انٹرویو : خالد سہیل
سہیل: ساقی فاروقی صاحب ! ہمارے معاشرے میں دو موضوعات ایسے ہیں جن پر کھل کر بات نہیں ہو سکتی۔ایک جنس ہے اور دوسرا مذہب۔ آپ نے ان دونوں موضوعات پر کھل کر باتیں کی ہیں‘ اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کیا ہے اور ان ٹیبوزTABOOS کو توڑا ہے۔ میں آپ کے نظریات کے ارتقائی سفر کے حوالے سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ بتائیں گے کہ آپ نے جس خاندان اور ماحول میں پرورش پائی وہاں مذہب اور جنس کے بارے میں کیا رویے مروج تھے؟
ساقی: خالد! میں گورکھ پور میں پیدا ہوا۔ ہمارا خاندان زمینداروں کا خاندان تھا۔ہم بہت بڑے زمیندار تو نہیں تھے لیکن ایک پورا گاؤں ہمارا تھا۔ اس گاؤں میں تقریباٌ دو ہزار آدمی بستے تھے۔ اس گاؤں کی ہر چیز پر ہمارے خاندان کا کنٹرول تھا۔
میرے دادا خان بہادر خیرات نبی فاروقی یو پی کے انسپکٹر جنرل ہو گئے تھے اور جب میرٹھ میں بلوا ہوا تھا تو وہ وہاں کے مجسٹریٹ تھے۔ میں ان کا واحد پوتا تھا۔ بڑے بیٹے کا بیٹا۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔
میں اپنے والدین کی شادی کے آٹھ سال کے بعد پیدا ہوا تھا۔ میری پیدائش پر بڑا جشن منایا گیا تھا۔ گاؤں کی ہر عورت کو ایک ساڑھی اور ہر مرد کو ایک قمیص تحفے کے طور پر دی گئی تھی۔ دادا جان نے چوبیس گولیوں کا فائر بھی کیا تھا۔ بچپن سے ہی میری خدمت کے لیے نوکر اور نوکرانیاں رکھے گئے تھے۔ اسی سے میرا مزاج بہت خراب ہو گیا تھا۔کاش مجھے اسی وقت جھڑکی پڑتی‘ ڈانٹا جاتا‘ مار پیٹ ہوتی تو میں سدھر جاتا اور مزاج میں شعلگی پیدا نہ ہوتی۔
I WAS ALLOWED TO DO WHATEVER I WANTED TO DO.
جب گاؤں میں میرے دادا کا انتقال ہوا تھا تو خاندان میں میں واحد مرد موجود تھا اس وقت۔ مری عمر صرف چھ سال تھی۔ ہمارے باغوں میں اگر کوئی آم چراتا پکڑا جاتا تو اسے میرے پاس لایا جاتا اور میں انہیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا۔ میں آج بھی آنکھیں بند کرتا ہوں تو مجھے نوجوان مردوں اور عورتوں کی پیٹھ پر کوڑوں کے نشان نظر آتے ہیں۔ اب میں ان واقعات کے بارے میں سوچتا ہوں تو میری روح کو تکلیف ہوتی ہے۔
سہیل: آپ کے بچپن میں آپ کے والد صاحب کہاں تھے؟
ساقی: میرے ابا سیتا پور چلے گئے تھے جہاں وہ ویٹنری سرجن کے طور پر کام کرتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ میرے ہاں جو جانوروں سے محبت ہے انہی کی وجہ سے ہے۔ جب میں ان کے ساتھ رہتا تھا تو کتوں بلیوں کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ میری نظم ’ خالی بورے میں زخمی بلا‘ کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو ہمارے گاؤں کے جنگلی بلے ہمارے گھر میں گھس آتے تھے اور ہمارے مرغوں مرغیوں کو کھا جاتے تھے۔ ہمارا ایک نوکر صاحب جان ہوا کرتا تھا وہ گھر کے سارے دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کر دیتا تھا اور صرف ایک دروازہ کھلا رکھتا تھا پھر وہ بلے کو گھر میں بھگاتا اور بورے میں بند کر دیتا۔ اس کے بعد وہ پورے کو اپنی پیٹھ پر رکھ کر قصبے سے باہر لے جاتا اور اسے تالاب میں ڈبو دیتا۔میں بھی کئی دفعہ اس کے ساتھ تالاب تک گیا تھا۔
میں نے جب اپنی نظم ڈیویلپ کی تھی تو اس میں بلے اور بورے کو بدن اور روح کا سمبلSYMBOL OF BODY AND SOUL بنایا تھا ۔
تم نے جنس کے بارے میں سوال کیا ہے۔ میں خود کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ میری شخصیت اور شاعری میں اتنا STRONG SEXUAL CONNOTATION کہاں سے آیا ہے۔خالد میری جان !میں زندگی میں پہلی بار یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے گاؤں کے مرد جب ملازمت کے لیے شہر چلے جاتے تھے۔تو ان کی نوبیاہتا بیویاں ہماری ڈیوڑھیوں میں آ کر سوتی تھیں وہ ہمارے گھر کو محفوظ سمجھتی تھیں .میں چار پانچ برس کی عمر سے ہی آدھی رات کو اماں کا بستر چھوڑ کر خاموشی سے ان عورتوں کے پاس پہنچ جاتا اور ان کی ساڑھیوں کو الٹتا پلٹتا اور ان کے پستانوں اور شرمگاہوں کو چھوتا AND THEY ALSO ENJOYED IT. کیونکہ وہ بھی شوہروں کے بغیر خود کو تنہا محسوس کرتیں۔
سہیل : کیا آپ کا خاندان مذہبی تھا؟
ساقی: والدہ بھی مذہبی تھیں والد بھی مذہبی تھے سارا خاندان ہی مذہبی تھا۔ میرے رشتہ داروں اور کزنز میں دور دور تک کوئی ادیب شاعر نظر نہیں آتا صرف میرے دادا کے بھائی تھے جو میری پیدائش سے پہلے فوت ہو چکے تھے۔ انہوں نے بڑے بڑے صندوقوں میں بڑی بڑی کتابیں بند کر رکھی تھیں جنہیں ہمیں پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر میں راتوں کو چھپ چھپ کر چادر میں کتابیں لپیٹ کر لالٹین یا ٹورچ کی روشنی میں پڑھا کرتا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ ساری کتابیں پڑھ ڈالیں THAT WAS A FANTASTIC EXPERIENCE
