ساقی فاروقی کی شاعری اور انسان کا تاریک رخ

ڈاکٹر خالد سہیل

جب میرے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ساقی فاروقی کی شاعری مجھے کیوں پسند ہے تو میرے ذہن میں بہت سے خیالات گردش کرنے لگتے ہیں۔ میں انہیں بتاتا ہوں کہ اردو کے بہت سے روایتی شاعر انسان کی زندگی اور شخصیت کے روشن اور درخشاں پہلوؤں پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں‘ وہ گل و بلبل کی باتیں کرتے ہیں اور لوگوں کو سہانے اور سنہری خواب دکھاتے ہیں۔ وہ انہیں ایک بہتر زندگی گزارنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ اس نظریے پر ایمان رکھتے ہیں کہ

 شاعری جزوایست از پیغمبری

لیکن ساقی ایسا نہیں سمجھتے۔وہ انسان اور زندگی کے تاریخ رخ پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور انسانی جبلتوں کو‘جن میں جنس بھی شامل ہے تشدد بھی‘غصہ بھی شامل ہے نفرت بھی‘ سمجھے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اپنی بصیرتوں کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔اسی لیے ان کی شاعری میں جمال بھی ہے جلال بھی اور دونوں میں شدت ہے۔اگر روایتی شاعروں کے دل میں چنگاریاں سلگتی ہیں تو ساقی کے دل میں آگ جلتی ہے۔ ان کا شعر ہے

ایک دوزخ تھا میرے سینے میں ۔۔۔۔ جس سے چہرہ مرا منور تھا

وہ جب انسانی نفسیات کے تاریک رخ کی جہنم کو بے نقاب کرتے ہیں تو انہیں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ جنت کے خواب دیکھنے والے لوگ کہیں ان سے نفرت کرتے ہوئے ان کے منہ پر تھوک نہ دیں۔میری نگاہ میں کسی کے منہ پر تھوکنا غصے‘ نفرت اور تلخی کی واضح دلیل ہے۔ ساقی کا کلام پڑھتے ہوئے مجھے امریکہ کی فنکارہ DIANE ARBUS یاد آ جاتی ہیں جن کی تصویروں کی نمائش نیویارک کی گیلری میں ہوئی تو لوگوں نے غصے اور نفرت میں ان کی تصویروں پر تھوکا۔ ساقی کو جب یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں اخلاقیات کا پرچار کرنے والے مولوی اور نقاد ان کی نظموں اور غزلوں پر تھوک نہ دیں تو انہوں نے OFFENCE IS THE BEST DEFENCE کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ان پر خود ہی تھوکنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنے مجموعہِ کلام کا آغاز ہی اس دیباچے سے کیا ہے

سب سچے ہیں

نگر نگر سب سچے ہیں

ان سچوں میں

اب بھی ایک جگہ خالی ہے

اک جھوٹے کی

جس کی شاطانی آنکھوں میں

صرف تمسخر اور نفرت کے شعلے ہوں

جو سقراطوں اور مسیحائوں کے منہ پر

تھوک سکے اور اک موٹی سی گالی دے

جو شاعر اپنے دیوان کا آغاز اس نظم سے کرے اس سے واضح ہے کہ وہ اصحابِ بست و کشاد سے کسی صلے‘ کسی وظیفے یا کسی تمغے کی امید نہیں رکھ سکتا۔اس کے تھوکنے اور موٹی سی گالی دینے کے بعد اگر اور لوگ بھی اس پر تھوکیں اور موٹی سی گالی دیں تو اسے حیران نہیں ہونا چاہیے۔

اپنے دیوان کے دیباچے سے ساقی اپنے قارئین سے ایکCOOPERATIVE رشتے کی بجائے ایک CONFRONTATIVE رشتے کی بنیاد ڈالتے ہیں۔نفسیاتی حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی شاعر جو ایک حساس دماغ اور محبت بھرا دل لے کر پیدا ہوتا ہے وہ آخر محبت کی بجائے نفرت اور پیار کی بجائے غصے کی باتیں کیوں کرنے لگتا ہے۔ایسا تو نہیں کہ ایک زمانے میں وہ محبت بھرا دل رکھتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ اس کے ماحول کا غصہ تلخی اور نفرت اس میں جذب ہوتے گئے اور اس کی شخصیت اور شاعری کا حصہ بنتے گئے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ایک منافق معاشرے میں پرورش پانے والا شاعر یا تو خود منافق بن جاتا ہے اور یا اس منافقت سے نفرت کرنے لگتا ہے۔

