منیر سامی
پاکستان سے ہر طرح کی خبر آتی ہے لیکن انصاف کی کوئی خبر نہیں آتی، ابھی کل ہی پاکستان کے چیف جسٹس نے پی آئی اے کی مارکیٹنگ کے بارے میں نیا حکم صادر کر دیا ، یعنی جو کام کسی کاروباری ادارے کی انتظامیہ کا ہوتا ہے اس میں بھی دخل اندازی کردی۔ اس قسم کی دخل اندازی کی خبر روزآتی ہے، یوں عدالت نے حکومت کو بالکل چِت کر کے رکھ دیا ہے۔ عدالت کا نام سنتے ہی انصاف کا خیال آتا ہے۔ لیکن اب عدالت ہر طرح کا کام کرتی ہے لیکن وہ جو ایک چیز انصاف ہوتی ہے، بس وہ ہی نہیں کرتی۔ ابھی اسلام آباد کی عدالت نے حکم صادر کر دیا ہے کہ ملک کا ایک ایک ٹی وی چینل پانچو ں وقت کی اذان نشر کرے۔ گویا پاکستان کے گلی محلوں میں اذانوں کا کام بند ہو گیا ہے۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیئے۔غرض یہ کہ ہر طرف ایک افرا تفری پھیلی ہے جس میں انسان انصاف سے دور تر ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہر طرف چوپٹ راج کے نقارے پٹ رہے ہیں۔
انصاف کے حوالے سے پچھلے ہفتوں مہینوں میں آپ نے ’نقیب اللہ ‘ کا بھی ذکر سنا ہوگا۔ وہی پشتون نوجوان جسے کراچی میں پولیس والوں نے ناجائز طور پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ بھی حرکت میں آئی تھی، اور ایک پولیس افسر راؤ انوار عدالت کو بار بار غچے دے کر بڑی مشکل سے گرفت میں آیا تھا۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ وہی راؤ انوار جس پر تین چار سو ماورائے عدالت قتل کے الزام ہیں جیل سے دور ایک محفوظ جگہ پر مزے میں ہے، وہ جب عدالت آتا ہے ، اگر آتا ہے، تو پولیس کی ایک بڑی تعداد کے جلو میں، اسے ہتھکڑی بھی نہیں لگی ہوتی اور یوں لگتا ہے کے وہ دل ہی دل میں مسکرا کر نظامِ انصاف کو منہ چڑا رہا ہو۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس پر کوئی از خود اقدام نہیں کرتے یا کر نہیں پاتے۔
نقیب اللہ ہی کے قتل کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں سے احتجاج کی ایک تحریک’ پشتون تحفظ تحریک ‘ اٹھی جس کی قیادت ایک نوجوان منظور پشتین کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ نقیب اللہ اور اس کے ساتھ سینکڑوں پشتونوں کے ماورائے قتل معاملات کے بارے میں اور ہزاروں پشتونوں کی گمشدگی کے بارے میں انصاف کیا جائے۔ جن کو گم کر دیا گیا ہے ان کو سامنے لا کر ، اگر ان پر کوئی الزام ہے تو ان پر مقدمے چلا کر انصاف کیا جائے ہے۔ یہ مطالبہ ہمارے عسکری نظام کی دکھتی رگ ہے۔ سو وہ اب بلوچستان کی طرح ہی ان پشتونوں کے خلاف کاروایئوں میں مصروف ہے۔
منظور پشتین کی تحریک کو نہ صرف پشتون عوام کی بلکہ پاکستان کے انصاف پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کے مختلف صوبوں کے بڑے شہروں میں اس کے پر امن جلسے ہو رہے ہیں جن میں ہزاروں کی تعداد میں عوام شریک ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اس تحریک نے کراچی میں اپنا جلسہ کرنا چاہا تو اس کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ کراچی میں تقریباً چالیس لاکھ پشتون آباد ہیں۔خیبر پختون خواہ کے بعد یہ پاکستان میں پختونوں کی سب سے بڑی آبادی ہے۔
پشتونوں کو یہاں رہنے کا حق بھی ہے اور سیاسی سر گرمیوں میں حصہ لینے کا بھی۔ لیکن یہاں پشتون تحفظ تحریک کو جلسہ کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔ جب بہ مشکل جلسے کرنے کی اجازت دی بھی گئی تو منظور پشتین کو کراچی آنے والی پرواز سے روکنے کے لیئے اس کا ٹکٹ منسوخ کر دیا گیا۔ جب اس نے پشاور سے کراچی جانے کے لیئے موٹر کا سفر اختیار کرنے کی کوشش کی تو اس مختلف صوبوں میں گرفتار کر کے اس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ پھر بھی کسی طرح کراچی پہنچ گیا، اور رات دیر گئے جلسے میں شرکت کی۔
پاکستان کی افوج کے سر براہ اس تحریک سے اور منظورپشتین سے سخت خفا ہیں۔ ان کے ایما پر پاکستان کے میڈیا میں اس تحریک کے بارے میں خبریں عام کرنا ممنوع ہے۔ لفافہ حاصل کرنے والے صحافیوں کے ذریعہ سے ملک سے غداری وغیرہ کے گھسے پٹے بیان پھر پھیلائے جارہے ہیں ۔ اس تحریک کے بارے میں کسی قسم کی مثبت بات کو ملک دشمنی قرار دیا جارہا ہے۔ اور وہی صورت پیدا کی جارہی ہے جو اب سے پہلے بلوچستان اور کراچی وغیرہ میں پیدا کی گئی تھی۔ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ اس تحریک کو بھی سخت کاروائی کے ذریعہ کچلا جائے گا۔ اس کے نتیجہ میں جس قسم کی مزاحمت اور خانہ جنگی پیدا ہوسکتی ہے، پاکستان ظاہر ہے کہ اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
پاکستان میں جب جب بھی عوام نے انصاف طلب کیا ہے ، ان کے خلاف سخت گیری ہی اختیار کی گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان میں جگہ جگہ کشت و خون ہوتا رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت کو اس کے نتائج سے بے خبر رکھا جاتا ہے، جن کو کوئی خبر ہوتی بھی ہے وہ روز روز یہ قتل و غارت گری دیکھ دیکھ کر شاید ایسے بے حس ہوتے جارہے ہیں کہ ان انہوں نے انصاف طلب کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔
شاید یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری اعلیٰ شہری عدالتیں اب حقیقی انصاف فراہم کرنے کا،اپنا منصب ادا کرنے کے بجائے نئے نئے مشاغل اپنا رہی ہیں۔کچھ کام انہوں نے فوجی عدالتوں کو سونپ دیا ہے جو روز ہی سرسری سماعتوں میں موت کی سزایئں سناتی رہتی ہیں۔ اور ہماری افواج کے سربراہ ان سزائوں کی توثیق کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ انصاف ہے تونا انصافی کیا ہے؟اس کی خبر شاید اللہ ہی کوہوگی۔
♣
One Comment