ان کتابوں کو‘ جن میں الف لیلیٰ اور بہشتی زیور بھی شامل تھے‘جنسی کتابیں سمجھا جاتا تھا۔ انہیں پڑھنے سے میری آنکھیں تو خراب ہو گئیں لیکن میرے ذہن میں روشنی آ گئی۔
جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو پاکستان بن گیا اور ہمارے خاندان والے بنگلہ دیش چلے آئے۔ میرے خالو وہان ایک اچھے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے رشتہ داروں کو بلا کر دھان کی ایک ایک فیکٹری الاٹ تو کروا دی لیکن ہمارے خاندان میں کسی کو بھی بزنس کا تجربہ نہیں تھا اس لیے سب ناکام رہے۔
وہاں سے میری غریبی کا اصل دور شروع ہوا اور وہ غریبی بھی قیامت کی تھی۔ خاندان والے تو کراچی چلے گئے لیکن ابا نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی کو ڈھاکہ کے اردو میڈیم رحمت اللہ ہائی سکول اور اس کے ہوسٹل میں داخل کروا دیا۔ چونکہ ہم ڈھاکہ میں تھے اس لیے ہمیں کراچی میں خاندان کی غربت کا بالکل اندازہ نہ تھا۔ ہمارے خاندان کو کراچی کی بہار کالونی کے ایک TWO BEDROOM FLAT میں رہنا پڑا۔ وہ روٹی اور چٹنی کھاتے رہے۔
ابا نے اماں کے زیورات بیچ کر ہمارا خرچ برداشت کیا۔ ہماری اماں اتنی پریشان ہوئیں کہ ذہنی توازن کھو بیٹیں اور ان کا NERVOUS BREAKDOWN ہو گیا۔
میٹرک کے امتحان کے بعد میں اور میرا چھوٹا بھائی ایک سات منزلہ جہاز ایس ایس ارونڈا S S ARONDA میں چٹاگانگ سے چلے اور آٹھ دن میں کراچی پہنچے۔ مجھے اس دور کا ایک واقعہ یاد رہ گیا ہے۔ جس کا تعلق مذہب سے ہے۔ وہ سمندر کا ہمارا پہلا سفر تھا۔ ہم سارا راستہ قے کرتے رہے۔ہم ہی نہیں جہاز کے سب مسافروں کا برا حال تھا۔ جب ہم سری لنکا کے قریب سے گزر رہے تھے تو زبردست طوفان آیا تباہی مچ گئی اس وقت میری عمر صرف سولہ سال تھی۔ میں نے پہلے کبھی اس واقعہ کے بارے میں اس انداز سے نہین سوچا۔ لیکن چونکہ تم ماہرِ نفسیات ہو اور میں نے بھی دو سال نفسیات پڑھی ہے اس لیے میں اب اس حوالے سے سوچ رہا ہوں۔
خبریں آنے لگیں کہ کراچی سے ARONDA کو بچانے کے لیے جہاز بھیجے جا رہےہیں۔ حالت بہت خراب تھی۔ موجیں ساتوں منزلوں کو چھو رہی تھیں ۔میں لڑکھڑا تا ہوا قے کرتا ہوا سیڑھی پکڑتا ہوا چوتھی منزل سے اوپر والی ساتویں منزل تک پہنچا۔ میں نے آسمان کی طرف نظر کی اور غصے میں چیخا’واپس لے سالے ! اس طوفان کو واپس لے‘ میں نے خدا کو زندگی میں پہلی دفعہ گالی دی۔اس وقت مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔ میں نیم بیہوشی کے عالم میں تھا لیکن ہوا یہ کہ آدھے گھنٹے کے بعد طوفان ختم ہو گیا۔ میرا کام ہو گیا۔ کچھ سکون ملا۔ میں نے اسے اپنی پہلی فتح سمجھا۔ اور سوچا کہ
YOU CAN EVEN MANIPULATE GOD
میں نے سوچا خدا بھی اس وقت سنتا ہے جب اسے گالی دی جائے۔ میں ساری عمر دعائیں مانگتا رہا تو اس نے نہ سنا گالی دی تو فوراٌ سن لیا۔ مجھے گالی دینے کا بڑا مزا آیا اور یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ خدا برابر کا آدمی ہے اس واقعہ کے بعد بھی خدا میرے ساتھ ساتھ چلتا رہا بلکہ خدا سے محبت بڑھ گئی۔
اسی زمانے میں کراچی میں میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا جس کا نام محمد عثمان تھا وہ ہماری غربت کا زمانہ تھا روٹی اور چٹنی پر گزارا ہوتا تھا بعد میں جب ابا کو اچھی نوکری مل گئی تو کچھ حالات بہتر ہوئے۔ کالج کے پہلے سال میں میں نے سائنس پڑھی۔ ابا کے کہنے پر۔ دوسرے سال جب وہ شہر چھڑ کر چلے گئے تو میں نے بھی سائنس چھوڑ دی۔ میں آرٹس پڑھنا چاہتا تھا۔ والد صاحب کو پتہ چلا کہ سائنس چھوڑ دی ہے تو کہنے لگے کامرس پڑھو۔ سو کامرس میں بھی دو سال ضائع ہوئے۔
I WAS NEVER A FIRST CLASS STUDENT میٹرک سیکنڈ کلاس میں پاس کیا انٹر سیکنڈ کلاس میں بی اے بھی سیکنڈ کلاس میں۔ سیکنڈ کلاس بھی ایسی کہ جو تھرڈ کلاس کے قریب قریب چلتی ہے۔ امتحانوں میں ریاضی میں اچھے نمبر آتے تھے اردو انگریزی میں کم بلکہ اردو میں انگریزی سے بھی کم۔
پھر آرٹس پہلے سال سے شروع کیا۔ آخر میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بنیاد بن گئی۔ پتہ چل گیا کہ کون سی کتابیں پڑھنی چائییں ایم اے سال اول کا امتحان دیا تو سب پرچے پاس کر لیے۔ شاعری کے پرچے میں فیل ہو گیا۔
اسی دوران میرے چھوٹے بھائی لندن آ چکے تھے انہوں نے مجھے لندن بلوا لیا اور میں ایم اے کا کورس مکمل نہ کر سکا۔
