بشارت علی پندرہ برس کا تھا، جب اس کی ٹانگیں جواب دینے لگیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ ٹانگوں میں اس کم زوری کی وجہ آلودہ اور گندہ پانی ہے۔ لاہور کے نواحی علاقوں میں ہزاروں افراد آلودہ پانی کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔
پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے نواحی گاؤں کوٹ اسداللہ کے رہائشی بشارت علی کی حالت یہ ہے کہ اس ٹانگوں میں اتنا دم بھی نہیں کہ وہ اسکول کا بستہ اٹھا سکے۔ ڈاکٹروں کے مطابق پینے کے پانی میں آرسینک، فلورائیڈ کی زیادہ مقدار اور دیگر کیمیائی مادوں اور دھاتوں کی بھاری مقدار اس طرز کی بیماریوں کی وجہ ہے۔ علی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’میرے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا اور علاج کرانے کے لیے مجھے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی۔‘‘
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق لاہور اور لاہور کے نواح میں قائم 90 فیصد فیکٹریاں اپنا صنعتی فضلہ باقاعدہ طور پر ٹھکانے لگانے کی بجائے کھلے نالوں میں پھینک دیتی ہیں، جس سے پینے کا پانی زہریلا ہو رہا ہے۔
مقامی میڈیا نے ایک دہائی قبل پہلی مرتبہ بشارت علی کے گاؤں میں زہریلے پانی کے مسئلے کو اجاگر کیا تھا، تاہم دس برس سے زائد عرصہ بیت جانے کے باوجود حکومتی عہدیدار اور پانی سے متعلق ماہرین اس علاقے کے دورے تو کرتے رہے، تاہم کوئی خاطر خواہ حل سامنے نہیں آیا۔
اس علاقے میں بہت سے نئے کنوئیں تو کھودے گئے ہیں تاہم ان سے حاصل ہونے والا پانی اور زیادہ آرسینک کا حامل ہے۔ اس دوران علی اور اس علاقے کے رہائشی ایک بھاری قیمت چکا چکے ہیں۔ سماجی کارکنوں کے مطابق سن 2000 سے اب تک قریب اس گاؤں کے قریب دو سو بچے ہڈیوں اور دانتوں کی کم زوری کا شکار ہو چکے ہیں۔
علی کے مطابق، ’’اس عرصے میں یہ افراد بالغ ہو چکے ہیں، تاہم گھر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کی ہڈیاں گلی ہوئی ہیں اور ان سے کوئی شادی تک کو تیار نہیں۔‘‘ بشارت علی کی دونوں ٹانگوں کی لمبائی میں نمایاں فرق ہے اور دانت انتہائی پیلے اور کم زور ہیں، جب کہ اسے چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
کلالاں والا کے علاقے میں واقع کوٹ اسد اللہ کے ایک اور 26 سالہ رہائشی محمد مختار کے مطابق، ’’لوگ اب ہمیں دیکھ کر ہی پہچان جاتے ہیں کہ ہمارا تعلق کلالاں والا سے ہے۔‘‘ اس علاقے میں اب لوگ شمسی توانائی سے چلنے والے ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ کے باہر قطار بنا کر پینے کے پانی کے کنستر بھرتے نظر آتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے فلٹریشن پلانٹ ابھی زیرتعمیر ہے، تاہم مقامی رہائشیوں کے مطابق پانی کی جتنی ضرورت ہے، اس کے اعتبار سے یہ دو پلانٹ بھی کافی نہیں ہوں گے۔
پاکستانی میڈیا میں اندرون سندھ کے دیہات خاص کر تھر کی پسماندگی کی رپورٹیں تو بہت ملیں گے مگر پنجاب میں کیا ہورہا ہے اس پر پنجابی میڈیا خاموش رہتا ہے۔ شہباز شریف کی گڈ گورننس کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پنجاب چھوڑ لاہور کے باسیوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کیا جا سکا۔
DW/News Desk
♦