کیا قصور ہے۔ سندھی اب روتے ہیں کہ سندھ کے شہروں پر باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا قبضہ ہوگیا۔
سنہ 1972 کے بعد سے سندھ پر سندھیوں کا مکمّل اقتدار ہے، تو پھر کیوں سندھیوں نے گاؤں دیہات کو ترقّی نہیں دی؟۔ کیوں اندرون سندھ نئے صنعتی زون نہیں بنائے؟ کیوں نئی صنعتیں اور تجارتی ادارے قائم نہیں کئے، کیوں سندھیوں نے کراچی اور حیدرآباد کی درمیانی زمین پر نئے شہر آباد نہیں کئے؟ کیوں سندھیوں نے چھوٹی صنعتیں لگا کر اپنے لوگوں کو روزگار فراہم نہیں کیا؟
اہلِ پنجاب نے تو قصور، فیصل آباد، گجرات، گوجرانوالہ، سیا لکوٹ کو صنعتی اور تجارتی شہروں میں تبدیل کردیا، پنجاب میں چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے، پنجاب ایکسپورٹ بیسڈ صوبہ بن گیا ہے، پختون روزگار کے لئے پوری دنیا میں پھیل گئے ہیں، مگر سندھی دیہاتوں سے باہر نہیں نکل سکے اور نہ ہی اپنے شہروں کو ترقّی دے سکے، اور اب مہاجروں کو روتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے، اگر سندھی، سندھ میں دوسری قومیتوں کے مساوی حقوق تسلیم کر لیں، اور جھوٹے احسانات نہ گنوائیں، تو سندھی بھی ترقّی کرلیں گے، اگر ضد پر قائم رہے تو آج نہیں تو کل سندھ تقسیم ہوجائے گا۔ پھر سندھی بیٹھے روئیں گے، اب سندھ میں صرف مہاجر ہی نہیں، پٹھان، پنجابی، سرائیکی، بلوچ، بنگالی برمی، افغانی بھی سندھ کے وسائل، اقتدار کے اسٹیک ہولڈر ہیں۔
سندھ اب صرف سندھیوں کا نہیں، بلکہ سب قوموں کا ہے۔ سندھ ایک کثیر القوم اور کثیر الثقافت صوبہ ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہی سندھ اور سندھیوں کی بھلائی ہے، مجھے گالیاں دینے سے حقائق اگر بدل سکتے ہوں، تو ایک نہیں ایک ہزار گالیاں دیں شاید قوم پرست سندھیوں کی بدگمانیوں کا کوئی ازالہ ہوجائے۔
♣