ابھی ابھی میں اپنے قریبی دوست عثمان کی بات کر رہا تھا۔ میں اس کے گھر اکثر جایا کرتا تھا ۔میں اس کے گھر لنچ کیا کرتا تھا غربت کے زمانے میں۔ وہ اپنے بھائی اور بھابی کے ساتھ رہتا تھا۔ ان کے حالات ہم سے بہتر تھے۔ میری غربت میری انا کو مجروح کرتی رہتی تھی۔ ان دنوں اس کی بھابھی حاملہ تھیں۔ وہ میرا بہت لاڈ کیا کرتی تھی۔ بہت پیار کرتی تھی۔ جس دن میں نہیں جاتا تھا وہ پوچھتی تھی۔۔۔ـ’ شمشاد (ان دنوں میں شمشاد ہوا کرتا تھا) کو کیوں لے کر نہیں آئے؟‘
I DEVELOPED GREAT AFFECTION FOR HER. SHE WAS A WONDERFUL PERSON
جب وہ زچہ و بچہ کے ہسپتال میں داخل ہوئیں اور مجھے پتہ چلا کہ بھابھی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے تو میں نے ہسپتال جاتے ہوئے پھو ل خریدے۔ وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ وہ بستر میں پڑی رو رہی ہیں۔ بچہ قریب پڑا تھا۔ میں نے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ نہ اس کے ہاتھ تھے نہ پیر چاروں غائب تھے۔ THAT WAS THE END OF GOD FOR ME
میں نے سوچا کہ ایسی مہرباں عورت کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ اس معصوم بچے کو‘ جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا‘ یہ سزا کیسی؟ خدا میرے اندر ٹوٹ گیا۔ میں پھر بھی اس ٹوٹے ہوئے خدا کو لے کر چلتا رہا۔ لندن آنے کے بعد میں نے خدا اور مذہب کے بارے میں COMPREHENSIVE مطالعہ کیا۔مجھے پتہ چلا کہ آدھے فلسفی حق میں ہیں اور آدھے خلاف۔ آدھے خدا کو مناتے ہیں آدھے نہیں مانتے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی اندر ہی کا مسئلہ ہے۔ جو خدا مجھے میرے خاندان اور مذہب نے دیا تھا وہ تو مر مرا گیا۔
میں نے ویسے سب دروازے بند نہیں کیے۔ دنیا میں جتنے پیغمبر آئے ہین وہ FICTITIOUS ہوں یا اصلی۔ وہ موسیٰ عیسیٰ ہوں ابراہیم ہوں یا کرشن میں سب کو مانتا ہوں سب کی عزت کرتا ہوں۔ حسرت موہانی جیسے مذہبی آدمی نے (وہ آج کی بنیاد پرست دور میں ہوتے تو لوگ انہیں قتل کر دیتے۔)۱۹۴۰ کی دہائی میں اپنی کتاب حضرت کرشن علیہ السلام کے نام منسوب کی تھی۔
کتابوں کے مطابق خدا نے کہا ہے کہ ہم نے دنیا کے ہر خطے میں پیغمبر بھیجے پیں۔ اس لیے میں ان تمام ’پیغمبروں‘ کا قائل ہوں، اس لیے کہ وہ زمینی مخلوق تھے۔ وہ سب اپنے زمانے کے ترقی پسند لوگ تھے۔ غربا کو قانونی حقوق دینے ان کی عزت بچانے کے لیے آئے تھے ان کی زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے آئے تھے ’پیغمبروں‘ کا یہ کام بہت بڑا ہے۔
THEY WERE GREAT PEOPLE OF THEIR TIMES لیکن جو بات مجھے تنگ کرتی ہے اور جو میں نے اس سے پہلے کسی سے نہیں کہی وہ یہ ہے کہ ان سب کو ایک جھوٹ بولنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے کہہ دیا کہ آسمانی کتابیں ایک وجد کے عالم میں ہم نے خود لکھی ہیں تو لوگ انہیں نہ مانتے۔ وہ کہتے کہ یہ تو ہماری طرح کے معمولی انسان ہیں ۔ حوائج ضروریہ کے محتاج ہیں غسل کرتے ہیں جنس میں ملوث ہوتے ہیں شادی کرتے ہیں بچے پیدا کرتے ہین وہ کہتے کہ ہماری طرح کے انسان کیسے پیغمبر بن سکتے ہیں چنانچہ THEY HAD TO INVENT SOMEBODY
سب نے کہا کہ خدا نے ہم پر وحی نازل کی ہے۔ یہ ایک جھوٹ ‘ بس ایک ہی جھوٹ سب نے بولا ہے۔ میں اسے دروغِ مصلحت آمیز سمجھتا ہوں۔ خدا ان کے ذہن کا اختراع ہے۔ باقی سب کام انہوں نے اچھے کیے۔
یہ ہے میرا مذہب کے بارے میں نقطہِ نظر۔اور ATTITUDE ۔ ایک بات اور کہتا چلوں اگر کوئی انسان مذہبی ہے لیکن نیک ہے تو میں اس کی عزت کرتا ہوں لیکن اگر کوئی انسان غیر مذہبی ہے لیکن نیک ہے تو میں اس کی بھی عزت کرتا ہوں۔ اگر کوئی غیر مذہبی آدمی ظالم ہے تو میں اس کی عزت نہیں کرتا۔ اسی طرح اگر کوئی مذہبی آدمی ظالم ہے تو میں اس کی بھی عزت نہیں کرتا۔
ایک شاعر ہونے کے ناتے بس یہی میرا نظریہ ہے۔ چونکہ خدا کا مسئلہ پوری طرح میری سمجھ میں نہیں آیا اس لیے میں نے شک والا دائرہ کھلا رکھا ہے۔ میں ابھی انکار والی منزل تک نہیں پہنچا۔ میں تشکیک والے زینے پر کھڑا ہوں۔ اگر کبھی کوئی کھڑکی کھل گئی اگر خدا مجھ پر منکشف ہو گیا REVEAL ہو گیا تو میں مان لوں گا اور اقرار کر لوں گا۔
سہیل : ’زندہ پانی سچا‘ کے دیباچے میں آپ نے لکھ ہے
سب سچے ہیں
نگر نگر سب سچے ہیں۔
ان سچوں میں
اب بھی ایک جگہ خالی ہے
ایک جھوٹے کی
جس کی شیطانی آنکھوں میں
صرف تمسخر ہو اور نفرت کے شعلے ہوں
جو سقراطوں اور مسیحاؤں کے منہ پر
تھوک سکے۔۔۔
تھوک سکے اور اک موٹی سی گالی دے
اس دیباچے کے بارے میں کچھ بتائیں
