اسلم ملک
کوئی سوا سو سال پہلے انگریزوں نے ضلع وار گزیٹئیرز میں ہمارے ہیروز کو ڈاکو قرار دیا تھا اور ہمارے معزز قبیلوں کو چور اور رسہ گیر بتایا تھا۔ بہر حال بہت سی معلومات بھی ان گزیٹئیرز میں تھیں۔
سرائیکی صوبے پر میری پوسٹ پر حسبِ توقع بعض دوست وہی گزیٹئیر بغل میں دبائے آگئےْ اور فرما رہے ہیں کہ انگریزوں نے تو لکھا ہے اس علاقے میں ملتانی، ڈیروی، جٹکی، بہاولپوری ، ریاستی، لہندا وغیرہ زبانیں تھیں، سرائیکی کا کوئی ذکر نہیں۔
حالانکہ ان دوستوں کو بھی معلوم ہے کہ پچاس ساٹھہ سال پہلے بزرگوں نےایک ہی زبان کیلئے مختلف علاقوں میں استعمال ہونے والے یہ سب نام ترک کرکے ایک ہی نام سرائیکی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جسے سب نے قبول کرلیا اور اب ہر جگہ یہی ایک نام رائج ہے۔
اردو ۔۔۔ اب ایک مسلمہ نام ہے لیکن یہ بھی کوئی ہزاروں سال پرانا نہیں، ڈیڑھ دو سو سال پہلے اختیار کیا گیا۔ اس وقت تک اس کے بھی کئی مختلف نام تھے۔
پنجابی ہی کو لیں۔۔۔۔ وسطی پنجاب کے اس علاقے میں ڈیڑھ دو ہزار سال پہلے بھی تو کوئی زبان بولی جاتی ہوگی لیکن اس کا نام پنجابی تو قطعی نہیں ہوگا کہ یہ لفظ ہی دیسی نہیں ہے۔
پنج + آب = پنجاب کا نام یقیناََ باہر سے آنے والوں نے ہی دیا۔
لاہور میں بیٹھے ہوئے شاید ہم سرائیکی ، پنجابی کے ایک ہونے کے واہمے میں مبتلا ہوسکتے ہوں، لسانی تحقیق اور دانشورانہ بحث سے اسے ثابت بھی کر سکتے ہوں لیکن وسیب میں اس سلسلے میں کوئی ابہام نہیں۔
سکول کی چھٹی کے وقت کسی بھی محلے میں چلے جائیں۔ گھر آتے ہوئے پہلی جماعت کے کسی پانچ چھہ سالہ بچے کو روک کر پوچھہ لیں۔۔۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ وہ سرائیکی ہے یا پنجابی ۔ پوچھیں تو یہ بھی بتا دے گا کہ محلے کےکون کون سے گھر سرائیکیوں کے اور کون سے پنجابیوں کے ہیں۔ اپنی اپنی اس شناخت کے باوجود وہ مل جل کر پیار محبت سے رہتے ہیں۔
وسیب میں ایسے فقرے میں نے بہت دفعہ سنے ہیں کہ
’’سرائیکی ساڈے بھیناں بھراواں ورگے نیں، ساڈیاں تاں رشتے داریاں وی ہے گیاں ، میری وڈی ننان سرائیکیاں اچ ویائی ہوئی ہے‘‘
یعنی پیار محبت بھی ہے اور اپنی اپنی الگ شناخت کا یقین بھی۔
براہ کرم دونوں کو برقرار رہنے دیں !
ایک بار بلوچستان حکومت کا اشتہار دیکھا تھا ، سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ میں موٹیویٹر قسم کی اسامیوں کا۔۔اس میں درج تھا کہ ژوب وغیرہ چند اضلاع میں سرائیکی بولنے والوں کو ترجیح دی جائے گی۔ان اضلاع میں سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔
کئی سال پہلے صوبہ سرحد کی کوئی جوبلی منائی گئی۔ پروگرامز میں تین بڑے مشاعرے رکھے گئے۔۔۔ اردو، پشتو اور سرائیکی ۔ اس لئے کہ پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سرائیکی بولی جاتی ہے اور وہاں کسی کو اس پر پنجابی کا گمان نہیں۔
یاد رکھیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا علمی ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن( سابق یونیورسٹی گرانٹس کمیشن) اور سب سے بڑا ادبی ادارہ پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز بھی سرائیکی کو الگ زبان تسلیم کرتے ہیں۔ دو یونیورسٹیوں میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ قائم ہیں۔بے شمار لوگ ایم اے اور کئی پی ایچ ڈی کرچکے ہیں۔ ملتان ، بہاولپور ، ڈیرہ اسماعیل خاں اور خیر پور ریڈیو سٹیشنوں سے سرائیکی نشریات ہوتی ہیں۔
بچپن کی ایک یاد
گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم ضلع بہاولپور میں ہی چنی گوٹھ کےعلاقے میں ننہیال جایا کرتے تھے۔1961 یا 62 ہوگا۔ میں چوتھی یاپانچویں جماعت میں تھا۔ میری خالہ کے گھر کے پچھواڑے ایک باغ میں مکتب سکیم کاسکول ہوتا تھا، درختوں کے نیچے، ٹاٹوں پر۔ اس سکول میں چھٹیاں فصل کاٹنے کے مہینوں میں ہوتی تھیں۔ سو ہماری چھٹیاں تھیں لیکن وہ کھلا تھا۔ میں وہاں چلا جاتا۔استاد صاحب اچھا سلوک کرتے۔ ایک دن میں ان کا رجسٹر حاضری دیکھنے لگا۔ دوجگہ بچوں کے نام خارج کئے گئے تھے۔ ایک لمبی لکیر کے آخر میں کیفیت کے خانے میں درج تھا۔۔۔پنجاب چلاگیا۔
یعنی اس علاقے کو پنجاب نہیں سمجھا جاتا تھا۔
♥