عین ممکن ہے کہ یہ نفرت محبت سے نہ ہو منافقت سے ہو۔ ایک مالٹے کی طرح۔۔۔جس کا چھلکا تلخ ہوتا ہے لیکن وہ اندر سے بہت میٹھا ہوتا ہے۔ میری نگاہ میں ساقی کو سعادت حسن منٹو اور آسکر وائلڈ کی طرح منافقت سے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔ وہ جوانی میں دنیا میں ایک انقلاب لانے کے خواب دیکھتے تھے لیکن پھر منٹو نے شراب پی کر خودکشی کر لی آسکر وائلڈ کو جیل بھیج دیا گیا اور ساقی نے ہجرت کر لی۔ انہیں آہستہ آہستہ اس تلخ حقیقت کا احساس ہو گیا کہ

دنیا

اب یاد نہیں سینے میں کہیں

اک سورج تھا سو ڈوب گیا

اب اپنا دل ہے کھوٹ بھرا

دنیا کو بدلنے نکلے تھے

دنیا نے بدل ڈالا کہ نہیں

جب کسی شاعر کے دل میں سورج ڈوبتا ہے تو نفرت غصے اور تلخی کی رات شروع ہو جاتی ہے۔ اکثر روایتی شاعر اس کالی رات سے گھبرا جاتے ہیں اور رات کے بارے میں لکھنے کی بجائے صبح صادق کی خوش خبری دینے لگتے ہیں۔ایسی شاعری سے وہ خود کو بھی فریب دیتے ہیں اوروں کو بھی۔

مجھے کبھی کبھار لگتا ہے ساقی سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر تھے۔اپنے سچ کی تلاش میں۔ اس سچ کی تلاش مین نہیں جو آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کیونکہ وہ ان کا سچ تھا جنہوں نے انہیں تخلیق کیا تھا اور اب وہ سب کلیشے بن چکا ہے۔

ساقی کو اس بات کی فکر دامنگیر رہتی تھی کہ وہ لوگ جو ایک منافق معاشرے میں پروان چڑجتے ہیں جہاں ہر چیز گناہ و ثواب اور نیکی بدی کی کسوٹی پر پرکھی جاتی ہے ان پر اپنی ذات بھی منکشف نہیں ہوتی اور وہ ساری عمر دوسروں کے سچ کو اپنا سچ سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اپنی ذات اور اپنے ذہن سے تو کیا اپنے جسم سے بھی واقف نہیں ہوتے۔جب معاشرے میں گھٹن بڑھ جاتی ہے تو انسانوں کے معصوم جذبات‘ خواہشات اور خواب بھی repression کا شکار ہو جاتے ہیں اور انسان اپنے لیے بھی اجنبی بن جاتے ہیں ساقی لکھتے ہیں

یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوئے

یہ بدنصیب تو کبھی تنہا نہیں ہوئے

یہ کیا کہ اپنے آپ سے بے پردگی نہ ہو

یہ کیا کہ اپنے آپ پر افشا نہیں ہوئے

جو انسان اپنے آپ سے واقف نہ ہوں اور اپنے آپ سے بھی محبت نہ کر سکیں وہ کسی اور سے کیا محبت کر سکیں گے۔ اردو شاعری بنیادی طور پر تصوراتی شاعری ہے جس میں شاعر اور عاشق اپنے محبوب کے بارے میں FANTASIZE کرتا رہتا ہے اس سے مل نہیں پاتا۔ اردو شاعری بنیادی طور پر ہجر کی شاعری ہے وصل کی نہیں۔ شاعر کو محبوب کا نہیں اس کے کوچے کا وصل نصیب ہوتا ہے اور وہ بھی مرنے کے بعد کیونکہ وہ جانتا ہے

خاک ہو جائیں گے ہم تجھ کو خبر ہونے تک

مشرق کا شاعر جانتا ہے کہ محبوب سے وصل گناہ سمجھا جتا ہے لیکن یہ بھی ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ انسان پر اس کی ذات کے بہت سے اسرار وصل سے منکشف ہوتے ہیں۔ ساقی ہی ایک ایسے شاعر تھے جو یہ کہنے کی جسارت رکھتے تھے