ساقی: آج سے تقریباٌ ۴۴ برس پیشتر میں نے شاعری کی اور ۵۵ میں ’ادبِ لطیف‘ میں میری غزل یا نظم چھپی۔ اس دور میں فیض ‘ راشد اور میرا جی بہت مشہور تھے میں نے سوچا تھا کہ کچھ ایسا کام کیا جائے جو ان تینوں کو سمیٹ کر آگے لے جائے۔ میری خواہش تھی کہ میں نئے موضوعات کا تعارف کرواؤں اس کی ایک ہی صورت نظر آتی تھی کہ جتنے مروجہ الفاظ کلیشے بن گئے ہیں ان کو ترک کیا جائے۔شاعر خود تو اہلِ دل اور اہلِ نظر بن گئے تھے اور رقیبوں کو اہلِ ہوس اور اہلِ حرص بنا دیا گیا تھا میں نے کہا THAST IS NOT POSSIBLE میں نے سوچا ان شاعروں میں بھی وہی کمینگیاں ہوں گی وہی جھوٹ ہوگا وہی سچائی ہوگی جو سب میں ہے۔ شاعر بھی اسی معاشرے کا فرد ہے۔ جس میں سب رہتے ہیں جس نے اسے جنما ہے۔ شاعر آسمان سے ٹپکی ہوئی مخلوق تو ہے نہیں۔ بہت سے شاعر سمجھتے ہیں کہ ہم SUPERIOR چیز ہیں‘ آسمان سے نیچے دیکھتے ہیں۔ فیضؔ صاحب پر بھی میں نے یہی اعتراض کیا تھا۔ میں نے ان سے کہا تھا ’آپ انسان سے محبت نہیں کرتے‘
’ یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘ فیض صاحب نے کہا۔’ ہم ساری عمر انسان سے ہی محبت کرتے آئے ہیں‘۔
میں نے جواب دیا’ آپ نے اور دیگر ترقی پسندوں نے انسان سے نہیں انسان کی شبیہہ سے محبت کی ہے۔ REAL انسان تو آپ بھول ہی گئے۔ اس کی ایک شبیہہ اپنے ذہن میں بنا رکھی ہے اس کا ذکر تو کرتے رہے لیکن گوشت پوست کے انسان کو بھول گئے۔ وہ انسان جس کے ہاں جنس بھی ہے بھوک ہے مزاح بھی ہے کرب بھی ہے اس کی جو TOTAL PERSONALITY ہے اس کا تو ذکر نہیں کرتے کہ اس کا ایک ROMANTIC IMAGE بنا رکھا ہے۔ اس لیے یہ جھوٹ پیدا ہو گیا ہے اور سب ترقی پسندوں میں ایک سی یتیمانہ یکسانیت پیدا ہو گئی ہے۔
میں نے کہیں لکھا ہے کہ جب میر تقی میرؔ نے لکھا تھا
؎ کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
تیری آنکھوں کی نیم خوابی سے
تو انہوں نے پہلی بار اپنی محبوبہ کا ان الفاظ میں ذکر کیا تھا۔ اب اگر خالد سہیل کی محبوبہ بھی ویسی ہی ہو اور وہ بھی اپنی محبوبہ کے لیے وہی بات کہیں اور اسی انداز سے کہیں تو یہ کلیشے ہوگا۔
خالد سہیل کا مسئلہ یہ ہوگا کہ چونکہ وہ ۱۹۹۸ میں زندہ ہے اس لیے اس کی محبوبہ بھی مختلف ہوگی اور اسے اس کا ذکر بھی مختلف انداز سے کرنا ہوگا۔ HE HAS TO WRITE ABOUT HER IN HIS OWN WORDS۔
۔ خالد سہیل کا تجربہ اور زمانہ میر سے مختلف ہے۔ خالد سہیل کی محبوبہ کا جو تاثر خالد سہیل کے ذہن پر ہوگا وہ میر سے مختلف ہوگا۔
اگر تجربہ جدا ہوگا تو اس کا اظہار بھی جداگانہ ہونا چاہیے۔ یہ ہے جسے میں کہتا TO FIGHT THE CLICHE۔۔ خیال کا کلیشے احساس کا کلیشے الفاظ کا کلیشے۔ ان تینوں سے آپ جنگ کرتے رہیں۔ ممکن ہے کہ خالد سہیل میر تقی میرؔ تو کبھی نہ بن پائیں مگر وہ اپنا لکھیں گے تو کم از کم اپنے آدمی تو ہوں گے۔ اپنے انداز میں بات تو کریں گے۔THIS IS IMPORTANT .اس لیے میں نے جو سقراطوں اور مسیحاؤں کے منہ پر تھوکنے کے بارے میں لکھا ہے وہ اس لیے کہ ہمارے ہاں سارے شاعر اور ادیب سقراط اور مسیحا بنے ہوئے ہیں۔ سچائی کا جو زہر وہ پیے ہوئے ہیں دراصل وہ مکر اور جھوٹ کا قاتل ذہر ہے۔
سہیل: ہم واپس خدا کی طرف آتے ہیں۔ ایک طرف مشرقِ وسطیٰ کے SEMITIC RELIGIONS ہیں جن میں یہودیت عیسائیت اور اسلام شامل ہیں ان کے ماننے والے ایک خدا کو مانتے ہیں۔ وہ اسے خالق مانتے ہیں اور کائنات کو مخلوق۔ وہ ہمہ از اوست کے فلسفے پر ایمان رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان کے وہ فلسفے ہیں جو ہمہ اوست پر ایمان رکھتے ہیں۔EVERTHING THAT EXISTS IS GODآپ کا ان نظریوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
ساقی: PAGANS کا خیال تھا کہ ہم مظاہرِ فطرت کی وساطت سے خدا تک پہنچ سکتے ہیں۔ ان کا خدا مشرقِ وسطیٰ کے خدا سے مختلف رہا ہے۔ میرے دل میں سب سے زیادہ عزت بدھا کی ہے ۔
ویسے تو میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ہوں اور اپنے رسول کی عزت اور ان سے محبت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے بہت اچھے اچھے کام کیے ہیںHE DID WONDERS۔۔مسلمانوں نے ان کی پیروی نہیں کی۔ سینکڑوں گھپلے کر دیے لیکن THAT MAN WAS GREATانہوں نے ان حالات میں پیدا ہو کر بھی عورتوں کو یعنی دنیا کی آدھی آبادی کو ان کے حقوق دلوائے۔ انہوں نے کمال کے کام کیے۔ بکھرے ہوئے لوگوں کو متحد کرنا‘ ایک آدرش کو لے کر چلنا آسان کام نہیں۔
