پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کراچی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اغوا کیے جانے والے افراد کو رہا اور دھمکیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو منگل کو ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ منظور پشتین کافی تاخیر سے جلسے میں پہنچے تھے۔لاہور سے ہوائی ٹکٹ منسوخ کیے جانے کے بعد وہ بذریعہ سڑک کراچی پہنچے۔ جلسہ گاہ پہنچنے پر لوگوں نے کھڑے ہوکر نعروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔
کراچی میں رات گئے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے منظور پشتین نے کہا کہ جنھیں دھمکیاں دی گئیں یا اغوا کیا گیا،اگر انھیں رہا نہ کیا گیا یا دھمکیوں کا سلسلہ بند نہیں کیا گیا تو 15 تاریخ کو ملک بھر میں احتجاج کیا جائے گا اور اس روز سب کو نکلنا ہوگا۔
نامہ نگار ریاض سہیل کا کہنا ہے کہ منظور پشتین نے کہا کہ ایک طرف اغوا کیے جا رہے ہیں، موبائل چھینے جا رہے ہیں، راستے بند کیے گئے ہیں اور مذاکرات اور جرگوں کی بات کرتے ہیں۔
’جرگے تو دو دشمنوں میں ہوتے ہیں عوام اور ریاست کے درمیان تو آئین ہوتا ہے، اگر آپ معاملات جرگے کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں تو چلیں ٹھیک ہے‘۔
انہوں نے سندھ اور بلوچستان سے لاپتہ افراد کے خاندانوں سے کہا کہ وہ اتحاد بنائیں وہ ان کے ساتھ اتحاد کریں گے۔
منظور پشتین کے مطابق فاٹا سے تین بزرگ کراچی آ رہے تھے تاکہ اپنے لاپتہ بیٹوں کے بارے میں بتا سکیں لیکن انہیں ریاست کے اہلکاروں نے بسوں سے اتار دیا اب وہ پیدل آ رہے ہیں، ان کی اس بات پر شرکا نے شیم شیم کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔
منظور پشتین نے جلسے کے شرکا کو مخاطب کر کے کہا کہ ’اگر اب کوئی اہلکار کسی محلے میں آئے تو اسے پوچھیں کہ کس قانون کے تحت، کس حکم نامے کے مطابق لوگوں کو لینے آئے ہیں اور ان کا محاصرہ کریں ‘۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ‘ٹُرتھ اینڈ ری کنسیلئیشن کمیشن (یعنی حقائق اور مفاہمتی کمیشن) بنایا جائے تاکہ حقائق معلوم ہو ہم اپنے مطالبہ پر ڈٹے رہیں گے، پہلے راؤ انوار کو پھانسی دلوائیں گے اور اس کے بعد احسان اللہ احسان اور پرویز مشرف کو پھانسی دلوائیں گے۔
انھوں نے الزام لگایا کہ قبائلی علاقے وزیرستان میں امن کمیٹی کے نام پر طالبان کو رکھا جا رہا ہے، جو پکڑ دھکڑ میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔
جلسہ گاہ میں منظور پشتین کی آمد تک لوگوں موجود رہے باوجود اس کے بجلی کا انتظام نہیں تھا لوگوں نے موبائل فون کی بتیاں جلا کر روشنی کی۔
خیال رہے کہ کراچی میں جلسہ شروع ہونے کے کافی دیر بعد منظور پشتین جلسہ گاہ پہنچے تھے کیونکہ لاہور سے ہوائی ٹکٹ منسوخ کیے جانے کے بعد وہ بذریعہ سڑک کراچی پہنچے۔
سہراب گوٹھ جلسہ گاہ میں مزدور رہنما، خواتین تنظیمیں اور مبینہ طور پر لاپتہ ہونے والے پشتون اور بلوچ افراد کے لواحقین شامل تھیں۔ جلسہ گاہ کے اردگرد رینجرز اور پولیس کی نفری تعینات تھی۔
خیال رہے کہ سنیچر کو سندھ کی صوبائی حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ کو سہراب گوٹھ میں واقع ایک میدان میں جلسے کی اجازت دے دی تھی جبکہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جلسہ پرامن ہوگا اور اس میں اشتعال انگیزی نہیں کی جائے گی۔
اس سے قبل پشتون تحفظ موومنٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ کراچی میں تنظیم کا جلسہ روکنے کے لیے ان کے 12 سے زائد کارکنوں اور حامیوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے جبکہ تنظیم کے سربراہ منظور پشتین کا ہوائی ٹکٹ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کہ پرامن اجتماع کرنا پاکستان کے تمام لوگوں کا آئینی حق ہے۔ ’پی ٹی ایم کے خلاف ریاستی جبرمیں ایک بارپھرتیزی دیکھنے میں آئی ہے جو کہ تشویشناک بات ہے‘۔
ایچ ار سی پی کا کہنا ہے کہ ’اگر اس حقیقیت کو مدنظر رکھا جائے کہ آج تک پی ٹی ایم کی جتنی بھی ریلیاں ہوئی ہیں وہ پرامن رہیں، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکام نے طاقت کا جو بے جا استعمال کیا ہے، اس کی ہرگزضرورت نہیں تھی‘۔
BBC Urdu
One Comment