؎ مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے

وگرنہ پارسا و دیندار میں بھی تھا

ساقی کو اندازہ تھا کہ مشرق کا روایتی اور مذہبی ماحول محبت اور وصل پر اتنی پابندیاں عاید کرتا ہے کہ محبوب اور محبوبہ کھل کر ایک دوسرے سے محبت کا اظہار نہیں کر سکتے۔ انہیں ہمیشہ بدنامی اور سنگسار ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ اسی لیے ساقی اپنی ایک معصوم سی خواہش کا اظہار ان لفطوں میں کرتے ہیں

؎ وہ سخی ہے تو کسی روز منا کر لے جائے

اور مجھے وصل کے آداب سکھا کر لے جائے

ہجر میں جسم کے اسرار کہاں کھلتے ہیں

اب وہی سحر کرے پیار سے آ کر لے جائے

اور جب مشرق میں سارے معصوم جذبے اور خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں تو انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ ایک نفسیاتی بحران کا شکار ہو جاتا ہے

 ہر طرف ٹوٹ پھوٹ جاری تھی

ایک کہرام میرے اندر تھا

جب انسان کے دل میں چھپی معصوم محبت کو اظہار کا موقع نہیں ملتا تو وہ غصے اور تلخی آگ میں بدلنے لگتی ہے اور زندگی میں نفسیاتی اور معاشرتی مسائل بڑھنے لگتے ہیں

 صرف آگ پیتا ہوں‘ اس طرح سے جیتا ہوں

اس طرح سے جینے میں‘ الجھنیں بہت سی ہیں

ایسی نفسیاتی الجھنیں آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں اور انسان کو اندر سے کھوکھلا کرنے لگتی ہیں ۔ اس کے من میں ان تمام لوگوں کے خلاف نفرت بڑھنے لگتی ہے جنہوں نے اس کے معصوم خوابوں کا قتل کیا تھا اور وہ اپنے دشمنوں کے قتل کا منصوبہ بنانے لگتا ہے اور پھر اس کی شخصیت کا تریک رخ روشن رخ پر حاوی ہونے لگتا ہے

ہر شیلف پر سجے ہیں مگر دشمنوں کے سر

ناداں‘ ترا دماغ ہے مقتل نہ کر اسے

جب انسان کی شخصیت کا تاریک رخ روشن رخ پر غالب آنے لگتا ہے تو تشدد پروان چڑھنے لگتا ہے اور انسان ان تمام نطاموں کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے جو انسان کی معصوم خوشیوں اور خوابوں کی راہ میں دیوار حائل کرتے ہیں۔ آخر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ انسان جو محبت اور پیار اور دوستی کا پیکر ہوا کرتا تھا ظلم و تشدد سے تنگ آ کر خود ظالم و جابر و قاتل بن جاتا ہے اور خود کو خدائے ظلم جاننے لگتا ہے۔ یہ انسان کا وہ تاریک رخ ہے جسے شاعری میں بیان کرنا آسان نہیں۔ ساقی شاعر تھے ماہرِ نفسیات نہیں تھے لیکن وہ بہت سے ماہرین سے زیادہ انسانی نفسیات کی پیچید گیوں سے واقف تھے۔ ان کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیے

بہرام کی واپسی

بس دماغ چل گیا

اور نیک نام سے

دل مرا بدل گیا

رائفل نکال کے

ایک دن نکل گیا

جو ملا اسے تمام کر دیا

جبر عام کر دیا

ختم شہر کا نظام کر دیا

خوں سے احتراز کیا

میرے سامنے بنے

خوف کا محاز کیا

میں خدائے ظلم ہوں

ظلم کا جواز کیا

ساقی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے موجودہ دور کے انسان کے تاریک رخ کو‘ جو تشدد اور شدت پسندی کو سینے سے لگا چکا ہے‘ نہایت خوبصورتی سے ادب کا حصہ بنایا ہے۔ یہ ایک شاعرانہ کرامت سے کم نہیں اور یہ کرامت ایک ایسا شاعر ہی کر سکتا ہے جسے منافقت سے نفرت ہو‘ جو آگ پیتا ہو اور اپنے اندر سات سمندوں کی گونج سنتا ہو۔ وہ فرماتے ہیں

؎ میرے اندر سات سمندر شور مناتے ہیں

ایک خیال نے دہشت پھئیلا رکھی ہے۔

میری ساقی سے ان کی زندگی میں کئی دفعہ ملاقات ہوئی۔ وہ مجھ سے بڑے پیار اور شفقت سے ملتے تھے لیکن انہیں عمر بھر ناشناسی کا دکھ ستاتا رہا

 یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک روز

تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے

Comments are closed.