اسی طرح مجھے موسیٰ پسند ہیں ۔انہوں نے غلاموں کے قبیلے کو اٹھایا اور لے کر چل دئے۔ یہ سب جھوٹ ہے کہ عصائےِ موسیٰ کی ضرب سے پانی پھٹ گیا تھا۔ میری نگاہ میں تمام معجزے فضول ہیں اور بعد میں آنے والوں کے ذہن کا اختراع ہیں۔ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا بنا دینا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔۔مریم نے جوزف سے عشق کیا تو اس میں خرابی کیا ہے شادی نہیں کی تو کیا ہوا یہودی اسے برداشت نہ کر سکے عیسائی پروہت اسے قبول نہ کر سکے چنانچہ انہیں کہانی گھڑنی پڑی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ میں نے ایک نظم لکھی تھی جس میں خدا کہتا ہے کہ میرے CONDOMS مجھے واپس دے دو۔
محمد کے بارے میں بھی معجزے مشہور کر دیے۔ کہ ان کا سایہ نہیں تھا۔ یہ کیا STUPIDITY ہے۔کہتے ہیں وہ معراج سے واپس آئے تو کنڈی ہل رہی تھی۔ ارے بھائی اسے روحانی تجربہ بتاؤ نہ کہ جسمانی۔
سر سید نے مذہب کو سائنس کی نگاہ سے دیکھا تو اسے ملحد قرار دے دیا۔ اگر آج اقبال زندہ ہوتے تو انہیں شکوہ لکھنے پر قتل کر دیتے۔ ہمارے ہاں MEDIOCRES بہت ہیں۔ اسی طرح برہمنوں نے اپنی برتری قائم کرنے کے لیے اپنے آپ کو بھگوان کے سر سے پیدا کروایا اور بقیوں سے کہا کہ تم ہمارے غلام ہو تم دھڑ اور پیر سے پیدا ہوئے ہوئے ہو، کم تر انسان ہو اس لیے ہماری خدمت کروTHEY MANIPULATED THE SCRIPTURES
میں کہہ رہا تھا کہ میں بدھا سے بہت متاثر ہوں۔ تین سال پہلے میں اور میری بیگم یورپ کی سیر کر رہے تھے یورپ کے ہوٹلوں میں بائبل ہوتی ہے جسے پڑھ پڑھ کر انسان تنگ آ جاتا ہے۔ مجھے کسی نے قرآن کا تحفہ دیا تھا کہ میں مسلمان ہو جاؤں۔ میں نے جرمنی کے کسی ہوٹل میں بائبل کی جگہ قرآن رکھ دیا میں نے سوچا چلو کوئی تو اسے بھی پڑھے گا۔
ایک اہم تجربہ سری لنکا میں ہوا۔ جب ہم سری لنکا پہنچے تو اپنی بارش ہو رہی تھی کہ ہم ہاہر نہ جا سکے۔ ہوٹل میں بدھا کی کتاب DHAMMA PADDA پڑی تھی اس کے چند اوراق پڑھے تو میں بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعد میں جس ہوٹل میں جاتا اس کے چند صفحے پڑھتا۔ میں بدھا کی تعلیمات سے بہت کرب میں مبتلا ہوا۔ اگر میں مسلمان نہ ہوتا تو بدھسٹ ہوتا۔
مجھے بدھا بہت پسند آیا۔ اگر وہ مشرقِ وسطیٰ میں ہوتا تو اسے صرف ایک خدا سے ہی انکار کرنا پڑتا۔ لیکن ہندوستان میں تو اسے ہزاروں خداؤں سے انکار کرنا پڑا۔ اس نے محل چھوڑا ‘بیوی اور بیٹے کو چھوڑا۔ جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا برسوں کی SUFFERING کے بعد اس نے خدا کو ہی چھوڑ دیا۔ عیسیٰ سے پانچ سو سال پہلے اس نے کہہ دیا کہ جو کچھ ہے تمہارے اندر ہی ہے۔ باہر کوئی خدا نہیں ہے۔جنت جہنم سب تمہارے اندر ہیں۔
THIS WAS A REMARKABLE ACHIEVEMENT OF A MAN۔
بدھا وہ واحد ہستی تھی جس نے جھوٹ نہیں بولا۔ اس نے کہہ دیا کہ نہ آسمان پر خدا ہے نہ زمین پر۔ انکار اور اقرار صرف اندر کا معاملہ ہے۔
سہیل: آپ کی طرح برٹندرسل بھی بدھا کو پسند کرتا ہے۔ اس کی وجہ البتہ کچھ اور ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں بدھا سے موسیٰ عیسی اور محمد سے زیادہ اس لیے متاثر ہوں کہ اس کے فلسفے میں جہنم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ رسل کہتاہے کہ خدا کا وہ تصور جو انسانوں کو گناہوں کی سزا دے گا اور جہنم کی آگ میں ہزاروں سال جلائےگا خدا کا کوئی ہمدردانہ تصور نہیں ہے۔
ساقی: میرا خدا کا تصور شاعر کا تصور ہے فلسفی کا نہیں۔ رسل تو فلسفی تھا۔ اس نے بہت غور و خوض کیا تھا اور مسائل کی گتھیوں کو سلجھایا تھا میں ایک سیدھا سادا معمولی سا شاعر ہوں اور میرا ایک سیدھا سادا معمولی سا نظریہ ہے۔
سہیل: آپ نے جوانی کے جو سال پاکستان میں گزارے ان کے بارے میں بتائیں۔؟
وہاں کیسا ماحول تھا جنس کے بارے میں کیا رویہ تھا اور آپ کے کیا تجربات تھے؟
ساقی: اب میں اپنے بھتیجے اور بھانجوں کو پاکستان میں دیکھتا ہوں سب کی گرل فریندز ہیں۔ مجھے بڑی مشکل سے کوئی عورت ملتی تھی تو اپنے طور پر پیار کر لیتا تھا۔میرا پہلا جنسی تجربہ اپنے ایک ادیب دوست کی بیوی سے ہوا۔ تھا۔ وہ تجربہ بہت دیر سے ہوا ۔میں پچیس چھبیس سال کا تھا۔ جب PROPER SEXUAL INTERCOURSE کیا۔ لیکن اس تجربے کے بعد غضب ہو گیا۔ میں خوف اور GUILT کی وجہ سے ایک سال کے لیے نامرد ہو گیا۔ پھر یہ بھی کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ میرا ایک اور ادیب دوست بھی اسی عورت سے INVOLVE ہے۔
میرے دوست کی بیوی مجھے دعوت دیتی لیکن میں نہ جاتا۔ آخر ایک دن یونیورسٹی سے گھر آتے ہوئے میں راستے میں اس کے گھر کے سامنے بس سے اتر گیا ۔اب تم میری نامردی کا سبب سن لو۔ میں نے اس عورت کے ہاں چشمہ اتارا تکیے کے نیچے رکھا اور اس کے ساتھ سو گیا۔ ہمبستری سے ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اس کا خاوند بھی آ گیا تھا۔ اور میرا رقیب دوست بھی جو ایک فتین نقاد تھا۔ اس کے شوہر کو بھی یہ پتہ نہ تھا کہ دوسرا دوست بھی INVOLVE ہے۔ کہنے لگی” OH MY GOD یہ کیاہو گیا۔ پیچھے کے دروازے سے نکل جاؤ‘۔ میں نے پتلون اوپر کی اور بھاگا۔
گلی میں جا کر پتہ چلا کہ اپنی عینک تو اس کے تکیے کے نیچے ہی بھول آیا ہوں۔ مجھے کچھ صاف نظر نہیں آ رہا تھا، نظر کمزور تھی۔ میں نے واپس آ کر دروازے پر دستک دی۔ دوست نے دروازہ کھولا پوچھا کیوں آئے ہو؟۔ میں نے کہا ’عینک بھول گیا ہوں‘۔اور اندر جا کر تکیے کے نیچے سے عینک لے لی۔ میں بھی کتنا بے وقوف تھا۔ I COULD HAVE WAITED FOR THE BLOODY GLASSES. HE WAS STUNNEDاس کی بیوی نے اپنے کو بچانے کے لیے مجھ پر الزام تراشا اور شوہر سے کہا کہ آپ کے دوست کیسے ہین آپ نہیں ہوتے تو چلے آتے ہیں۔ میں اس واقعے سے اتنا پریشان ہوا کہ ایک سال کے لیے نامردہو گیا۔ وہ میرا پہلا PROPER SEXUAL ENCOUNTER۔تھا۔
اب دوسرا ENCOUNTER بھی سن لو۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لندن آنے کی تیاری کر رہا تھا۔اس زمانے میں میں بڑا LEFTIST تھا۔ اب انارکسٹ بنتا جا رہا ہوں۔ یونیورسٹی کے جلسے جلوسوں میں شامل ہوا کرتا تھا۔ گھر کے باہر پولیس رہتی تھی۔ اماں پولیس کو دیکھ کر روتی تھیں۔ کہتی تھیں بیٹا یہ کام چھوڑ دو شاعری چھوڑ دو انڈے کھایا کرو دودھ پیا کرو صحت کا خیال کرو۔ وہ مجھ سے ہندوستانی پاکستانی ماؤں کی طرح بہت محبت کرتی تھیں۔
پاسپورٹ بنوانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ میں کراچی میں بلیک لسٹڈ ہوں۔ میرا ایک دوست محفوظ الرؤف حیدر آباد سندھ میں پاسپورٹ آفیسر تھا۔ اس نے بلوا بھیجا۔ کہنے لگا یہاں آ جاؤ پاسپورٹ بنوا دوں گا۔ میں وہاں ایک ہفتے کے لیے ہوٹل میں ٹھہرا ۔وہاں کی کئی لڑکیاں مجھے جانتی تھیں۔ انہوں نے میری شاعری پڑھ سن رکھی تھی۔ میرا خیال ہے میری شاعری خاصی معمولی تھی اس زمانے میں( شاید دوسروں کے مقابلے میں ذرا بہتر تھی) مگر چونکہ وہ بھی معمولی تھیں اس لیے وہ مجھ سے ملنے آنے لگیں۔
ایک بار ایک لڑکی پیچھے کے دروازے سے آئی ہوٹل والوں کو پتہ چل گیا۔ ان دنوں اختر انصاری اکبر آبادی ایک رسالہ نکالا کرتے تھے ان کا اسی ہوٹل میں دفتر تھا۔ ہوٹل کے منیجر نے ان سے شکایت کی کہ ساقی لڑکیاں لاتا ہے ہوٹل کیREPUTATION خراب کررہا ہے۔
ایک دن ایک لڑکی مجھ سے ملنے آئی میں نے اس کے پستان چھوئے۔شلوار اتاری میں اپنی نامردی کا علاج کر رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ پوچھا ’کون‘؟
آواز آئی ’حمایت علی شاعر‘۔
میں نے کہا ’ایک منٹ رک جاؤ‘۔ میں نے فوراٌ کپڑے پہنے لڑکی نے بھی شلوار پہنی برقعہ پہنا اور ادب سے بیٹھ گئی۔
حمایت علی شاعر اور اختر انصاری اکبر آبادی دونوں اندر آ گئے۔ غضب یہ ہوا کہ وہ لڑکی حمایت کو جانتی تھی کہنے لگی ’چچا جان السلام علیکم۔
’سلام بیٹی‘ حمایت بولے
بعد میں حمایت نے بتایا کہ اختر انصاری KEY HOLE سے دیکھ رہے تھے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ یہ بھی عجب مسئلہ ہوا۔
۶۳ سے ۶۶ تک لندن میں بہت سے جنسی تجربات ہوئے۔ پاکستان سے تو پیاسا ہی آیا تھا۔ لندن میں ایک ساتھ دو دو تین تین گرل فرینڈ رہیں لیکن میں تین سال کے بعد تھک گیا EMPTINESS شدید ہو گئی۔ سب لڑکیوں سے I LOVE YOU کہتے کہتے مجھ میں کوئی FEELING نہیں رہی۔ تعلقات میں احساس ہی شامل نہیں تھا۔
I FELT LIKE A DOG
پھر میری اپنی بیوی سے ملاقات ہوئی۔ اور گرل فرینڈز کا سلسلہ ختم ہو گیا۔
AND I ABANDONED THE WHOLE THING. AFTER I MET MY WIFE I DID NOT SLEEP WITH ANYBODY ELSE. IT HAS BEEN NEARLY 30 YEARS. I FEEL EMOTIONALLY FAITHFUL WITH MY WIFE. I AM NOW A ONE WOMAN MAN.
تین برسوں میں دیکھ لیا کہ مختلف عورتوں سے جذباتی بے تہی کے ساتھ وصال سے EMPTINESS کتنی بڑھ جاتی ہے. I NEVER FELT OR WANTED TO CHEAT MY WIFE. I STILL MEET, LIKE AND DESIRE YOUNG WOMEN BUT I NEVER SLEEP WITH THEM.
سہیل: اب کچھ باتیں آپ کی ادبی زندگی کے بارے میں ہو جائیں۔ آپ اس وقت اردو ادب کی سب سے زیادہ CONTROVERCIAL شخصیت ہیں۔ آپ بتائیں کہ یہ کیسے ہوا؟
ساقی: IT TOOK ME 44 YEARS TO GET WHERE I AM NOW. I LOVE CONTROVERSY BUT I LOVE APPRECIATION EVEN MORE. MAY BE IT WILL COME۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میں نے سوچا
I SHOULD REALLY ABANDON LITERATURE AND NOT WRITE A SINGLE LINE OF POETRY. I DETESTED TO WRITE IN CLICHÉ LIKE OTHER TOMS DICKS AND HARRIES.
سہیل: اپنے ادب کے ارتقائی سفر کے بارے میں کچھ بتائیں
ساقی: میرے ادبی سفر کا آغاز کہانیوں سے ہوا۔ میٹرک کے زمانے میں افسانے لکھے جو ’شاہین‘ رسالے میں چھپے۔ میں نے اس وقت بھی ان کہانیوں میں’ سالا‘ اور ’حرامی‘ جیسے الفاط استعمال کیے تھے جن سے ہیڈ ماسٹر صاحب ناراض ہوئے۔ چٹاگانگ میں جب میں کراچی کے جہاز کا انتظار کر رہا تھا میرے پھوپھا نے مجھے ۵۰ ۔۔۵۱ کا بہترین ادب دیا۔ میں ان مجموعوں سے بہت متاثر ہوا۔ وہ ترقی پسند ادب تھا۔ میں نے ۵۲ میں پہلی نظم لکھی۔
کراچی میں جو تیس کہانیاں لکھیں وہ اسی دفتر کے کاغذات پر لکھیں جہاں میں کلرکی کرتا تھا۔ سپرٹنڈنٹ صاحب نے چرا لیں اور دھمکی دی کہ اگر واپسی کا مطالبہ کیا تو وہ مجھے پولیس کے حوالے کر دیں گے۔ چنانچہ میں شاعر بن گیا۔ذہن میں خناس تھا کہ نئی بات کہی جائے۔ استاد کسی کو بنانا نہیں چاہتا تھا سوچا استاد مجھے کیا بتائیں گے۔ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ بعد میں کہیں کہ یہ میرا شاگرد تھا۔ میں نے خود اتنی پریکٹس کی کہ شعر موضوں ہونے لگے۔ ۵۵ سے میری شاعری ’ادبَ لطیف‘ میں چھپنے لگی۔ شروع سے ہی میں کراچی کی نسبت لاہور میں زیادہ چھپا۔۔
قاسمی صاحب اور سبطِ حسن مجھے ’امروز‘ اور ’لیل ونہار‘ میں چھاپتے تھے۔ ایک غزل کے دس روپے دیتے تھے۔ میں کہتا تھا مجھے پچاس روپے بھیج دیجیے فیس کی ضرورت ہے۔ وہ بھیج دیتے تھے اور میں انہیں غزلیں لکھ لکھ کر بھیجتا رہتا تھا۔ قاسمی صاحب اور سبطِ حسن بہت مہربان تھا۔ انہوں نے میری بہت مدد کی۔
پھر میں حلقہِ اربابِ زوق میں جانے لگا۔ وہاں ضیا جالندھری سے ملاقات ہوئی۔ پھر ریڈیو پاکستان میں کام کیا۔ بچوں کے گیت لکھے ڈرامے لکھے پھر سلیم احمد، حمید نسیم ،جمیل جالبی ،جمیل الدین عالی، مدنی محبوب، خزاں شمیم احمد ،اطہر نفیس جمال پانی پتی، نگار صہبائی سے دوستی ہوئی۔ میں صبح وشام ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا۔ وہ سب مجھ سے بڑے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ جوان میں ہی تھا۔ وہ میری شاعری سے محبت کرتے تھے۔
ان دنوں میں ترقی پسندی والی یک رخی شاعری کیاکرتا تھا۔ بعد میں میں نے وہ سو سوا سو نظمیں غزلیں کاٹ کر پھینک دیں۔ ان میں یکسانیت تھی۔ وہ سب کلیشے کی شاعری تھی۔ مگر اس سے میری ہاتھ کی گرہ کھل گئی زبان کی زنجیر کھل گئی۔ میں نے ان ہی دنوں ’نظم کا سفر‘ والا مضمون لکھنا شروع کیا تھا۔ جو بعد میں مشہور ہوا۔ پہلے اس میں چار شاعر شامل تھے فیض میرا جی راشد اور مجاز۔ بعد میں میں نے مجاز کو نکال دیا کہ اس نے اپنے امکانات پورے نہیں کیے اور باقی تینوں کی تکون بنائی۔
I WAS THE FIRST ONE TO INVENT THAT TRIANGLE
سلیم احمد نے کہا تم نے کمال کر دیا۔
I AM A SLOW WRITER. I CALL MYSELF A PART TIME CRITIC
میں نے تیس سالوں میں تنقید کے تین سو صفحے لکھے ہیں۔ انگریزی ادب کے مطالعہ نے میرا ذہن کھول دیا تھا۔اسی زمانے میں انتظار حسین احمد فراز مظفر علی سید اور شہزاد احمد سے ملاقات ہوئی پھر ناصر کاظمی سے ملاقات ہوئی۔ مجھے اس سے بہت محبت تھی۔ میں اسے بہت اچھا شاعر مانتا ہوں۔ ایک محفل میں میں نے غزل پڑھی اور ناصر کاظمی نے جالبی سے کہا تم اس کی چیزیں ’نیا دور‘ میں کیوں نہیں چھاپتے۔ یوں کراچی کے رسالوں میں بھی چھپنے لگا۔
ایم اے انگریزی کرتے ہوئے عسکری صاحب سے بھی ملا۔ وہ مشورہ دیا کرتے تھے کہ فلاں فلاں کتابیں پڑھ لینا۔THAT IS HOW MY MIND DEVELOPED
مگر میں ایم اے ختم کیے بغیر لندن چلا گیا۔ ادب اک FOURTH DIMENSION میں نے لندن میں آ کر DEVELOP کیا۔ میں صرف پانچ پونڈز لے کر لندن پہنچا تھا۔ پہلے چند سال بڑی مشکل سے گزرےI STARTED FROM THE SCRATCH
بی بی سی سے ہفتے میں دو تین پروگرام اور دس پونڈ مل جاتے تھے۔ دفتر سے بھی دس پونڈ مل جاتے تھے۔ لیکن وہ سب اپنی گرل فرینڈز پر خرچ کر دیتا تھا۔ اتنی گرل فرینڈز کا رکھنا خاصا مہنگا سودا تھا
I HAD TO WORK AT TWO OR THREE PLACES
پھر میں اکاؤنٹنٹ بن گیا۔ پروگریمر بن گیا۔ اپنا گھر بنا لیا۔ شادی کر لی۔ اور پھر زندگی قدرے آسان اورCOMFORTABLE ہو گئی
سہیل: آپ پر لوگوں نے پتھر کب پھینکنے شروع کےَ؟
ساقی: ’نظم کے سفر‘ کے مضمون سے۔ جب میں نے فیض کے مقابلے میں میرا جی اور راشد کو زیادہ اہمیت دی تو CONTROVERCY۔شروع ہو گئی۔ فیض صاحب اتنا برا نہیں مانتے تھے جتنا ان کے چپڑ قناتی چیلے۔ فیض صاحب سے تو دوستی قیامت کی تھی۔ وہ لندن آتے تو مجھ سے ملے بغیر نہ جاتے۔HE WAS A DECENT AND MARVELOUS MAN
لوگ کہتے ہیں میں نے صرف فیض کے خلاف لکھا ہے۔ میں کہتا ہوں میں نے ان کی پندرہ سولہ ایسی نظموں کی نشاندہی کی ہے جن کے بغیر نظم کا سفر پورا نہیں ہوتا۔ فیض میرا جی اور راشد مین سے کوئی بھی میر غالب اور اقبال تک نہیں پہنچ سکے ہاں وہ تینوں مل کر ایک میر ایک غالب یا ایک اقبال بناتے ہیں۔( یہ کہہ کر میں نے اپنی گنجائش بھی نکال لی ہے)۔
سہیل: آپ ترقی پسند شاعری سے جدید نظم کی طرف کیسے آئے۔۔۔یہ TRANSITION کیسے ہوا۔
ساقی: جب میں نے نظم کے بارے میں مضمون لکھا تو مجھ پر خود اپنا نقطہِ نظر واضح ہوا۔CLARITY OF THOUGHTپیدا ہوئی۔ ترقی پسند تحریک نے ہمیں افسانہ نگار تو کئی دیےہین لیکن شاعر صرف ایک ہی دیا ہے یعنی فیض ۔بیدی منٹو او عصمت انسان کی پوری ذات کا اظہار کرتے رہے۔ افساانے میں قاسمی صاحب کا نام بھی بہت اہم ہے HE HAS WRITTEN SOME REMARKABLE STORIES
اب وہ تھوڑے سے ناراض ہیں کہ میں نے اپنے اور ان کے خطوط چھپوا دیے ہیں میں نے فون پر اور خط میں ان سے کہا کہ ادب میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی۔ آپ زندگی میں تو لوگوں کے منہ بند کروا سکتے ہیں مرنے کے بعد کیا ہوگا؟۔ ساری باتیں سامنے آ جائیں گی۔ میں نے جو بات بھی کی ہے کھل کر کی ہے۔ میں نے کبھی کمینگی سے کسی کے خلاف بات نہیں کیI WANT TO JUDGE THE WRITTEN LINE
اچھی ہے تو کیوں اچھی ہے؟ بری ہے تو کیوں بری ہے؟۔ میں نے ایک دفعہ راشد صاحب سے کہا تھا کہ انگریزی شاعری میں پاؤنڈ ایلیٹ اور ییٹس کا جو مقام ہے وہ فیض میرا جی اور راشد کا نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ اگر ہمارے پاس بھی وہی وسائل ہوتے تو شاید ہم بھی بہتر لکھ سکتے۔ وہ کہہ سکتے تھے کہ کیا بکواس کر رہے ہو مگر وہ ریشنل ذہن کے مالک تھے۔ وہ میری رائے کا احترام کرتے تھے۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ راشد کے ساتھ دو سال بہت اچھے گزارے۔
سہیل: نثری نظم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ساقی؛ جب راشد کی آزاد شاعری کا پہلا مجموعہ ’ماورا‘ چھپا تو اس نے اردو میں آزاد شاعری کو ESTABLISH کیا۔ جب نثری شاعری کی بھی کوئی بڑی کتاب چھپے گی تو وہ بھی ESTABLISH ہوگی۔ یگانہ آزاد شاعری کو نہیں مانتے تھے مگر راشد نے اپنی آزاد نظم بنائی تو کہنے لگے یہ تو واقعی ادب پارہ ہے۔
ویسے تو کئی شاعروں نے اچھی اچھی نظمیں لکھی ہین لیکن ابھی اچھے مجموعے سامنے نہیں آئے میری نگا ہ میں۔ اردو میں نثری نظموں کا تو مستقبل ہے رباعی اور ہائیکو کا کوئی مستقبل نہیں۔رضی اختر شوق سے کسی نے پوچھا کی اردو میں ہائیکو کا کیا مقام ہے کہنے لگے وہی ہے جو جاپانی شاعری میں غزل کا ہے۔ میں نے خود بھی چند نثری نظمیں لکھی ہیں
سہیل: مغرب میں جو اردو ادب تخلیق ہو رہا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا تاثر ہے
ساقی: مغرب میں لکھنے والوں کی اکثریت تو ایسی جو یہاں بھی وہی لکھ رہے ہیں جو وہ پاکستان ہندوستان میں لکھتے تھے ہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مغربی زندگی کا تجربہ کیا مشاہدہ کیا اور THOUGHT PROVOKING۔۔چیزیں لکھیں۔ ان ادیبوں میں سائیں سچا‘ سعید انجم‘ خالد سہیل‘ افتخار نسیم (جس سے میں آج کل خفا ھوں)۔اور جتندر بلو شامل ہیں۔ انہوں نے مغرب کی زندگی کو ایکسپٹ کیا ریجکٹ نہیں کیا۔ یہ لوگRIGHT PATH۔پر ہیں۔
آپ لوگوں کو صرف میرا یہ مشورہ ہے کہ جرنلسٹ کی طرح تجربے اور مشاہدے کو فوراٌ نہ بیان کیا کریں تجربے اور مشاہدے کو اپنے اندر چند سال پکائیں اور پھر اس کا تخلیقی اظہار کریںREACT نہ کریںCREATE کریں۔ آپ لوگوں کیRECOGNITION بھی ذرا دیر سے ہوگی لیکن اس کی فکر نہ کریں اپنا تخلیقی کام کرتے رہیں ۔آپ لوگوں نے چند بہت خوبصورت چیزیں تخلیق کی ہیںPEOPLE LIKE YOU CAN DO SOMETHING MARVELOUS. YOU HAVE A BRIGHT FUTURE.
منیر الدین احمد نے بھی کئی اچھے افسانے لکھےہیں لیکن وہ مذہبی آدمی ہے۔ اپنے آپ کوJUSTIFY کرتا رہتا ہے یہ بڑا سقم ہے۔ ادب کا مذہبی ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔ سائیں سچا تمہارا سعید انجم اور جتندر بلو کا یہ مسئلہ نہیں ہے اس لیے میں تم لوگوں کی بہت عزت کرتا ہوں اسی طرح مجھے افتی نسیم بھی پسند ہے۔ مگر اس کی ایک جہتی شاعری اب بور کرنے لگی ہے۔ میں اس کو بھی سپورٹ کرتا ہوں اور اس کی پوری تحریک کو بھی سپورٹ کرتا ہوں۔ میں خود تو خالص ہیٹروسیکشول ہوں لیکن گے اور لیسبین تحریکوں کو سپورت کرتا رہتا ہوں۔ میں کسی بھی جنس کے دو انسانوں کے جنسی تعلقات کو سپورٹ کرتا ہوں بشرطیکہ ان میں دونوں کی باہمی رضامندی شامل ہو اور دونوں جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہوں۔
ساقی
عجب لگاؤ ہے ماچس کی تیلیوں سے تجھے۔۔
۔کہیں یہ آگ تجھے بھی نہ راکھ کر ڈالے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ساقی فاروقی
اس نے روایت کی مٹی سے
بغاوت کا بت بنایا
ضرااتِ رندانہ کی دھوپ میں اسے سکھایا
اور پھر
اس سے
اتنی بار سر ٹکرایا کہ
اس کا اپنا سراپا
شہرت اور بدنامی کے خون سے لت پت ہو گیا
شاید
اس کے مرنے کے بعد
جب
شہرت اور بدنامی کا کون دھل جائے گا
تو
اس کے فن کی خوبصورتی
نکھر کر سامنے آئے گی
یہ انٹرویو 1999میں کیا گیا تھا۔ خالد سہیل
3 Comments